حضرت فرید الدین کریم بابا
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14740
آپ کاٹھیاوار کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن ہی میں باباتاج الدین ؒ کے پاس حاضر ہوگئے تھے۔ باباتاج الدینؒ سے مستفیض ہونے کے علاوہ آپ نے باباصاحبؒ کے دیگر فیض یافتگان سے بھی کسبِ فیض کیا۔ باباصاحبؒ کے حکم سے حکیم نعیم الدین کے خدمت میں رہ کر تصوف کے علاوہ طب اور دواسازی کی تعلیم حاصل کی۔ خواجہ علی امیر الدین کے پاس بھی رہے۔ آپ کو باباتاج الدینؒ سے گہرا قلبی لگاؤ رہا۔ کریم بابا نے باباتاج الدینؒ کے حالات وکشف وکرامات پر مبنی ایک کتاب ’’تاج مراری‘‘ بھی تالیف کی۔ آج کل آپ تاج آباد کمیٹی کے صدر ہیں۔ تاج آباد کمیٹی باباتاج الدینؒ کی درگاہ اور عرس کے انتظامات کرتی ہے۔
حضرت فریدالدین تاجی (کریم باباصاحب) اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: جھانسی سے ایک صوفی صاحب باباصاحبؒ سے ملاقات کے لئے شکردرہ آئے۔ صوفی صاحب کاقیام میرے ساتھ تھا۔ اورہم دونوں میں ہروقت تصوف اور روحانیت پر گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے شاہ صاحب سے پوچھا ۔’’کیا کوئی ایسا آسان طریقہ ہے، جس کے ذریعے مجھ میں ایسی صلاحیت پیدا ہوجائے کہ میں عرفان کی منزل کو تیزی سے عبور کرلوں۔‘‘ انہوں نے ایک عمل بتاتے ہوئے کہا کہ اس عمل کو کسی قبرستان میں کرو۔ جذبۂ شوق سے مغلوب ہوکر میں قبرستان جاکر یہ عمل کرنے لگا۔ تیسرے روز آنکھیں بند کئے اپنے عمل میں مشغول کہ مجھے محسوس ہوا کہ باباصاحبؒ خفگی میں ڈوبی ہوئی آوازمیں مجھے پکاررہے ہیں۔ میں نے کھول کر چاروں طرف دیکھا تو باباصاحب ؒمجھے دکھائی نہ دیئے۔ میں دوبارہ آنکھیں بند کر کے عمل میں غرق ہوگیا۔ جیسے ہی عمل شروع کیا باباصاحبؒ کی غصہ بھری آوازکان میں پڑی۔ گویا آپ مجھے منع فرما رہے ہیں۔ میں فوراً اٹھا اور شکردرہ تالاب کے کنارے کنارے چلتا ہوا باباصاحبؒ کی نشست گاہ کی طرف بڑھا۔ اس وقت رات کے تین بجے تھے۔ جونہی میں اپنے پرانے جھونپڑے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آم کے درخت کے نیچے باباصاحبؒ موجودہیں۔ بابانے مجھ سے کہا۔’’کیوں رے!کون بولابڑے بڑے پہاڑاں کھودنے کو؟ یہ ماچس لے۔‘‘
باباصاحبؒ نے ماچس مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔’’کاہے کورے اِدھر اُدھر ڈھونڈھتاہے۔‘‘پھر آپ نے کچھ الفاظ ادا فرمائے جو میری سمجھ میں نہ آئے۔ دل ہی دل میں عرض کیا۔’’حضور میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے کیا فرمایا۔‘‘ دل میں اس خیال کے آتے ہی باباصاحبؒ نے ایک طمانچہ مجھے مارا اورفرمایا۔’’ذہن چراتاہے۔‘‘
باباصاحبؒ نے برابر کھڑے ہوئے ایک صاحب کے کندھے سے شال لیکر دوپلو میرے ہاتھ میں دیئے اور دوپلو خود پکڑکر فرمایا۔’’بچھا، یہ ہے دوکان
مثنویٰ مادکانِ وحدت است وحدت اندر وحدت اندروحدت است
جب باباصاحبؒ نے مجھے ماچس دی تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جس طرح ماچس کی تیلی میں شعلۂ نور چھپا ہوا ہے اسی طرح اللہ کا نور بھی میرے اندر موجود ہے۔ اللہ کو اپنے پاس رکھ کر اِدھراُدھر ڈھونڈنا اورخود سے الگ سمجھنا لاحاصل ہے۔ جب انسان خود کو پہچان لیتاہے تو اس ہستی کا عرفان حاصل کر لیتاہے۔ جس نے خود کو متعارف کرانے کے لئے کائنات کو وجود کا لباس پہنایاہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 192 تا 194
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔