اجمیر یہیں ہے
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14659
ایک صاحب نے باباصاحبؒ سے درخواست کی کہ،’’حضور! میں اجمیر جانا چاہتا ہوں۔‘‘ باباصاحب نے فرمایا کہ ’’اجمیر یہیں ہے، کہاں جاتاہے۔‘‘ یہ کہہ کر باباصاحب نے ان صاحب کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ وہ صاحب اپنے ماحول سے بےخبر ہوگئے اور دیکھا کہ اجمیر شریف کی سیر کر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد باباصاحب نے ان کے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا تو انہوں نے خود کو باباصاحب کی خدمت میں موجود پایا۔
اس کرامت کی توجیح قلندرباباؒ کے ان ارشادات سے ہوتی ہے: انسان کی ذات کا ایک حصہ داخلی ہے اور دوسرا خارجی۔ داخلی حصّہ اصل ہے اورخارجی حصّہ اس ہی اصل کا سایہ ہے۔ داخلی حصّہ میں زمان اور مکان دونوں نہیں ہوتے۔ لیکن خارجی حصہ میں زمان اور مکان دونوں ہوتے ہیں۔ داخلی حصّہ میں ہر چیز جزولاتجزا کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی مکانیت کا احاطہ نہیں کرتی۔ صرف مشاہدہ ہوتی ہے۔ مکانیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اندر زمانیت بھی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر ہم کسی امارت کی ایک سمت میں کھڑے ہوکر اس امارت کے ایک زاویہ کو دیکھتے ہیں۔ جب اس امارت کے دوسرے زاویہ کو دیکھنا ہوتاہے تو چند قدم چل کے اور کچھ فاصلہ طے کرکے ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے امارت کے دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے۔ نگاہ کا زاویہ تبدیل کرنے میں چند قدم کا فاصلہ طے کرنا پڑا اور فاصلہ طے کرنے میں تھوڑا سا وقفہ بھی صرف ہوا۔ اس طرح نظر کا ایک زاویہ بنانے کے لئے مکانیت اورزمانیت دونوں وقوع میں آئیں۔ ذرا وضاحت سے اس بات کو یوں بیان کرسکتے ہیں کہ جب ایک شخص لندن ٹاور کو دیکھنا چاہے تو کراچی سے سفر کرکے اس کو لندن پہنچنا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں اس کو ہزاروں میل کی مکانیت اور کئی دنوں کا زمانہ لگانا پڑا۔ اب نگاہ کا وہ زاویہ بنا جس سے لندن ٹاور دیکھا جا سکتاہے۔ مقصد صرف نگاہ کا وہ زاویہ بنانا تھا جو لندن ٹاور کو دکھا سکے۔ یہ انسان کی ذات کے خارجی حصہ کا زاویۂ نگاہ ہے۔
اس زاویہ میں مکانیت اور زمانیت استعمال ہونے سے کثرت پیدا ہوگئی۔ اگر ذات کے داخلی زاویۂ نگاہ سے کام لینا ہوتو ہم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذہن میں لندن ٹاور کا تصور کرسکتے ہیں۔ تصور کر نے کے لئے جو نگاہ استعمال ہوتی ہے وہ اپنی توانائی کی وجہ سے ایک دھندلہ سا خاکہ دکھاتی ہے لیکن وہ زاویہ ضرور بنادیتی ہے جو ایک طویل سفر کرکے لندن ٹاور تک پہنچنے کے بعد ٹاور کو دیکھنے میں بنتاہے۔ اگر کسی طرح نگاہ کی ناتوانی دور ہوجائے تو زاویہ ٔنگاہ کا دھندلہ خاکہ روشن اور واضح نظارے کی حیثیت اختیار کر سکتاہے۔ اور دیکھنے کا مقصد بالکل اسی طرح پورا ہوجائے گا جو سفر کی جدوجہد اور سفرکے بہت سے وسائل استعمال کرنے کے بعد پورا ہوتا ہے۔
باباتاج الدینؒ اولیاء نے تصرف کے ذریعے سائل کی نظرمیں وہ زاویہ پیدا کر دیا جو اجمیرشریف کے نظارے کے لئے درکار تھا۔ اور اس نے اجمیر شریف کی سیر بالکل اسی طرح کرلی جیسے وہ وہاں موجود ہو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 76
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔