اندازِ گفتگو
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14633
بابا تاج الدینؒ کا لب ولہجہ مخصوص تھا۔ آپ مدراسی لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ اردوبولنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ سوچ کر بولنا پڑتا تھا۔ پھر بھی الفاظ میں کچھ ایسا زور ہوتا تھا کہ سامعین ان کا مافی الضمیر فوراًسمجھ جاتے تھے۔ بات مختصر اور پُرمعٰنی ہوتی تھی۔ کبھی مثالی زبان میں بات کرتے تھے، جس کا مطلب ایک ذہین شخص فوراً نکال سکتا تھا۔ اکثر قرآنی آیات کو گفتگو میں اس طرح استعمال کرتے تھے کہ سائل کے مسئلے کا حل اس میں موجود ہوتا تھا۔
صرف خصوصی مسائل ہی میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی باباصاحبؒ اپنی گفتگو کے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کر جاتے تھے جو براہِ راست قانونِ قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں۔ بعض دفعہ اشاروں ہی اشاروں میں وہ ایسی بات کہہ جاتے تھے جس میں کرامتوں کی علمی توجیہ ہوتی اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے یکبارگی کرامت کے اصولوں کا نقشہ آجاتا۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں روشنی کی لہریں منتقل ہورہی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین ہر وہ بات من وعن اپنے ذہن میں سمجھتے اورمحسوس کرتے جارہے ہیں جو باباصاحب کے ذہن میں اس وقت گشت کررہی ہے۔
بابا صاحب چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، گاہے بہ گاہے کچھ بول دیتے۔ عام آدمی ان جملوں کو بے ربط بات سمجھ کر قابلِ توجہ نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن اس میں کسی کے مسئلے کا حل، سوال کا جواب یا کسی نکتہ کی وضاحت پوشیدہ ہوتی تھی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 40 تا 41
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔