لیکچر 7 – نیابت و خلافت

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47466

نیابت و خلافت

روحانی علوم کی تقسیم تین باب پر مشتمل ہے:
o ایک باب انفرادی زندگی کے اعمال و حرکات اور زندگی کی ساخت اور تخلیقی فارمولوں کے اوپر مشتمل ہے۔
o دوسرا باب نَوعی تخلیقی فارمولوں پر مشتمل ہے…. اور
o تیسرا باب خالق کی مشیت سے متعلق ہے۔
انسان یا کائنات میں موجود کوئی بھی نَوع یا کسی بھی نَوع کا کوئی فردزندگی گزارنے کے لئے دو رخوں کا محتاج ہے۔ ایک رخ کو ہم بیداری اور دوسرے رخ کو خواب کہتے ہیں۔ بیداری اور خواب دونوں کا تذکرہ قرآنِ پاک میں لیل اور نہار کے نام سے کیا گیا ہے۔
قرآنِ پاک کی ان آیات میں تفکر کیا جائے جن میں لیل و نہار کا تذکرہ آیا ہے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حواس ایک ہیں۔ حواس میں صرف ردو بدل ہوتا رہتا ہے۔ یہی حواس جب رات کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو خواب بن جاتے ہیں اور یہی حواس جب دن کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو بیداری بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
• ہم رات کو دن میں داخل کرتے ہیں۔ رات کو دن میں سے نکال لیتے ہیں۔ اور یہ بھی ارشاد ہے کہ…
• ہم رات کو دن پر سے ادھیڑ لیتے ہیں اور دن کو رات پر سے ادھیڑ لیتے ہیں
(حوالہ: سورۃ الحدید – آیت نمبر 6 اور سورۃ بنی اسرائیل / سورۃ الاِسراء – آیت نمبر 12)
مقصد یہ ہے کہ انسان (جو فی الواقع حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے)، رات اور دن کے حواس میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ دن میں داخل ہوتا ہے تو حواس پابند ہو جاتے ہیں اور رات میں داخل ہوتا ہے تو حواس کے اوپر سے پابندی کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ ہم جب علمِ غیب یا غیب کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل رات کے حواس کا تذکرہ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو تورات عطا کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ارشاد ہے:
ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس راتوں میں پورا کیا۔
(سورۃ الاعراف – 142)
غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کوہِ طور پر چالیس دن اور چالیس راتیں مقیم رہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ رات کو کوہِ طور پر چلے جاتے ہیں اور دن کو نیچے اتر آتے ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر چالیس دن اور چالیس راتوں میں رات کے حواس غالب رہے اور نتیجے میں غیبی دستاویز عطا کر دی گئی۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی معراج میں بھی رات کا تذکرہ ہے۔
‘‘پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک’’
(سورۃ بنی اسرائیل / سورۃ الاِسراء – آیت نمبر 1)
مطلب وہی ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اوپر غیب کی دنیا کا انکشاف ہُوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت عطا فرمائی تو وہ بھی رات کے حواس تھے۔
حواس کی اس مختصر تشریح کے بعد اب ہم مراقبے کا مفہوم بیان کرتے ہیں۔
مراقبہ دراصل ایک ایسے عمل کا نام ہے جس عمل میں ذہنی یکسوئی اس حد تک ہو جاتی ہے کہ بیداری کے حواس خواب میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
ہر علم…. اُس کی حیثیت اِکتسابی ہو یا حضوری ہو، تفکر پر قائم ہے۔ جیسے جیسے تحقیق و تلاش کا دائرہ وسیع ہوتا رہتا ہے، نئے نئے فلسفے وُجود میں آتے رہتے ہیں۔
موجودہ سائنسی دور میں بھی یہی عمل کارفرما ہے۔ ہر دانشور تفکر کے ذریعے کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے…. جس کی تقلید کرتے ہوئے اس کے بعد آنے والے دانشور اس علم کی سطح کو پھیلانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
جیسے جیسے تشریحات دماغ کے اوپر وارِد ہوتی ہیں یا ان ترغیبات اور تشبیہات سے شعور آشنا ہوتا ہے اسی مناسبت سے شعور گہرائی میں سفر کرنے لگتا ہے۔
قرآنِ پاک نے نَوعِ انسانی کو مثالیں دے کر علوم کو سیکھنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔
اللہُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔
علم حضوری تین اوراق کی طرح ہے…. ہر ورق کے دو صفحے ہیں:
① پہلا صفحہ تجلّی کا عکس ہے….
② دوسرے پر رموز اور مصلحتیں نقش ہیں….
③ تیسرے صفحہ پر رموز و اسرار کی تشریحات ہیں….
④ چوتھے صفحے پر کائناتی نقوش ہیں….
⑤ پانچویں صفحہ پر احکامات کا ریکارڈ ہے….
⑥ چھٹے صفحہ پر اجتماعی اعمال کی تفصیلات ہیں
ساری کائنات تجلّی، لوحِ محفوظ، عرش و کرسی، عالم ارواح، سماوات، برزخ، عالم ناسوت، عالم اَعراف، حشر نشر، یوم حساب، جنّت دوزخ، ابد، ابد الآباد سب ان تین ورقوں میں محفوظ ہیں۔
سالک جب ان چھ صفحات کا مطالعہ کرنا سیکھ لیتا ہے تو وہ کائنات کے اسرار و رموز سے واقف ہو جاتا ہے۔ ان اوراق کا مطالعہ کرنے کے لئے بنیادی سبق مراقبہ ہے۔ مراقبہ سے برقی رَو (لائف اسٹریم) اور زیادہ فعال ہو جاتی ہے۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ….
ساری کائنات کا مجموعی علم جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو بحیثیت نائب اور خلیفہ سکھایا ہے اور جس علم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت فرمایا ہے، تین اوراق میں جمع ہے۔ ان تین اوراق کے نام یہ ہیں:
① روحِ اعظم …. یا ….. ثابِتہ
② روحِ انسانی …. یا ….. اَعیان
③ روحِ حیوانی …. یا ….. جوَیّہ

تَدلّیٰ

 

• سالک جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات یا علم الاسماء کا علم حاصل ہے اگر ازل سے ابد تک کا پورا پروگرام دیکھنا چاہے تو لوحِ محفوظ پر دیکھ سکتا ہے۔
• اسی طرح اس اجتماعی پروگرام میں کائنات میں موجود الگ الگ نَوعوں کا پروگرام دیکھنا چاہے تو وہ لوحِ دوئم یا ‘‘عالمِ جُو’’ میں دیکھ سکتا ہے۔
کائنات کا اجتماعی پروگرام لوحِ محفوظ پر نقش ہے اور جس طرح پروگرام لوحِ محفوظ پر نقش ہے اسی طرح ہر فرد کے اندر بھی موجود ہے۔ کائنات کا اجتماعی پروگرام جب تنزّل کرتا ہے تو تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
1. روحِ اعظم
2. روحِ انسانی
3. روحِ حیوانی

تمام علوم کی بنیاد علم الاسماء پر قائم ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں آدم کی نیابت و خلافت کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بات بنیادی طور پر بیان فرمائی ہے کہ آدم کو علم الاسماء عطا کیا گیا ہے جو کائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہے اور یہ علم الاسماء ہی ہے جس کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔
جو علم آدم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَدیعت کیا گیا ہے اس کو ‘‘تَدلّیٰ’’ کہتے ہیں۔
انسان کا شرف اس بات پر قائم ہے کہ اسے اللہ کی نیابت حاصل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کے اختیارات حاصل ہیں۔ کوئی بندہ جب تکوین (Administration) کے شعبے میں داخل ہوتا ہے تو یہ اطلاعات فراہم کر دی جاتی ہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نیابت کے اختیارات حاصل ہیں اور نیابت کے اختیارات کو جاننے اور سمجھنے اور استعمال کرنے کے لئے اسے یہ علم حاصل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم دراصل اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت ہے اور یہ صفَت بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ازل میں حاصل ہو گئی تھی۔
بندے سے مراد نَوع انسان اور نَوع انسان کے تمام افراد ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسماء عطا کر دیا ہے اور اپنی تخلیقی صفات سے آدم کو آگاہ کر دیا تو آدم کا یہ علم پوری نَوعِ انسانی کا ورثہ بن گیا۔ اس علم کو پریکٹیکل میں لانے کے لئے مراقبے کی تلقین کی جاتی ہے۔
مراقبہ صرف ایک عمل کا نام نہیں ہے بلکہ مختلف علوم کے حصول کے لئے مختلف مراقبہ جات ہیں۔ میرے علم (خواجہ شمس الدین عظیمی ابن الحاج انیس احمد انصاری) میں ان کی تعداد سترہ ہے۔
جب کوئی بندہ اس نیابت کو، جو اللہ تعالیٰ نے ازل میں آدم کو دی ہے، اگر تلاش کرنا چاہے تو سب سے پہلے اس کے یقین میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ:
اللہ تعالیٰ رحیم ہیں اور اللہ نے صفَتِ رحیمی سے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ ازل میں آدم کو اسم رحیم کی صفَت بھی منتقل ہوئی ہے۔
سالک اگر اسمِ رحیم کا مراقبہ کرے، یعنی وہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف ہمہ تَن متوجہ ہو جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفَتِ رحیمی کا جزو ہے، تو اس کے اوپر تخلیقی علوم منکشف ہو جاتے ہیں۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس ہی اسمِ رحیم کی صفَت کا تذکرہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت سے کیا ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام مٹی کے جانور میں پھونک مار کر اڑا دیتے تھے یا پیدائشی کوڑھے یا اندھے کو اچھا کر دیتے تھے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات سے اسمِ رحیم کی صفَت کو عملاً جاری و ساری فرما دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس معجزے کا تذکرہ کر کے تخلیق کا ایک فارمولہ بیان کیا ہے۔
( حوالہ: سورۃ المائدہ – 110)

تخلیقی فارمولہ یہ ہے کہ:
انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی روح کام کر رہی ہے۔ جب تک انسان کے اندر یا آدم زاد کے اندر روح موجود نہیں ہے، آدم کا وُجود ناقابل تذکرہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی روح پھونک دی تو اس کے اندر حواس متحرّک ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ روح میرے ربّ کے امر سے ہے اور جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے قلیل ہے۔
(سورۃ بنی اسرائیل / سورۃ الاِسراء – 85)
بات روشن ہے کہ ‘‘روح کا قلیل علم دیا گیا ہے’’۔
توجہ طلب ہے کہ جس قلیل علم کا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ اللہ کا علم ہے اور اللہ کے تمام علوم لامتناہی ہیں۔ لامتناہی کا قلیل بھی لامتناہی ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روح کا جو علم عطا کیا ہے وہ اللہ کے علوم کے مقابلے میں قلیل ہے…. یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روح کا علم کسی کو حاصل نہیں ہے یا کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔

روح میرے ربّ کے امر سے ہے۔ اور امرِ ربّ یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ‘‘ہوجا’’ اور وہ ہو جاتی ہے۔
(سورۃ یٰس – 82)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔
(حوالہ: سورۃ الاِنسان / الدَھر – 1 ، سورۃ الحِجر – 29)
یہی بات اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے فرما رہے ہیں کہ:
جب تُو بناتا ہے مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے یعنی میری مرضی اور میرے دیئے ہوئے علوم سے پھر اس میں پھونک مارتا تو ہو جاتا ہے وہ جانور۔
( حوالہ: سورۃ المائدہ – 110)
مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تخلیقی فارمولے کے تحت یا اسمِ رحیم کی صفَت کے تحت مٹی کے جانور میں پھونک مارتے تھے تو وہ اُڑ جاتا تھا۔ پیدائشی اندھے اور کوڑھی کے اوپر دم کرتے تھے تو بھلا چنگا ہو جاتا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی اور لفظ ‘‘کُن’’ فرمایا۔
• اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسمِ رحیم کی قوت نے حرکت میں آ کر کائنات کے تمام افراد تمام اجزاء اور تمام ذرّوں کو شکل و صورت بخش دی۔ اس حالت کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اسمِ اِطلاقیہ کا نام دیا ہے۔ اسمِ اِطلاقیہ، اسمِ مَطلق سے مَشتَق ہے۔
• پھر یہ اسم تنزّل کر کے عَینیہ میں داخل ہو گیا۔ اور صفَتِ رحیم سے علم میں حرکت پیدا ہو گئی۔ ‘‘کُن’’ کے بعد مَوجودات کو علم نہیں تھا کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جانا ہے؟ ….. ایک حیرت کا عالم تھا۔ اس حیرت کے عالم کو ‘‘عینیہ’’ کہا جاتا ہے۔
• جب اللہ تعالیٰ نے اس محویت اور اس حیرت کو ختم کرنا چاہا تو مَوجودات کو خطاب کر کے فرمایا۔ ‘‘پہچان لو میں تمہارا ربّ ہوں’’۔ روحوں نے جواباً کہا۔ ‘‘جی ہاں ہم نے پہچان لیا’’۔ روحوں نے جب اللہ تعالیٰ کا اعتراف کر لیا تو صفَتِ رحیم کی حیثیت اسمِ عَینیہ سے تنزّل کر کے کَونیہ ہو گئی۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 68 تا 74

شرحِ لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - تعارف 0.02 - انتساب 0.03 - پیش لفظ 01 - لیکچر 1 – علم حُضوری، علم حُصولی 02 - لیکچر 2 – ثابِتہ اَعیان جوَیّہ 03 - لیکچر 3 – لوحِ محفوظ 04 - لیکچر 4 – مُغَیَّباتِ اَکوان 05 - لیکچر 5 – کثرت کا اجمال 06 - لیکچر 6 – اِدراک اور وَجدان 07 - لیکچر 7 – نیابت و خلافت 08 - لیکچر 8 – کُن فیکون 09 - لیکچر 9 – تجلّیات, اجمال 10 - لیکچر 10 – حواس کی رفتار 11 - لیکچر 11 – اندر کی آواز 12 - لیکچر 12 – لاعلمی بھی علم ہے 13 - لیکچر 13 – قوتِ اِلقاء 14 - لیکچر 14 – نسبتِ عِلمیہ 15 - لیکچر 15 – شخصِ اکبر 16 - لیکچر 16 – آدم کا شرف 17 - لیکچر 17 – قضا و قدر 18 - لیکچر 18 – تصرف اور علمِ شئے 19 - لیکچر 19 – معجزہ، کرامت، اِستدراج 20 - لیکچر 20 – الہامی کتابیں 21 - لیکچر 21 – روشنی کی قسمیں 22 - لیکچر 22 – ازل تا قیامت 23 - لیکچر 23 – نسبتِ یادداشت 24 - لیکچر 24 25 - لیکچر 25 26 - لیکچر 26 27 - لیکچر 27 28 - لیکچر 28 29 - لیکچر 29 30 - لیکچر 30 31 - لیکچر 31 32 - لیکچر 32 33 - لیکچر 33 34 - لیکچر 34 35 - لیکچر 35 36 - لیکچر 36 37 - لیکچر 37 38 - لیکچر 38 39 - لیکچر 39 40 - لیکچر 40
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)