لیکچر 6 – اِدراک اور وَجدان
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47462
اِدراک اور وَجدان
آسمانی صحیفے اور الہامی کتابیں بیان کی ایک مخصوص طرز رکھتی ہیں۔ تفکر کیا جائے تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا طرزِ اِستدلال یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف طرزوں اور مثالوں سے بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان لاشعوری اور روحانی علوم سے واقفیت نہیں رکھتا اور روحانی علوم شعوری علوم سے مختلف ہوتے ہیں۔ الہامی علوم کا شعور پر وزن پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کر کے شعور کے اوپر زائد وزن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب ‘‘لوح و قلم’’ جو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تصنیف ہے، ہم سب کے سامنے ہے۔ اس کتاب کا طرزِ اِستدلال خالص روحانی اور الہامی ہے۔ ایک ہی بات کو بار بار اور مختلف پیرایوں میں اور مختلف مثالوں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہی طرزِ اِستدلال قرآن کا بھی ہے اور یہ ہی طرزِ اِستدلال دوسری الہامی کتب تورات زبور انجیل اور گیتا کا ہے۔ ‘‘لوح و قلم’’ کی تشریح میں بھی ایک ہی بات کو مختلف زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کائناتی علم درجہ بدرجہ تنزّل کر کے مخلوق کے خدوخال اور زندگی کے تقاضے ہیں۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کا علم سیڑھی بہ سیڑھی صَعود کرتا ہے…. ‘‘اِنّاللہ و انا الیہ راجعون’’…. تحقیق ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا علم جب نُزول کرتا ہے تو مخلوق کا اِدراک بن جاتا ہے۔
• یہ علم اِدراک بن کر ایک نقطہ پر کچھ دیر قیام کرتا ہے…. یعنی اس کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو نگاہ بن جاتی ہے۔ اِدراک میں جب تک گہرائی پیدا نہیں ہوتی خیال کی کیفیت رہتی ہے۔
• اِدراک جب خیال کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو کسی چیز کا ہلکا سا عکس بنتا ہے یہ عکس احساس پیدا کرتا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ خیال کی حدود میں احساس کام تو کرتا ہے لیکن اس کی حیثیت صرف نظر کی ہوتی ہے۔
• جب احساس ایک ہی نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکوز ہو جاتا ہے تو اس نقطہ میں خدوخال اور شکل و صورت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ خدوخال اندرونی نگاہ کے سامنے آ جاتے ہیں۔
• نگاہ کے سامنے آنے والے ماورائی خدوخال جب ایک ہی نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتے ہیں تو نقطہ (نوع، فرد یا شئے) گویا ہو جاتی ہے…. اور بولنے لگتی ہے۔
• قوتِ گویائی اگر ذرا دیر اور اس نقطہ یا فرد کی طرف متوجہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینی پیدا ہو جاتی ہے اور نگاہ اپنے اردگرد نَےرنگی کا ایک ہجوم محسوس کرتی ہے۔
اس تشریح سے یہ قانون پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ علم کی ہی جداگانہ حرکات یا حالتوں کا نام خیال، نگاہ، گفتار شامہ اور لمس ہیں۔ ایک ہی حقیقت یا ایک ہی علم مختلف روپ بدلتا رہتا ہے۔ جس طرح خیال علم ہے اسی طرح نگاہ بھی علم ہے۔ چونکہ ہر چیز کی بنیاد علم ہے اس لئے خیال اور نگاہ کے بعد تمام حالتیں بھی علم ہیں۔ علم کی یہ کیفیت نُزولی ہے۔
علم نُزول کر کے عالم ناسوت تک آتا ہے اور انسان کی حِس گوشت پوست کو چھو لیتا ہے اور یہ ہی کیفیت (علم کی تنزّل یافتہ شکل) کسی شئے کی محسوسیت کے لئے انتہا ہے۔
آدم زاد یا کوئی بھی مخلوق اوپر سے نیچے اتر کر پیدا ہوتی ہے۔ روح یا امرِ ربّی اپنے اظہار کے لئے اور اپنی جلوہ نمائی کے لئے گوشت پوست کا ایک جسم تخلیق کرتی ہے۔ اس کے بعد فکرِ انسانی تنزّل یافتہ شکل سے صَعود کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور پہلی حِس سے یا پہلے حواس سے دُور ہونے لگتی ہے۔
دُوری سے مراد یہ ہے کہ پیدا ہونے والا ایک دن کا بچہ جب دوسرے دن میں داخل ہوتا ہے تو پہلا دن زندگی کے نُزول کا ردِّعمل ہے۔ یہ ہی ردِّعمل مکانیت اور زمانیت کا احساس دلاتا ہے۔ بچہ پیدا ہوا ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحے میں بچے کی تمام صفات تمام اعضاء تمام حواس میں تغیّر واقع ہو جاتا ہے۔ یہ ہی تبدیلی زمانیت اور مکانیت ہے۔
بچہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کو سمجھ رہا ہے یا غیر اختیاری طور پر یہ بات اس کے شعور میں ریکارڈ ہو رہی ہے کہ میں ایک لمحہ سے گزر کر دوسرے لمحہ میں، ایک گھنٹہ، ایک دن، ایک ماہ، ایک سال سے دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہوں۔ زندگی کا یہ سفر زمانیت اور مکانیت پر قائم ہے۔ یعنی ٹائم اینڈ اسپیس ہمیں اس بات کا علم دیتا ہے کہ ابھی ہم جس چیز کے قریب تھے ایک معیّن مقدار اور توازن کے ساتھ رفتہ رفتہ اس سے دُور ہو رہے ہیں۔ یہ دُوری زندگی کو محیط ہو جاتی ہے۔ دُوری سے مراد یہ ہے کہ وہ نقطہ جس کی حیثیت علم اور علیم کی ہے علمِ نُزولی سے دُور ہو رہا ہے، یہاں تک کہ موت وارِد ہو جاتی ہے۔ موت وارِد ہونے کے بعد روح اپنے اُن تجربات سے، جن تجربات پر زمانیت اور مکانیت کا قیام ہے، ایک نیا علم سیکھتی ہے۔ یہ نیا علم مکانیت یا زمانیت میں بند ہو کر سامنے نہیں آتا۔
مفہوم یہ ہے کہ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسی دنیا آ جاتی ہے جو گوشت پوست کی آنکھ سے نظر نہیں آتی۔
کائنات کو نگاہ کس طرح ملی کائنات نے اپنے علاوہ دوسری مخلوق کا کس طرح اِدراک کیا اور نگاہ کا قانون کیا ہے۔ یہ سب تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب منظور ہوا کہ مَوجودات کا سکوت ٹوٹے اور حرکت کا آغاز ہو تو اللہ تعالیٰ نے مَوجودات کو مخاطب کرکے فرمایا: اَلَستُ بِربِّکُم
*******
ذات کا عکس …. علمِ واجب (علمُ القلم)
علمُ القلم کا عکس …. علمِ وَحدت (لوحِ محفوظ)
لوحِ محفوظ کا عکس …. عالمِ تمثال (برزخ)
عالمِ تمثال کا عکس …. عالمِ ناسوت (مظاہراتی دنیائیں)
*******
جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی آواز کائنات کی بِساط پر گونجی، کائنات میں موجود ہر شئے اس آواز کی طرف متوجہ ہو گئی اور مخلوق میں شعور کی بنیاد پڑ گئی۔
اس شعور نے اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے کا اعتراف کیا۔ جب مَوجودات کی فہم میں یہ بات آ گئی کہ ہمارے علاوہ بھی کوئی ہستی ہے اور اُس ہستی نے ہمیں تخلیق کیا ہے تو مَوجودات نے اپنے علاوہ دوسری مَوجودات کو دیکھا۔ اس دیکھنے کو عالمِ مثال(کثرت) کہتے ہیں۔ کثرت کو عالمِ مثال یا عالمِ جُو بھی کہتے ہیں۔
Summary:
اللہ تعالیٰ کی ذات کا عکس …. علمِ واجب یا علمُ القلم
علمِ واجب کا عکس…. علمِ وَحدت یا علمِ لوحِ محفوظ
علمِ وَحدت سے مراد کائنات کی وہ موجودگی ہے جہاں کائنات گم سم اپنے احساس کے علاوہ کچھ نہیں جانتی۔
لوحِ محفوظ کا عکس …. عالمِ تمثال
عالمِ تمثال کا عکس …. عالمِ تخلیط یا عالمِ ناسوت
گیارہ ہزار اسماء
ثابِتہ، خَفی اور اخفیٰ کی یکجائی کا نام…. علمُ القلم ہے۔
لوحِ محفوظ میں جو کچھ نوری تحریر میں نقش ہے علمُ القلم ہے۔
علمُ القلم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ایک حصّہ اسماءِ الٰہیہ ہے…. اور
دوسرا حصّہ حروفِ مقطعات ہیں …. جیسے قرآنِ پاک میں ‘‘الم، کھیعص’’ ہے۔
اسماءِ الٰہیہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن صفات سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ ہم اس بات کی وضاحت اس طرح کر سکتے ہیں کہ تمام تخلیقی فارمولے اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ کی صفات جو کائنات کی تخلیق کی اصل ہیں، تقریباً گیارہ ہزار ہیں۔ یہ گیارہ ہزار صفات ایک فرد میں مجتمع ہو سکتی ہیں اور گیارہ ہزار نَوعیں بھی ہو سکتی ہیں۔
اِن صفات کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا درجہ: اسماءِ اِطّلاقیہ
دوسرا درجہ: اسماءِ عَینیہ
تیسرا درجہ: اسماءِ کَونیہ
روح کی تشریح میں نَسمہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نَسمہ کے تین اِصطلاحی نام ہیں:
۱۔ نَسمہ مرکب
۲۔ نَسمہ مُفرِد
۳۔ نَسمہ مُطلق
نَسمہ مرکب، نفس اور قلب کے دو لطیفوں سے مرکب ہے…. جس کو روحِ حیوانی کہا جاتا ہے۔
نَسمہ مُفرِد کا قیام سِر اور روح کے لطیفوں پر ہے…. جس کو روحِ انسانی کہا جاتا ہے۔
نَسمہ مُطلق، خَفی اور اخفیٰ کے دائروں پر قائم ہے جس کو روحِ اعظم کہا جاتا ہے۔
اِس کی مزید تشریح اس طرح ہے کہ…..
قلب اور نفس سے ترتیب پانے والا نَسمہ مرکب…. روحِ حیوانی (جَوَیّہ) ہے۔
روح اور سِر کا اجتماعی نام…. عَین یا اَعیان ہے۔
خَفی اور اخفیٰ کا اجتماعی نام…. ثابِتہ یا روحِ اعظم ہے۔ ریکارڈ اور روشنی کا نام، جس میں ریکارڈ پڑھا جاتا ہے …. تدلّیٰ ہے۔
شب معراج میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی سیر کا جہاں تذکرہ ہے، وہاں اسی تدلّیٰ کا تذکرہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے جب معراج کا سفر اختیار کیا تو روحِ اعظم کے دونوں لطائف اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ بیدار اور متحرّک تھے۔
(حوالہ: سورۃ النجم – 8)
پیدائش عروج و زوال کی تمام مصلحتیں اسی تدلّیٰ میں مُندَرِج ہیں۔ تدلّیٰ کا علم رکھنے والے کسی انسان پر جب روحِ اعظم کی روشنیاں منکشف ہو جاتی ہیں تو ہر ذرّہ کی روح سامنے آ جاتی ہے اور بندہ ازل سے ابد تک کے تمام واقعات کی روشنیوں کا مطالعہ کر لیتا ہے۔ روشنیوں سے مراد وہ تمام واقعات ہیں جو ازل سے شروع ہو کر ابد تک واقع ہوں گے۔
تدلّیٰ دو نقطوں سے مرکب ہے اور یہ دو نقطے اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں، مشیت اور علمِ الٰہی کی ایک مختصر نوِیس ((Short Formہے۔ جس طرح ایک چھوٹی سی مائیکروفلم (Micro Film)میں پوری ایک کتاب محفوظ کر لی جاتی ہے۔ اسی طرح کائنات کی پیدائش سے متعلق تمام رموز اور تسخیر کائنات کے تمام فارمولے ان دو نقطوں میں محفوظ ہیں۔
اسماءِ الٰہیہ میں پہلا تنزّل یا اللہ کی صفات کا پہلا تعارف یہ ہے کہ اللہ بحیثیت علیم کے موجود ہے اور بحیثیت علیم کے اس طرح موجود ہے کہ اس علم میں اللہ کا کوئی ثانی نہیں اور نہ ہی اللہ نے اپنے اس خصوصی علم کو کسی فرد سے رُوشناس کرایا ہے۔ بحیثیت علیم اللہ نے اپنے علم اور اپنی صفات کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ انسان کا اِدراک یا بڑی سے بڑی پرواز بھی اللہ کے اس علم کا کسی طرح تصوّر نہیں کر سکتی۔
اللہ کی وہ صفات جو مَوجودات کو منتقل ہو کر کائنات کے کَل پُرزے بن گئیں علمِ واجب کہلاتا ہے۔ علمِ واجب سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ علم جو اللہ تعالیٰ نے مَوجودات کو منتقل کر دیا۔ یعنی اللہ کی ایسی صفات جس کی نسبت مَوجودات کو حاصل ہے۔ علمِ واجب کو علمِ قلم بھی کہتے ہیں۔ جب اللہ نے اپنے ذہن میں موجود پروگرام کو اپنی مرضی سے الگ کیا اور اس کا مظاہرہ ہوا تو اس حالت کا نام تنزّلِ اوّل ہے۔ تنزّل اوّل کے اسرار و رموز اور تنزّلِ اوّل میں کائناتی تخلیفی فارمولے ہیں۔
اللہ نے یہ کائنات کیوں بنائی ہے؟ اور …. کائنات کی تخلیق میں اللہ کی کیا مشیت ہے؟ ….. اس کا عکس ثابِتہ میں موجود ہے۔
ثابِتہ کا ایک رخ اخفیٰ ہے اور دوسرا رخ خَفی ہے۔ اخفیٰ اور خَفی وہی رخ ہیں جس کو روحِ اعظم اور نَسمہ مطلق کہا گیا ہے۔ ثابِتہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی گیارہ ہزار تجلّیوں کا ذخیرہ ہے جو بندہ لطیفۂِ اخفیٰ اور لطیفۂِ خَفی سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے مشاہدے میں گیارہ ہزار تجلّیاں آ جاتی ہیں۔ ہر انسان کے اندر لطیفۂِ اخفیٰ اورخفی موجود ہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ ہر سالک کو اپنے مرشد کی محبت اور عشق عطا کریں!
پیر و مرشد جب ثابِتہ کے اندر اپنے تصرّف سے انوار منتقل کر کے خَفی اور اخفیٰ کو متحرّک کر دیتا ہے تو سالک کو یہ علم حاصل ہو جاتا ہے کہ انسان بحیثیت علیم کے اللہ کے علم کا ایک جُزو ہے اور یہ حقیقت بھی اس کے اوپر منکشف ہو جاتی ہے کہ بحیثیت علیم کے اللہ تعالیٰ کُل ذات ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ چونکہ انسان بھی جُزوی طور پر علیم ہے، اِس لئے اُسے علم کا مشاہدہ ہو جاتا ہے، جو اُسے تنزّل اوّل کی شکل میں منتقل ہوا تھا۔
کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لئے یہ بات اَز بس ضروری ہے کہ انسان دوسری باتوں سے خالیُ الذّہن ہو کر کسی ایک نقطے پر اپنے ذہن کو مرکوز کر دے۔
انسان دراصل روحِ اعظم کی حیثیت میں ایک یادداشت رکھتا ہے۔ اس یادداشت کو اگر وہ یاد کرنا چاہے، دیکھنا چاہے، پڑھنا چاہے یا اس کے فیوض سے خود کو فیض یاب کرنا چاہے تو اُسے اِس طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور متوجہ ہونے کا اوّل آخر اور آزمودہ طریقہ مراقبہ ہے۔
مراقبہ میں جیسے جیسے اِنہماک پیدا ہوتا چلا جاتا ہے، اُسی مناسبت سے سالک اس یادداشت کو پڑھنے پر قدرت حاصل کر لیتا ہے۔ مراقبہ میں ذہن مرکوز ہو جائے تو تجلّیات کے نقوش خواب میں نظر آنے لگتے ہیں اور زیادہ اِنہماک پیدا ہو جائے تو گیارہ ہزار تجلّیات سالک کھلی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے۔
اِس یادداشت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بنیادی بات یہ ہے کہ نیند پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ سالک چوبیس گھنٹے میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہ سوئے۔ ہماری عادت ہے کہ ہم جاگنے کے بعد سو جاتے ہیں اور سونے کے بعد بیدار ہوتے ہیں۔ آدمی جتنے گھنٹے سونے کی عادت ڈال لیتا ہے اسی مناسبت سے نیند اس کی طبیعت کا تقاضا بن جاتی ہے۔ اس بات کو کئی مرتبہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان نگاہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح انسان کے اندر نگاہ بیداری میں کام کرتی ہے اسی طرح نگاہ سونے کی حالت میں کام کرتی رہتی ہے۔ البتہ دیکھنے کا عمل اور دیکھی ہوئی چیز کے نقوش گہرے یا ہلکے ہوتے ہیں۔ نقوش جب گہرے ہوتے ہیں تو دیکھی ہوئی چیز زیادہ واضح طور پر ذہن کی اسکرین پر محفوظ رہتی ہے۔ خواہ وہ دیکھنا بیداری میں ہو یا خواب میں دیکھنا ہو۔ انسان گہرے نقوش کو یاد رکھتا ہے اور ہلکے نقوش کو بھلا دیتا ہے۔
روح کیا ہے؟
کسی بات کو سمجھنے اور اس کی حقیقت کو تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی طرف اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ متوجہ ہوں اور اس بات سے متعلق جتنے عوامل ہیں، جتنے محرکات ہیں ان سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعارف ہونے، اللہ کی ذات کو جاننے اور اللہ تعالیٰ کی صفات سے آگاہ ہونے کے لئے اللہ کی تخلیق کی ہوئی کائنات میں تفکر کرنا ضروری ہے۔
ایک بہت بڑا آرٹسٹ ہے بہت اچھی تصویر بنا سکتا ہے لیکن کاغذ اور کینوس پر کبھی تصویر نہیں بناتا۔ اس کا تعارف مصوّر کی حیثیت سے نہیں ہوتا۔ کسی مصوّر کو ہم اس وقت مصوّر کہتے ہیں جب اس کی تخلیقات ہمارے سامنے ہوں۔ خالق کو پہچاننے اور خالق کی صفات سے وقوف حاصل کرنے کے لئے مخلوق کا پہچاننا اور تخلیقی فارمولوں سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم جب کائنات کے بارے میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں دو بنیادی باتوں کا سراغ ملتا ہے۔ ایک یہ کہ کائنات کے اندر زندگی رواں دواں ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ زندگی کسی کے تابع ہے۔ افرادِ کائنات کو زندہ رکھنے والی شئے جب تک فرد کو زندگی منتقل کرتی رہتی ہے فرد متحرّک رہتا ہے اور جب یہ شئے فرد سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو فرد زندگی کھو دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام افرادِ کائنات میں جاری و ساری ہے۔ اس شئے کا نام ‘‘روح’’ ہے۔
روح کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کے ذہن سے نکلا ہوا ایک لفظ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ لامتناہی ہیں اور غیر متغیّر ہیں، شکست و ریخت سے ماوراء ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کا لفظ بھی لاتغیّر ہے۔ مسلسل حرکت میں ہے۔ ازل تا ابد حرکت میں رہے گا۔ عقدہ یہ کھلا کہ روح مسلسل حرکت ہے۔
کائنات کے اجزاءِ ترکیبی پر ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک چیز بھی ایسی نہیں ملتی جو اس قانون سے باہر ہو۔ انسان کی روحانی صلاحیتوں کا جب تذکرہ آتا ہے اور نَوعِ انسانی کا کوئی فرد روح کی ساخت کو سمجھنا چاہتا ہے…. تو اسے باور کرنا پڑتا ہے کہ روح مسلسل حرکت چاہتی ہے اور جب تک حرکت قائم رہتی ہےآدمی کے اندر عمل کا صُدور ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ کلیہ یہ بنا کہ ساری کائنات ایک حرکت ہے۔ کائنات میں موجود تمام افراد ایک نظام کے تحت ایک دوسرے کی وابستگی کے ساتھ مسلسل حرکت میں ہیں۔
ظاہر حالات میں ہمارے سامنے اپنی پیدائش ہے۔ ماں کے پیٹ میں پہلے دن سے پیدائش تک اور پیدا ہونے کے بعد سے موت تک کوئی لمحہ، کوئی آن، کوئی گھڑی، کوئی دن، کوئی گھنٹہ، کوئی منٹ ایسا نہیں ہےجس میں حرکت نہ ہو۔
انسانی زندگی کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر انسان دو دماغوں میں بند ہے یا انسانی زندگی دو دماغوں میں تقسیم ہے۔ ان دو رخوں کا تذکرہ شعور اور لاشعور کے نام سے ہوچکا ہے۔
جب انسان شعور میں ہوتا ہے تو اس کی کیفیات الگ ہوتی ہیں…. اور
جب انسان لاشعور میں زندگی بسر کرتا ہے تو کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔
لیکن حرکت کسی وقت ساقط نہیں ہوتی۔ اس لئے آدم زاد شعوری کیفیات میں ہو یا لاشعوری کیفیات میں ہو مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔
جب کوئی انسان شعوری زندگی میں حرکت کرتا ہے اس کے اوپر زمان و مکان کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ زندگی کے اس آدھے رخ کو بیداری کہا جاتا ہے…. اور
جب کوئی بندہ لاشعوری زندگی میں سفر کرتا ہے اس کے اوپر سے زمان و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس رخ کو خواب کہا جاتا ہے۔
دیکھنے اور سمجھنے کی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے ہمارے اوپر اس قانون کا انکشاف ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنے ارادے اور اختیار سے کسی عمل کی طرف متوجہ رہتے ہیں تو وہ عمل ہمیں یاد رہتا ہے اور اگر ہم عمل کرنے کے باوجود ذہنی طور پر اس طرف متوجہ نہیں ہوتے تو وہ عمل بھول کے خانے میں جا پڑتا ہے۔ بیداری اور خواب دونوں حالت میں یہ صورت موجود رہتی ہے۔ جس طرح کوئی آدمی بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کی طرف متوجہ ہو کر اسے یاد رکھنا چاہتا ہے تو وہ یاد رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر خواب کی زندگی میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کی طرف متوجہ رہے تو وہ بھی یاد رہتے ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ زندگی کی دو طرزوں میں ایک طرز یہ ہے کہ طبیعت آدمی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ سو جائے۔ پھر مجبور کرتی ہے کہ وہ بیدار ہو جائے یعنی طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو سلا کر لاشعور کو بیدار کر دے اور آدمی کو جگا کر لاشعور کو سلا دے۔ لاشعور کو بیدار کرنے اور شعور کی Activitiesسے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ہمیں طبیعت کی اس عادت کو سمجھنا پڑے گا۔
ہم اس بات کی عادت ڈال سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بیدار رہ کر لاشعور کی حرکات کو بیداری میں مشاہدہ کر لیں۔ شروع شروع میں اس عادت کی خلاف ورزی کرنا طبیعت کے لئے بار بنتا ہے۔ اگر آدمی مشق جاری رکھے یعنی نیند کو قریب نہ آنے دے تو دو دن اور دو رات گزرنے کے بعد طبیعت میں ایسا ٹھہراؤ آ جاتا ہے کہ لاشعوری حرکات بند آنکھوں کے سامنے آنے لگتی ہیں۔
اسی طرح کئی ہفتے یا کئی ماہ اگر جاگنے کا اہتمام کیا جائے تو کھلی آنکھوں کے سامنے بھی لاشعوری حرکات آنے لگتی ہیں اور درجہ بدرجہ آدمی غیب کی دنیا سے متعارف ہو جاتا ہے۔
بند آنکھوں سے لاشعوری زندگی کو دیکھنا یا غیب کی دنیا میں داخل ہو کر غیب کی دنیا سے متعارف ہونا تصوف کی اطلاع میں ‘‘وُرود’’ کہلاتا ہے۔
مشق کرتے کرتے نگاہ کے اندر اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی بیداری کی حالت میں کھلی آنکھوں سے باطنی دنیا کا بھی مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اس حالت کا نام ‘‘شُہود’’ ہے۔
ضروری ہے کہ یہ مشق مرشد کریم کی نگرانی میں کی جائے۔ بصورت دیگر دماغی خلل واقع ہو جاتا ہے۔
روحانی استاد یا مرشد سالک کو اس وقت مشق کرائیں جب وہ خود ان مشقوں سے گزر کر ماورائی دنیا کا مطالعہ کر چکے ہوں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 56 تا 67
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔