لیکچر 5 – کثرت کا اجمال

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47457

کثرت کا اجمال

کائنات میں موجود تمام اشیاء، خواہ وہ جزوِ لاتجزاء کی حیثیت رکھتی ہوں…. اُن کی حیثیت روحانی ہو یا وہ خارجی حالات میں شکل و صورت میں ظاہر ہوں…. سب اللہ تعالیٰ کے ارادے کا عکس ہے۔ یعنی ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے ارادے کی شکل و صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات اور کائنات کے اندر مَوجودات کی تصویر اور ان تصویروں کی ضروریات جس طرح موجود تھیں وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ساتھ تخلیق ہو گئیں۔
تخلیق کے دو رخ ہیں۔
• ایک رخ ظاہری شکل و صورت…. اور
• ایک رخ وہ جس نے اس ظاہری شکل و صورت کو ترتیب دیا ہے۔
اس بات کو اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں اس طرح فرماتے ہیں (حوالہ: آلِ عمران، 6 – لقمان، 34)
ہم نے ماں کے پیٹ میں ایک تصویر بنائی جس تصویر کا بظاہر پہلے سے وُجود نہ تھا اور نہ ہی اس تصویر کے بارے میں مخلوق کو کوئی علم تھا، رحمِ مادر میں جب یہ تصویر کشی کی گئی تو ایسی حرکت واقع ہوئی کہ جس حرکت کو ہم ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔
اس حرکت میں دراصل اللہ تعالیٰ کی وہ صفَت کام کر رہی ہے جو ‘‘امرِ ربّی’’ کے بعد شکل و صورت بن گئی۔
سب جانتے ہیں کہ گوشت پوست کا لوتھڑا جب شکل و صورت اختیار کرلیتا ہے اور اس کے اندرآنکھ ناک کان دماغ بن جاتا ہے تو وہ سنتا بھی ہے، بولتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہے۔ ان تمام محسوسات کے ساتھ وہ پیدا ہوتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد ایک ضابطہ ایک قانون کے ساتھ اس کی نشوونما ہوتی رہتی ہے اور یہ نشوونما اُسے اس مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں فرد کو باشعور اور باعقل کہا جاتا ہے۔
لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ…. باشعور آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کے باوجود کہ آنکھ، ناک، کان اور دماغ سب کچھ موجود ہیں لیکن وہ نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ محسوس کرتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ گوشت پوست کا جسم کسی کے تابع ہے۔
حرکت کا تصویر کے ساتھ یہ تعلق ہی دراصل مخلوق کو شکل و صورت عطا کرتا ہے۔
دوسری بات جو نَوعِ انسانی کے تجربے میں ہے…. یہ ہے کہ…. نَوعِ انسانی کا ہر فرد اپنا الگ الگ اِدراک رکھتا ہے۔ الگ الگ اِدراک ہی اس تصویر کو، جسے اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں بنایا ہے، دوسرے کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ ہے۔

اللہ جلَّ جلالَہُ

1) میں چھپا ہُوا خزانہ تھا، پس میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا، تاکہ میں پہچانا جاؤں۔ (حدیثِ قدسی)
2) خدا کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ‘‘ہو جا’’ اور وہ ہو جاتی ہے۔
3) بےشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اُس کا نام بھی نہ تھا۔ (سورۃ الدھر / سورۃ الاِنسان – آیت نمبر 1)

وحدت اور کثرت کے تذکرے میں یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مخلوق کا ایک رشتہ قائم ہے۔ اس رشتے میں چار حالتیں ایسی ہیں کہ مخلوق اور خالق کا براہِ راست رشتہ قائم نہیں ہوتا۔ صرف ایک رشتہ ایسا ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان براہِ راست قائم ہے۔ مخلوق اس رشتے کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن رشتہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
رشتہ کی تعریف یہ ہے کہ بندہ اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لئے کسی ہستی کا محتاج ہے۔
کسی ہستی کا محتاج ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرے علاوہ بھی کوئی ہستی ہے جو پہچان کا ذریعہ ہے اور یہی پہچان ہمیں اپنے علاوہ دوسری چیزوں کا اِدراک عطا کرتی ہے۔
پہچاننے کے دو طریقے ہیں:
• ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو دیکھتے ہیں۔ پہلے خود کو جسمانی خدوخال کے ساتھ فہم و اِدراک کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے سامنے دوسرے شخص یا دوسری مخلوق کو پہچانتے ہیں۔
• دوسری طرز میں پہچاننا یا جاننا اس طرح ہے کہ ذہن میں یا انسان کے باطنی رخ میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کی تمام تصویریں محفوظ ہیں۔ ظاہری وُجود میں جب کوئی شکل و صورت ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم اسے شناخت کر لیتے ہیں۔ اس طرح جب باطنی طور پر کوئی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم اسے باطنی طور پر پہچان لیتے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہر ظاہر رخ، باطن کا عکس ہے۔ جب تک کوئی شئے باطنی رخ کے ساتھ موجود نہیں ہو گی ظاہری شکل و صورت میں نظر نہیں آئے گی یعنی سارا کا سارا ظاہری رخ باطنی رخ کا عکس ہے۔

اس بات کو بہت غور سے سمجھا جائے کہ….
جب اللہ تعالیٰ نے ‘‘ہوجا’’ کہا تو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات جس طرح موجود تھی اپنی صفات کے ساتھ موجود ہو گئی!
یعنی آدمی کی روح بھی وُجود میں آ گئی۔ یعنی پوری کائنات کا یکجائی پروگرام تخلیق ہو گیا اور یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کے ذہن سے منتقل ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ‘‘ہوجا’’ کہنے سے کبوتر، فاختہ، جنات، فرشتے، انسان اور زمین و آسمان کے اندر تمام مخلوق موجود ہو گئی۔
انسان جب اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھاتو کبوتر سے بھی واقف تھا۔ فرشتوں سے بھی واقف تھا۔ جنّت و دوزخ سے بھی واقف تھا اور جس طرح انسان کبوتر سے فرشتوں سے واقف تھا اسی طرح کبوتر بھی انسان سے واقف تھا۔
‘‘ہوجا’’ کے بعد جب اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود پروگرام کا مظاہرہ ہُوا۔ اس مظاہرے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی شناخت بھی منتقل ہو گئی۔
انسان جہاں اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا وہ جزوِ لاتجزاء یا باطنی رخ ہے۔ کثرت میں چونکہ روح کی عکاسی ہو رہی ہے اس لئے کثرت کا ہر فرد انفرادی طور پر کثرت سے واقف ہے۔
پوری کائنات یکجائی طور پر لوحِ محفوظ پر نقش ہے۔ اور لوحِ محفوظ پر یکجائی پروگرام نقش ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کا ہر فرد دوسرے فرد کی شناخت کا اِدراک رکھتا ہے۔ یہ باطنی رخ کا دیکھنا ہوا۔

اب ہم خارجی رخ میں دیکھنے کی طرزیں بیان کرتے ہیں۔
ہم کسی عمارت کے سامنے کھڑے ہیں۔
جس سمت میں کھڑے ہیں، عمارت کا وہی حصّہ ہمارے سامنے ہے۔
ہم جس جگہ کھڑے ہیں اس جگہ سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
چلنے کے بعد فاصلے پر دوسری جگہ کھڑے ہونے میں نگاہ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔
نگاہ کا زاویہ تبدیل ہونے سے عمارت کا دوسرا حصّہ ہماری نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔
ہم نگاہ کے اس زاویے کو تبدیل کرنے کے لئے ایسی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں عمارت کی تین سمتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں اور ہم عمارت کی تین سمتوں کو دیکھ رہے ہیں۔
زاویۂ نگاہ تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسی جگہ کھڑے ہوں جہاں سے عمارت کی تین سمتیں نظر آئیں۔ زاویۂ نگاہ تبدیل کرنے کے لئے ظاہری آنکھ میں ظاہری طور پر مشاہدہ کرنے میں کچھ فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ فاصلہ طے کرنے میں زمان و مکان دونوں زیرِ بحث آ جاتے ہیں۔
دس قدم اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ کھڑا ہونا مکانیت ہے اور دس قدم اٹھانے میں جتنا وقت صرف ہوا وہ زمانیت ہے۔
مکانیت اور زمانیت میں سفر کرنے سے زاویۂ نگاہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
ایک دیکھنا یہ ہے کہ آدمی بنفس نفیس زمین پر چل کر فاصلہ طے کرے۔ فاصلہ طے کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے، فاصلہ طے کرنے اور وقت لگنے میں نگاہ کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
زاویۂ نگاہ تبدیل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ذہن کے اندرونی نقش و نگار پر اپنے تصوّر کو مرکوز کر دے تو ذہن کے اوپر نقوش کا خاکہ مرتب ہوتا ہے۔ اس خاکے کو دیکھنے کے لئے ٹائم اسپیس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
اس سے دو قانون منکشف ہوئے۔
1. ایک یہ کہ آدمی جس طرح ظاہری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہزاروں میل کی مکانیت اور دنوں اور مہینوں کی زمانیت طے کر کے دیکھتا ہے…. وہ تصوّراتی ماحول میں یا تصوّراتی قاعدوں اور ضابطوں کے ساتھ زمانیت اور مکانیت کے بغیر بھی چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ظاہری آنکھوں سے دیکھنے میں تصویر زیادہ روشن اور واضح ہوتی ہے لیکن اگر تصوّراتی نگاہ قائم ہو جائے یا تصوّراتی نگاہ سے دیکھنا آدمی کا اختیاری ہو جائے تو دھندلا خاکہ بھی روشن اور واضح ہو جاتا ہے۔
2. دوسرا قانون یہ ہے کہ جب ہم سفر کرتے ہیں تو ہماری نگاہ کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ‘‘ہوجا’’ کے بعد ہم لوحِ محفوظ سے سفر کر کے ‘‘عالمِ جُو’’ میں آئے تو ہماری نگاہ کا زاویہ تبدیل ہو گیا۔ جیسے جیسے یہ تنزّل واقع ہوتا رہتا ہے، نگاہ کا زاویہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور انسان یہ بات جان لیتا ہے کہ خارجی حصے میں جو کچھ ہے وہ باطنی احساس کا نقش ہے۔ جیسے جیسے باطنی احساس میں تنزّل واقع ہوتا ہے اور زاویۂ نگاہ میں گہرائی پیدا ہوتی ہے…. چیزیں ٹھوس نظر آتی ہیں۔

احساس کی درجہ بندی

یہ بات ہم سمجھ چکے ہیں کہ کائنات کا یکجائی پروگرام اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ اللہ کے علم میں کائنات کے خدوخال جس طرح موجود ہیں اُن کا مظاہرہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے ‘‘کُن’’ فرمایا اور کائنات بن گئی۔
جب کائنات بن گئی تو کائنات کو صرف اپنے وُجود کا علم تھا۔
کائنات کے افراد یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں…. کیوں ہیں…. اور ان کو تخلیق کرنے والی ہستی کون ہے؟
اِس جمود کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ خود کائنات کے سامنے آ گئے اور کہا…. میں ہوں تمہارا رب!
کائنات کے افراد کو سب سے پہلے جس چیز کا علم ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی آواز تھی۔
کائنات جب اس آواز کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے دیکھا ایک ہستی ہے جو ربّ کی حیثیت سے اپنا تعارف کرا رہی ہے۔ یعنی ایک ایسی ہستی جس نے تمہیں پیدا کیا، تمہیں علم بخشا، تمہیں سماعت اور نگاہ منتقل کی اور تمہارے لئے وسائل پیدا کئے۔

جب ہم انسان کا تذکرہ اس وقت کے حالات میں کرتے ہیں جب اسے سماعت اور نگاہ منتقل نہیں ہوئی تھی تو ہم اسے صرف احساس کا نام دیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ربّ ہونے کا اعلان کیا اور کائنات نے اس آواز کو سن کر اللہ تعالیٰ کی طرف نگاہ اٹھائی اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ تو اسے اپنے ہونے کا اِدراک مل گیا۔ لیکن رمز کی بات یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے نگاہ منتقل ہوئی یعنی انسان نگاہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اس بات کو مولانا رومؒ نے اس طرح فرمایا ہے کہ آدمی نگاہ ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب فکشن(Fiction) ہے۔ اور نگاہ یہ ہے کہ آدمی اس بات سے واقف ہے کہ میں مخلوق ہوں اور میرا بنانے والا اللہ ہے۔ جب تک آدم کی نظر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے اوپر نہیں ٹھہری اس کی حیثیت صرف احساس کی تھی اور جب اس کی نگاہ اللہ تعالیٰ کے اوپر ٹھہر گئی تو اس کی حیثیت علم کی بن گئی اور اس کے اندر سننے اور دیکھنے کے حواس پیدا ہو گئے۔
دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔
• ایک طرز یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو باہر دیکھ رہے ہیں …. اور
• دیکھنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ ہم اس چیز کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جو فی الواقع اس کی حیثیت ہے
آئینہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم جب کسی قد آدم آئینے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں اس آئینے میں اپنی صورت نظر آتی ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں۔ پہلے آئینے نے ہمیں دیکھ کر اپنے اندر جذب کیا اور اپنے اندر جذب کرنے کے بعد ہماری تصویر کو منعکس کیا۔ اگر آئینہ ہماری تصویر کو اپنے اندر جذب کر کے منعکس نہ کرے تو ہم آئینہ نہیں دیکھ سکتے۔
دیکھنے کی طرزیں دو ہیں۔
ایک دیکھنا بالواسطہ یا میڈیم کے ذریعے دیکھنا ہے…. اور
ایک دیکھنا براہِ راست میڈیم کے بغیر دیکھنا ہے
براہِ راست طرز کلام میں جب ہم دیکھنے کا تذکرہ کریں گے تو یہ کہا جائے گا کہ پہلے آئینہ نے ہماری تصویر دیکھ کر اپنے اندر جذب کی پھر ہم نے آئینہ دیکھا۔ یعنی ہم نے آئینہ نہیں دیکھا بلکہ آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہی صورتحال زندگی کے تمام اعمال و حرکات کی ہے۔
ہر انسان اپنے ذہن کو آئینہ تصوّر کرے تو دیکھنے کی براہِ راست طرز یہ ہو گی کہ کوئی بھی صورت یا شئے پہلے ہمارے ذہن نے دیکھی۔ پھر ہم نے اس کو دیکھا یعنی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اپنے ذہن کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ کوئی خیال کوئی تصوّر کوئی شئے اس وقت تک نگاہ کے لئے قابل قبول نہیں ہے جب تک اس کی تصویر انسانی ذہن کی اسکرین پر پہلے سے منعکس نہ ہو۔
ہمارے سامنے ایک گلاس رکھا ہوا ہے۔ اس میں پانی بھرا ہوا ہے۔
• بالواسطہ دیکھنے کی طرز یہ ہے کہ ہم گلاس دیکھ رہے ہیں۔ جس میں پانی بھرا ہوا ہے۔ براہِ راست یا روحانی طرزوں میں یہ دیکھنا فکشن اور غیر حقیقی ہے۔
• براہِ راست طرز کلام میں گلاس دیکھنے کے عمل کو اس طرح بیان کیا جائے گا کہ…. ہمارے ذہن کی اسکرین پر نگاہ (علم) کے ذریعے گلاس کا عکس اور پانی کی ماہیت ہمارے لاشعور نے قبول کی۔ یعنی پانی اور گلاس کا پورا پورا عکس اپنے علم اور اپنی ماہیت کے ساتھ ہمارے اندر کی آنکھ نے دیکھ کر اس کے اندر تمام خدوخال اور نقوش کو محسوس کر لیا اور باطنی نگاہ کا یہ محسوس کرنا ہی دیکھنے کا عمل ہے
مختصر الفاظ میں اس بات کو اس طرح سمجھئے کہ روحانی نقطۂ نظر سے دیکھنا باہر دیکھنا نہیں ہے۔ انسان کی نگاہ پہلے کسی چیز کے عکس کو لوٹا کر ذہن کی اسکرین پر نقش کرتی ہےاس کے بعد ہم اس چیز کو دیکھتے ہیں۔ ایک دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سامنے چیز رکھی ہوئی ہے اور ایک دیکھنا یہ ہے کہ سامنے رکھی ہوئی چیز کا عکس ہمارے لاشعور پر نقش ہو رہا ہے اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ براہِ راست طرز نگاہ یہ ہے کہ ہم اپنی روح کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جب مر جاتا ہے تو باوجودیکہ اس کی آنکھ، آنکھ کا ڈھیلا آنکھ کی پتلی تل سب کچھ موجود ہونے کے باوجود کچھ نظر نہیں آتا۔ وجہ یہ ہے کہ جس چیز کے اوپر عکس منتقل ہو رہا تھا اس عکس کا علم ہمیں نہیں مل رہا۔
یہی صورتحال موت کے علاوہ عام زندگی میں بھی پیش آتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی اندھا ہو گیا۔ اس کے سامنے ساری چیزیں رکھی ہوئی ہیں لیکن اسے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ کیوں نظر نہیں آ رہا اس لئے نظر نہیں آرہا کہ جو چیز دیکھنے کا میڈیم بنی ہوئی تھی وہ موجود نہیں یعنی آنکھ نے دیکھ کر کسی چیز کا عکس ذہن پر منتقل نہیں کیا۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھیں ٹھیک ہیں لیکن دماغ کے سیل (Cells) جو انسان کے اندر حسّیات (Senses) پیدا کرتے ہیں یا وہ سیلز(Cells) جو نگاہ کا ذریعہ بن کر تصویری خدوخال کو ظاہر کرتے ہیں معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے۔
نگاہ کے بعد ہی انسانی ذہن میں حیات کا عمل دخل ہے۔
مثلاً ایک آدمی کے چیونٹی کاٹتی ہے۔ اس نے چیونٹی کو دیکھا نہیں۔ لیکن وہ چیونٹی کے کاٹنے کی تکلیف محسوس کرتا ہے یعنی وہ حِس جو آدمی کے اندر کسی بھی طریقے سے علم بنتی ہے اس نے انسانی دماغ کو یہ بتا دیا کہ کسی چیز نے کاٹا ہے۔
کہنا یہ ہے کہ….
انسان کو سب سے پہلے جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے خواہ وہ لمس کے ذریعے ہو خواہ شامہ کے ذریعے ہو خواہ سماعت کے ذریعے ہو خواہ بصارت کے ذریعے ہو احساس کا پہلا درجہ ہے۔
کسی چیز کو سننا سننے کے بعد….. مفہوم اخذ کرنا…. یہ احساس کی دوسری درجہ بندی ہے۔

1. انسان کو جب کسی چیز کا پہلی مرتبہ علم حاصل ہوتا ہے تو یہ احساس کا پہلا درجہ ہے
2. دیکھنا احساس کا دوسرا درجہ ہے
3. سننا احساس کا تیسرا درجہ ہے
4. کسی چیز کو سونگھ کر اس کی خوشبو یا بدبو محسوس کرنا احساس کا چوتھا درجہ ہے
5. چھونا احساس کا پانچواں درجہ ہے۔

احارس کا صحیح نام نگاہ ہے…. اس لئے کہ جب تک مخلوق کی نظر خالق کے اوپر نہیں ٹھہرتی احساس کی درجہ بندی نہیں ہوتی۔

مخلوق ‘‘ہوجا’’ کے بعد جس اسٹیج پر موجود تھی اس کو صرف یہ خیال تھا کہ میں ہوں۔
پھر اس کو نگاہ ملی۔
نگاہ کے ساتھ ساتھ وہ قوت سماعت سے آشنا ہو گیا…. اور
اس کے بعد اس کو دوسری حسیں (Senses) منتقل ہو گئیں۔

وحدتُ الوجود …. وحدتُ الشّہود

سابقہ لیکچر میں آئینے کی مثال دے کر بتایا گیا تھا کہ آئینے میں خود کو دیکھنا دیکھنے کی دو طرزوں کا انکشاف کرتا ہے۔
ایک دیکھنا یہ ہے کہ ہم آئینے کو دیکھ رہے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم نے آئینہ دیکھا۔ یہ طرز نگاہ بالواسطہ ہے۔ جب ہم دیکھنے کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ہمارے شعور میں گہرائی کا اِدراک پیدا ہو جاتا ہے تو از خود یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہم اپنا عکس آئینے کے اندر دیکھ رہے ہیں۔
یہ کہنا کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں بالواسطہ دیکھنے کی طرز ہے…. اور
یہ محسوس کرنا کہ ہم خود کو آئینے کے اندر دیکھ رہے ہیں، براہِ راست دیکھنے کی طرزِ فکر ہے
یہ ہی صورت حال زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔
ایک صورت یہ ہے کہ ہم آنکھوں سے باہر دیکھ رہے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ بات ہمارے اِدراک میں موجود ہے ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ باہر نہیں دیکھ رہے بلکہ ہمارے اندر باہر کی چیزوں کا عکس منتقل ہو رہا ہے اور ہم اس عکس کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک طرز کو تصوف میں بالواسطہ طرز کہا جاتا ہے…. اور
دوسری طرز کو براہِ راست طرز نظر کہتے ہیں۔
مرنے کی مثال سے یہ بات ہمارے سامنے موجود ہے کہ دیکھنے والی شئے آنکھ نہیں ہے، دیکھنے والی شئے روح ہے۔
مطلب یہ ہُوا، اگر کوئی بندہ بالواسطہ نگاہ سے واقف ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں باہر دیکھ رہا ہوں اور جب سالک براہِ راست دیکھنے کی طرز سے آشنا ہو جاتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ دیکھنا دراصل باطن میں دیکھنا ہے۔
جب تک کوئی آدمی بالواسطہ دیکھتا ہے، وہ جمادات یا حیوانات کی صف کا ایک فرد ہے…. اور
جب کسی بندے کے اندر براہِ راست دیکھنے کی طرز کام کرنے لگتی ہے تو وہ حیوانات کی صف سے نکل کر انسان کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
جب سالک کے اندر براہِ راست نگاہ کام کرتی ہے تو اس کے اوپر اس رشتے کا انکشاف ہو جاتا ہے جو رشتہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہے۔ خالق اورمخلوق کے درمیانی رشتے کو علم الٰہی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے ‘‘الست بربکم’’ فرما کر کائنات کو نگاہ کا علم عطا کیا۔ دیکھنے کی طرزوں میں قانون بہت زیادہ اہم ہے کہ دیکھنے کا عمل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نگاہ کے لئے کوئی ہدف نہ بن جائے۔ یعنی نگاہ کسی چیز کوٹارگٹ کےن بغیر نہیں دیکھ سکتی۔ کائنات یا انسان کی نگاہ کا پہلا ٹارگٹ اللہ تعالیٰ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ ‘‘میں تمہارا ربّ ہوں’’ ….. تو انسان کی نگاہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات ایک ٹارگٹ بن گئی اور یہاں سے انسان گمشدگی کے دریا سے باہر آ گیا۔
جب انسان گمشدگی کے دریا سے باہر آیا تو اس نے پہلے اللہ کو دیکھا اور پھر ساری کائنات کو یکجائی پروگرام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہوئے سنا۔
اقرار کا سننا اور تمام کائنات کو ایک کنبے کی حیثیت میں دیکھنا اور یہ محسوس کرنا کہ ہماری حیثیت صرف نگاہ کی ہے…. نگاہ کی دوسری حرکت ہے۔ پھر نگاہ نے دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں کروٹ بدلی۔
اب اس نے دیکھا کہ فی الواقع ہر چیز کی حیثیت یہ ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں بس وہی ہے…. اس دیکھنے کو وحدتُ الشّہود کہتے ہیں۔
جب نگاہ بالواسطہ دیکھتی ہے تو خود کو مکانیت اور زمانیت کے اندر محبوس اور مقید محسوس کرتی ہے اور جیسے جیسے بالواسطہ دیکھنے کی طرزیں گہری ہوتی جاتی ہیں اسی مناسبت سے کثرت در کثرت درجے تخلیق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ نگاہ کہیں گفتار، کہیں نظارہ، کہیں شہود، کہیں شامّہ، کہیں سماعت اور کہیں لمس بن جاتی ہے۔ شہود، قوتِ نظارہ، شامہ اور لمس…. مکانیت اور زمانیت کے اندر محدود ہیں۔

اِن حرکات کو تنزّلات کہا جاتا ہے۔ ہر تنزّل کے دو جزو ہوتے ہیں۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے قانون بیان فرمایا ہے کہ ہر شئے دو رخوں پر تخلیق کی گئی ہے۔ اسی طرح تنزّل بھی دو رخوں پر قائم ہے۔
اب ہم یوں کہیں گے کہ انسان دوسرے تنزّل میں داخل ہو گیا اور اس دوسرے تنزّل میں اس نے شعور، نگاہ، شکل و صورت، گفتار، سماعت، رنگینی، احساس، کشش اور لمس سے وقوف حاصل کیا۔
تنزّل اوّل وحدت کا ایک درجہ ہے…. اور
تنزّل دوئم کثرت کے پانچ درجے ہیں
اس طرح تنزّلات کی تعداد چھ ہو گئی….
پہلے تنزّل کو لطیفہِ وحدت…. اور دوسرے پانچ درجوں کو لطائفِ کثرت کہتے ہیں۔

وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا جہاں تک تعلق ہے یا جس عالم کو اہل تصوف محض وحدت کا نام دیتے ہیں، یہ ذہن انسانی کی اپنی اختراع ہے۔
انسان اپنی محدود فہم کے مطابق یا محدود فکری صلاحیت کے مطابق جو کچھ بیان کرتا ہے وہ انسان کی اپنی محدود فکر ہے۔ یہ کہنا کہ عالمِ وحدت، وحدتِ باری تعالیٰ ہے…. ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدت کو یا اللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو انسانی شعور بیان کرنے سے قطعی قاصر ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرتے ہیں تو دراصل اپنی ہی محدود فکری صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل احاطہ ہو سکے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں جس لامحدودیت کا اظہار کرتا ہے فی الواقع وہ اپنے محدود دائرہ کا تذکرہ کرتا ہے۔ یعنی انسان کی محدود فکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات جس حد تک سما جاتی ہیں، اِس نے اُس کو لامحدودیت کا نام دے دیا۔
اس کا مطلب یہ نکلا کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدت کا تذکرہ کرتے ہیں تو فی الحقیقت اپنی وحدت کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس حد تک سمجھا ہے۔
انسان جس مقام کے تعین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا سمجھنے کے لئے کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس ہی مناسبت سے وہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کر دیتا ہے۔ چونکہ انسان کی لامحدود نگاہ بھی محدود ہے اس لئے آگے اور آگے اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے اِدراک میں یہ بات نہیں آتی کہ جو دیکھا ہے اس سے آگے بھی کچھ ہے۔ وہ بے بسی کی حالت میں سمجھ میں نہ آنے والے عالم کا نام وحدتُ الوجود یا وحدتُ الشّہود رکھ دیتا ہے۔

آخری نبی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ‘‘پہچاننے کا جو حق ہے وہ ہم سے پورا نہیں ہوا’’۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ تعالیٰ کی باتوں کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔
(سورۃ لقمان – 27)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 42 تا 55

شرحِ لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - تعارف 0.02 - انتساب 0.03 - پیش لفظ 01 - لیکچر 1 – علم حُضوری، علم حُصولی 02 - لیکچر 2 – ثابِتہ اَعیان جوَیّہ 03 - لیکچر 3 – لوحِ محفوظ 04 - لیکچر 4 – مُغَیَّباتِ اَکوان 05 - لیکچر 5 – کثرت کا اجمال 06 - لیکچر 6 – اِدراک اور وَجدان 07 - لیکچر 7 – نیابت و خلافت 08 - لیکچر 8 – کُن فیکون 09 - لیکچر 9 – تجلّیات, اجمال 10 - لیکچر 10 – حواس کی رفتار 11 - لیکچر 11 – اندر کی آواز 12 - لیکچر 12 – لاعلمی بھی علم ہے 13 - لیکچر 13 – قوتِ اِلقاء 14 - لیکچر 14 – نسبتِ عِلمیہ 15 - لیکچر 15 – شخصِ اکبر 16 - لیکچر 16 – آدم کا شرف 17 - لیکچر 17 – قضا و قدر 18 - لیکچر 18 – تصرف اور علمِ شئے 19 - لیکچر 19 – معجزہ، کرامت، اِستدراج 20 - لیکچر 20 – الہامی کتابیں 21 - لیکچر 21 – روشنی کی قسمیں 22 - لیکچر 22 – ازل تا قیامت 23 - لیکچر 23 – نسبتِ یادداشت 24 - لیکچر 24 25 - لیکچر 25 26 - لیکچر 26 27 - لیکچر 27 28 - لیکچر 28 29 - لیکچر 29 30 - لیکچر 30 31 - لیکچر 31 32 - لیکچر 32 33 - لیکچر 33 34 - لیکچر 34 35 - لیکچر 35 36 - لیکچر 36 37 - لیکچر 37 38 - لیکچر 38 39 - لیکچر 39 40 - لیکچر 40
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)