لیکچر 40
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56706
انسان روحانیت کہاں سے سیکھے؟
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تصنیف کتاب لوح و قلم نَوعِ انسان کے لئے ماورائی علوم کا ورثہ ہے۔ اس روحانی ورثہ سے اِستفادہ کرکے نَوعِ انسان اشرفُ المخلوقات کے مَنصب پر فائز ہو سکتی ہے۔
ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
جب سے کائنات بنی ہے اور کائنات میں بے شمار دنیائیں تخلیق ہوئی ہیں، ان تخلیقات میں جب ہم پیغمبروں کا وصف تلاش کرتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ پیغمبروں نے نوعِ انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصوّرات سے آگاہ کیا ہے۔
جتنے بھی اعمال و حرکات ہیں اس میں نوعِ انسانی اور تمام نَوعیں مشترک ہیں۔ لیکن ان اعمال میں اچھائی اوربرائی کا تصوّر صرف نوعِ انسانی کو منتقل ہوا۔
جب ہم زمین پر موجود دوسری نَوعوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہر نَوع دوسری نَوع کے ساتھ باہم مشترک نظر آتی ہے۔ زندگی کے جتنے تقاضے ہیں اور جتنے جذبات و احساسات زندگی بنتے ہیں وہ سب دوسری نَوعوں میں بھی ہیں۔
انسان اور دوسری نَوعوں میں یہ فرق ہے کہ انسان کے پاس علم (Knowledge) دوسری نَوعوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ انسان اس بات کا اِدراک رکھتا ہے کہ زندگی اطلاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اطلاع بذات خود نہ بری ہے نہ اچھی ہے۔ اطلاع میں معانی پہنانا اچھائی یا برائی ہے۔
ایک آدمی محنت مزدوری کرکے غذائی ضروریات پورا کرتا ہے۔ دوسرا چار سو بیسی کرکے غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔
محنت مزدوری میں وقت لگانا پڑتا ہے اور دماغی صلاحیتیں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔
چوری کے لئے بھی وقت لگتا ہے اور محنت کرنا پڑتی ہے۔
دونوں اعمال کا صلہ یہ ہے کہ روٹی کھانے کے بعد جسم میں انرجی پیدا ہوتی ہے خون بنتا ہے اور خون کی ترسیل سے زندگی کا چراغ جلتا ہے۔ اگر تصوّرات میں برائی کے معانی پہنائے گئے ہیں تو ضمیر ملامت کرتا ہے اور اگر اطلاع میں اچھائی کے معانی پہنائے گئے ہیں تو ضمیر مطمئن ہوتا ہے۔
نوعِ انسانی کے علاوہ دوسری کوئی مخلوق ضمیر سے واقف نہیں ہے۔
دوسری مخلوق نہیں جانتی کہ ضمیر کا مطمئن ہونا یا ضمیر کا ملامت کرنا کیا معانی رکھتا ہے۔
جب انسان اطلاعات میں معانی پہنا کر اپنی زندگی کا محاسبہ کرتا ہے تو زندگی کا محاسبہ اسے مطمئن کر دیتا ہے یا بے چین کر دیتا ہے۔
• اطمئنان آدم زاد کو روح سے قریب کرتا ہے۔
• بے چینی اور ضمیر کی ملامت آدم زاد کو روح سے دور کر دیتی ہے۔
جب انسان اطمئنان قلب کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو کسی نہ کسی مرحلے میں روح کا سراغ مل جاتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ زندگی کا دارومدار اطلاع پر ہے اور اطلاع کا تعلق روح سے ہے۔ جب تک روح اطلاعات فراہم کرتی رہتی ہے …. زندگی، زندگی رہتی ہے اور جب روح اطلاعات کا سلسلہ منقطع کر دیتی ہے تو زندگی موت میں بدل جاتی ہے۔
روح کی قربت کے بعد آدم زاد کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ روح کیا ہے؟ انسان سمجھنا چاہتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ کائنات اور خالق کائنات سے میرا کیا رشتہ ہے؟ اسکے علم میں یہ بات آ جاتی ہے کہ خالق اور مخلوق کے رشتہ کی تلاش میں جدوجہد کرنا روحانیت ہے۔
خواتین و حضرات آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تصنیف لوح و قلم کی تشریح سے متعلق لیکچر مجھ عاجز مسکین خواجہ شمس الدین عظیمی سے سنے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو اور مجھے اللہ نے الہامی کتاب لوح و قلم کی فراست عطا کی ہے۔
کتاب لوح و قلم کا خلاصہ یہ ہے کہ:
کائنات میں انسان واحد مخلوق ہے جو علمی اور ذہنی طور پر خالق کائنات اللہ کا تعارف حاصل کر سکتی ہے۔
نوعِ انسانی کائنات میں وہ مخلوق ہے جو کائناتی امور میں کارکن کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایڈمنسٹریشن (Administration) کے ذریعے کائناتی نظام کو متحرّک کیا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں صرف نَوعِ انسان کو یہ نعمت عطا کی ہے کہ کائنات اور کائنات کی تخلیق سے متعلق فارمولوں کا علم انسان کو منتقل کر دیا ہے اور جب کوئی انسان نظامت سے متعلق علوم کو سیکھ لیتا ہے وہ کائنات کا رکن بن جاتا ہے اور رکن بننے کے بعد اللہ کی نیابت و خلافت کے فرائض انجام دیتا ہے۔
جب کوئی بندہ اللہ کی نیابت اور انتظامی امور کے میکانزم کو سمجھ لیتا ہے تو کائنات پر بفضل ربّی اُس کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔
کائنات سے مراد جمادات و نباتات، حیوانات، فرشتے اور دوسری مخلوقات ہیں۔
الہامی کتاب ’’لوح و قلم‘‘ ہمیں راستہ دکھاتی ہے کہ ہم بحیثیت انسان اللہ کی ایسی مخلوق ہیں کہ اگر ہم اللہ کے دیئے ہوئے وصف کو …. جو روح کے رشتہ سے ہمارا ورثہ ہے …. تلاش کر لیں تو کائنات میں ایک ممتاز رکن بن جائیں گے۔
لوح و قلم کا طالب علم اور لوح و قلم کا سمجھنے والا بندہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہو جاتا ہے کہ:
• یہ کائنات اِدراک کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اِدراک اطلاع ہے۔
• اس اطلاع یا روشنی کا تعلق براہِ راست اللہ سے ہے۔
سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، چُھونا یہ سب اُس وقت تک ہے، جب تک انسان کے اندر روح ہے۔ روح آپ کو اطلاعات منتقل کرتی رہتی ہے اور جب روح دیکھنے، سننے، چُھونے، محسوس کرنے کی اطلاعات فراہم نہیں کرتی تو ہم دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں، اور نہ محسوس کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں نے تمہیں سماعت اور بصارت دی۔ مخلوق میری سماعت سے سنتی ہے اور بصارت سے دیکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
دیکھنے اور سننے کی اطلاع میں نے دی۔
(سورۃ الأحقاف – 26)
اطلاعات کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے۔
جب ہم عام حالات میں اطلاع کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں بہت کم اطلاعات وصول ہوتی ہیں۔ اگر ہم کائنات میں پھیلی ہوئی تمام اطلاعات کے مقابلے میں اپنی مادّی زندگی کی اطلاعات کا مقابلہ کریں تو صفر کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔
مادّی زندگی میں جو اطلاعات جذبات بنتی ہیں وہ محدود ہیں، لیکن روحانی زندگی میں اطلاعات کا پھیلاؤ اور وسعت بہت زیادہ ہے۔
روحانیت کیا ہے؟
روحانیت کہاں سے سیکھیں؟
کیا ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی ممکنہ مکتبۂِ فکر ہے، جہاں سے ہم سند حاصل کریں؟
روحانی علوم کی سند قرآنِ پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر رحمت اللعالمین، حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اوپر اپنی تمام نعمتیں پوری کر دیں۔
تمام نعمتیں تخلیقِ کائنات سے متعلق اَسرار و رُموز اور کائناتی تسخیری فارمولے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اس نعمت کو جو اللہ نے ان پر پوری فرما دی ہے، تمام کی تمام قرآنِ پاک میں بیان فرما دی ہے۔
اگر انسان اپنی ذات سے واقف ہونا چاہتا ہے، اگر انسان دوسری مخلوقات سے ممتاز ہو کر اشرف المخلوقات بننا چاہتا ہے، اگر انسان اللہ کی بادشاہی میں شریک ہو کر اللہ تعالیٰ کے نظامِ تکوین میں کارکن بننا چاہتا ہے …. اورکائنات پر حاکمیت چاہتا ہے …. تو اسے چاہئے کہ وہ قرآن میں روحانی علوم تلاش کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ پیغمبروں میں بے شمار پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر صحیفے نازل ہوئے۔ کئی پیغمبروں پر کتابیں نازل ہوئیں۔ لیکن تکمیلِ علم اور تکمیلِ نعمت کا تذکرہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے بارے میں فرمایا ہے۔
کتاب لوح و قلم جس کے لیکچر آپ نے سنے اور اپنی اپنی ڈائریوں میں لکھے، صدر الصُدور مُمثّلِ کلیات، ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے تعمیلِ ارشاد میں لکھوائی۔
الحمدللہ! مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں نے اس کتاب کا ایک ایک لفظ لکھا۔ لفظوں کی معنویت پر غور کیا۔ مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے تصرّف اور فیض سے جو کچھ میں نے اس کتاب میں لکھا اور پڑھا۔ الحمد للہ، آپ سب نے آنکھوں سے دیکھا، کانوں سے سنا اور ذہن میں محفوظ رکھا۔ جس قدر مجھے مرشد کریم نے لوح و قلم کے ذریعے علوم سکھائے (یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے لوح و قلم کو سمجھ لیا ہے) …. جس حد تک میری کوتاہ فہم میں آیا، میں نے آپ تک پہنچا دیا۔
اب میرا اور آپ سب کا فرض ہے کہ اس علم کو جس طرح ممکن ہو اللہ کی مخلوق تک پہنچائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
ہم سب کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے مشن کو آگے بڑھانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔
ایک بات اور عرض کرنا ہے کہ ہمارے پاس کتابی شکل میں قرآنِ پاک موجود ہے۔
نوعِ انسانی کے لئے اللہ نے قرآنِ پاک خاتمُ النّبیّین، سرورِ عالمین، باعثِ تخلیقِ کائنات سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ لکھوائی۔ اس کتاب کا مسلمانوں نے جو حشر کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس کتاب سے اسلئے فائدہ نہیں اٹھا سکے کہ ہم نے اس کتاب کو پڑھا، مقدس جانا، لیکن اس میں تفکر نہیں کیا۔
قانون یہ ہے کہ جب تک کسی شعبے یا علم میں تفکر نہیں کیا جاتا علم کی تکمیل نہیں ہوتی۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰ والسّلام کے ارشاد سے کتاب لوح و قلم لکھوائی۔ اس کو بھی اگر ایک عجوبہ تحریر سمجھ کر پڑھا گیا تو فائدہ نہیں ہو گا۔
کتاب لوح و قلم سے اس وقت فائدہ ہو گا جب آپ کے اندر تفکر کا پیٹرن بن جائے۔
ساری جدوجہد اس کتاب کے سلسلے میں یہی ہے کہ انسان کے اندر سوچ اور تفکر متحرّک ہو جائے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ عاجز سے پوچھا:
آپ اگر کسی سے دوستی کرنا چاہیں تو کیاکریں گے؟ میں نے کہا اس کی خاطر مدارت کریں گے … ارشاد فرمایا اور جب خاطر مدارت نہیں کرو گے تو دوستی ختم ہو جائے گی۔
پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ دوستی اس وقت پکی ہوتی ہے جب دوست کے رنگ کو اپنے اوپر غالب کر لیا جائے۔
دوست کی طرزِ فکر …. اپنی طرزِ فکر اور …. دوست کے مزاج کو …. اپنا مزاج بنا لیا جائے۔
اگر کسی نمازی سے دوستی مطلوب ہے تو پکا نمازی بننا پڑے گا۔ علیٰ ھٰذا القیاس، جب تک آدمی دوست کی دل چسپیوں کو اپنی دل چسپی نہیں بنائے گا دوستی پکی نہیں ہو گی۔
ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اخلاق حسنہ پر عمل کرنا ہو گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اللہ تعالیٰ سے دوستی کے ضِمن میں تفکر کیا ہے۔ ابھی نبوت سے سرفراز نہیں کئے گئے تھے، حضرت جبرائیلِ اَمین سامنے نہیں آئے تھے، لیکن تفکر کا یہ عالم تھا کہ میلوں دور غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور اللہ کی نشانیوں میں غور فرماتے تھے، مراقبہ کرتے تھے۔ نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قاصد جبرئیل علیہ السلام کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے پاس بھیج دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوّت کے جلیلُ القدر درجہ پر فائز ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر کے تحت وہ تمام علوم نوعِ انسانی کو منتقل کر دیئے جن علوم کو سیکھ کر کوئی بندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ سے دوستی کر سکتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
میں یہ کتاب سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
ایک جگہ یہ فرمایا ہے کہ اس کتاب کو اگر غور و فکر کے ساتھ پڑھا جائے اور معانی تلاش کئے جائیں تو یقیناً وہ تمام علوم منکشف ہو جائیں گے جو کتاب لوح و قلم میں بیان ہوئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ایک ایسی قرآنی تفہیم ہے جس کو تھوڑا پڑھا جائے اور زیادہ غور کیا جائے …. جیسے جیسے تفکر کیا جائے گا اسی مناسبت سے شعوری سکت بڑھے گی۔
ان شاء اللہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ شعور لاشعوری تحریکات کو قبول کر لے گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے اوپر شعور غالب ہے اور لاشعور مغلوب ہے۔ اس کتاب کو سمجھنے کے بعد لاشعور غالب ہو جاتا ہے اور شعور مغلوب ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کتاب سے اِستفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے اس فیض کو تمام عالَم میں عام کر دے۔ آمین ثمَّ آمین۔
لوح و قلم تصنیف حسن اخری سید محمد عظیم برخیا المعروف
قلندر بابا اولیاء
شارح
اپنے مرشد کا داس
خواجہ شمس الدین عظیمی
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 339 تا 345
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔