لیکچر 4 – مُغَیَّباتِ اَکوان

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47452

مُغَیَّباتِ اَکوان

اللہ تعالیٰ جب اپنی صفات بیان کرتے ہیں۔ ان صفات میں وحدت اور کثرت کا تذکرہ شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ مخلوق کثرت ہے۔ مخلوق کے اندر احتیاج ہے۔ مخلوق کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی کی اولاد ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مخلوق باپ کی حیثیت میں اپنا تشخص برقرار رکھے یا ماں کی حیثیت میں اس کا تشخص موجود ہو مخلوق خاندان کے بغیر نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے بے نیاز ہے۔
چونکہ مخلوق کثرت ہے اس لئے ضروری ہو گیا کہ مخلوق کے اندر انفرادی شعور کے ساتھ ساتھ :
کرنٹ اور اجتماعی شعور بھی ہو…. اور
اجتماعی شعور میں درجہ بندی ہو…. اور
اجتماعی حیثیت نَوعی اعتبار سے ہو…. اور
یہ حیثیت رشتوں کے اوپر قائم رہے…. جیسے باپ کا رشتہ، ماں کا رشتہ اور خاندان سے تعلقات وغیرہ۔
ان رشتوں کو قائم رکھنے اور رشتوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کائنات میں جو سلسلہ قائم ہے وہ سب ‘‘جُو’’ کے اندر عمل پذیر ہے۔
‘‘جُو’’ کی مختصر تعریف یہ ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات پر قائم ہے۔
جُو کی دوسری تعریف یہ ہے۔
کائنات از خود وُجود میں نہیں آئی، کسی ہستی نے اس کو تخلیق کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تخلیق کا خالق کے ساتھ ربط ہو۔ یہ ربط ہمیں بتاتا ہے کہ:
① ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
② پیدا ہونے کے بعد وسائل فراہم کرنے والا اللہ ہے۔ کائنات بشمول انسان ہر ہر قدم پر خالق کی محتاج ہے۔
③ تیسرے نمبر پر ہم کائناتی حدود سے گزر کر نَوعی حدود میں داخل ہونے کے بعد انفرادی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ یعنی ہر بندے کو اپنا انفرادی شعور حاصل ہے۔ وہ شعوری طور پر یہ بات جان لیتا ہے کہ…. ‘‘میں ہوں’’۔
‘‘جُو’’ کے اوپر کے دونوں سلسلوں میں…. کائناتی اعتبار سے …. اور نَوعی اعتبار سے …. جاننا لاشعوری تحریکات کے تابع ہے۔
④ ‘‘جُو’’ کے چوتھے سلسلے میں انفرادی طور پر کوئی فرد اپنی شکل و صورت…. احساسات اور حسّیات سے واقف ہو جاتا ہے۔
⑤ پھر وہ ایک سیڑھی اور اترتا ہے یہ ‘‘جُو’’ کا پانچواں مرحلہ ہے۔ یہی وہ اِدراک ہے جس کی شرح میں یہ بات مخفی ہے کہ افراد کائنات کا تعلق افراد کائنات کا ربط یا افراد کائنات کی موجودگی ایسی ہستی کے ساتھ قائم ہے جو رگ جاں سے زیادہ قریب ہے اور جب کوئی بندہ نَوعی اعتبار سے اجتماعی ذہن کے ساتھ اس بات کا اِدراک کر لیتا ہے کہ میری موجودگی ایک ایسی ہستی کے تابع ہے جو جان سے زیادہ قریب ہے تو اسے اِدراک ہو جاتا ہے کہ میرا وُجود کائنات میں کہیں موجود ہے۔ ایسا بندہ ایک فرد کی حرکت کو دوسرے فرد کی حرکت کے ساتھ ایک ذرّے کی حرکت کو دوسرے ذرّے کی حرکت کے ساتھ دیکھ لیتا ہے۔
اس کی مثال زنجیر ہے۔ ایک زنجیر ہے، زنجیر میں بے شمار کڑیاں ہیں ہم ہر کڑی کا نام الگ الگ رکھتے ہیں۔ مثلاً
ایک کَڑی کا نام نَوعِ انسانی….
دوسری کَڑی کا نام جنات….
تیسری کَڑی کا نام فرشتے….
آسمانی کُرّہ یا کوئی اور کُرّہ ہے….
جب کوئی بندہ زنجیر کو بھرپور نظر سے دیکھے گا تو اس کی اجتماعی نظر ان تمام مخلوقات کو احاطہ کر لے گی۔ یعنی وہ زنجیر کی کڑی میں نَوعِ انسانی کو دیکھے گا، جنات کو دیکھے گا اور فرشتے بھی اس کے سامنے آ جائیں گے…. نہ صرف یہ کہ جنات اور فرشتے اس کے سامنے آ جائیں گے بلکہ آسمانوں کے اندر ستارے، سیّارے، کہکشانی نظام اور دیگر نظام سب کے سب اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔
لوحِ محفوظ ایک ایسی اسکرین ہے یا ایسی فلم ہے جس میں کائنات کا اجتماعی پروگرام پورا کا پورا حرکت کے ساتھ محفوظ ہے۔
‘‘جُو’’ کا تصوّر رکھنے والا بندہ لوحِ محفوظ کے نقوش کو دیکھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے۔
لوحِ محفوظ چونکہ ماضی، حال، مستقبل کا ریکارڈ ہے، اس لئے لوحِ محفوظ کو دیکھنے والا بندہ ہزاروں سال پہلے کی چیز ہو یا ہزاروں سال بعد آنے والے واقعات ہوں، ان کو دیکھ سکتا ہے۔
ہم نے لوحِ محفوظ کو مثال کے طورپر فلم کہا ہے۔
اگر کوئی ایسا کیمرہ ایجاد ہو جائے کہ پوری دنیا کی یکجائی فلم اپنے اندر محفوظ کر لے تو جب اس فلم کو دیکھا جائے گا تو اس کے اندر دنیا کی تمام چیزیں موجود ہوں گی اور اگر اسے پردے پر ڈسپلے کیا جائے گا تو وہ تمام چیزیں اپنی شکل و صورت اور اپنے رنگ و روپ کے ساتھ چلتی پھرتی اور متحرّک نظر آئیں گی۔
سمجھنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک فلم ہے۔
اس پروگرام کو جب ڈسپلے (Display) کیا جاتا ہے تو مختلف حواس وُجود میں آتے ہیں۔
اجتماعی حواس میں یا کائناتی حواس میں آدمی کائنات کو ایک جگہ دیکھتا ہے…. یعنی بندر، بلی، گائے، بھینس، درخت، پتے، دریا، پہاڑ، جنات، فرشتے وغیرہ…. سب ایک فلم میں محفوظ ہیں۔
پھر یہ اِدراک اجتماعی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اجتماعی حیثیت میں آدمی کے اندر نَوعی شعور پیدا ہوجاتا ہے…. یعنی وہ یہ جان لیتا ہے کہ میں نَوعِ انسان ہوں اور دوسری تخلیق فلاں فلاں نَوع ہے۔
اس کے بعد حواس مزید تنزّل کرتے ہیں تو بندے کے اندر تنظیمی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ اِس تنظیمی شعور میں وہ اِنفرادی شعور و اِدراک کے ساتھ اپنی نَوع کا اِدراک کرتا ہے اور اسے اپنی پیدائش اور اپنے حواس کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور جب سالک نَوعی اور انفرادی شعور سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ تمام نَوعیں باہم دیگر ملی ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میں اسے یہ نظر آتا ہے کہ ایک گائے ہے، گائے کے اندر بکری ہے، بکری کے اندر کبوتر ہے، کبوتر کے اندر آدمی ہے، آدمی کے اندر چیونٹی ہے یعنی کائنات کا پروگرام گڈمڈ نظر آتا ہے اور جب شعور اس قابل ہو جاتا ہے کہ نقوش کو سمجھ سکے تو یہ گڈ مڈ پروگرام الگ الگ نظر آتا ہے۔ اور نَوعیں الگ الگ نظر آتی ہیں۔ مثلاً لوحِ محفوظ پر نظر آتا ہے کہ ایک کبوتر ہے، کبوتر ایک ہے، اس کبوتر کی نسل کے اربوں کھربوں سائے (Shades) یا عکس ایک کبوتر میں نظر آتے ہیں۔ یہی حال نَوع جنات کا ہے یہی حال نَوع فرشتہ کا ہے یہی حال نَوعِ انسانی کا ہے یہی حال تمام جمادات نباتات حیوانات ستاروں سیاروں کا ہے۔ جب نظر اور ٹھہرتی ہے تو نَوعی گَڈمَڈ پروگرام پھیلتا ہے یا یوں کہئے کہ تصوّر کے اندر اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ شعور اس کی تشریح کرتا ہے۔ اس تشریح میں ہر نَوع کا الگ الگ انفرادی پروگرام نظر کے سامنے آ جاتا ہے۔
نظر کے اندر مزید گہرائی پیدا ہوتی ہے تو یہ نَوعی پروگرام انفرادی پروگرام میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس تقسیم میں ہر آدمی خود کو الگ الگ محسوس کرتا ہے یا کسی نَوع کا ہر فرد خود کو انفرادی حیثیت میں محسوس کرتا ہے۔
انفرادی حیثیت میں محسوس کرنے کے بعد شعور کے اندر اتنی سکت اور طاقت آ جاتی ہے کہ آدمی اپنی پیدائش کے مرحلے سے واقف ہو جاتا ہے۔ پیدائش کے مرحلے سے واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ نَوعِ انسانی کے افراد کی پیدائش کن عوامل پر ہو رہی ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس کے بعد ہر فرد اپنی شکل و صورت اور حواس سے وقوف حاصل کرتا ہے۔
پورے کائناتی نظام کو احاطہ کرنے کی صلاحیت کو تصوف میں ‘‘مُغیَّباتِ اَکوان” کہتے ہیں۔
مُغیَّباتِ اَکوان کے حامل بندے کے اندر اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے کے گزرے ہوئے حالات و واقعات اور ہزاروں سال بعد آنے والے حالات و واقعات کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی تفصیلات سے باخبر ہو جاتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 38 تا 41

شرحِ لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - تعارف 0.02 - انتساب 0.03 - پیش لفظ 01 - لیکچر 1 – علم حُضوری، علم حُصولی 02 - لیکچر 2 – ثابِتہ اَعیان جوَیّہ 03 - لیکچر 3 – لوحِ محفوظ 04 - لیکچر 4 – مُغَیَّباتِ اَکوان 05 - لیکچر 5 – کثرت کا اجمال 06 - لیکچر 6 – اِدراک اور وَجدان 07 - لیکچر 7 – نیابت و خلافت 08 - لیکچر 8 – کُن فیکون 09 - لیکچر 9 – تجلّیات, اجمال 10 - لیکچر 10 – حواس کی رفتار 11 - لیکچر 11 – اندر کی آواز 12 - لیکچر 12 – لاعلمی بھی علم ہے 13 - لیکچر 13 – قوتِ اِلقاء 14 - لیکچر 14 – نسبتِ عِلمیہ 15 - لیکچر 15 – شخصِ اکبر 16 - لیکچر 16 – آدم کا شرف 17 - لیکچر 17 – قضا و قدر 18 - لیکچر 18 – تصرف اور علمِ شئے 19 - لیکچر 19 – معجزہ، کرامت، اِستدراج 20 - لیکچر 20 – الہامی کتابیں 21 - لیکچر 21 – روشنی کی قسمیں 22 - لیکچر 22 – ازل تا قیامت 23 - لیکچر 23 – نسبتِ یادداشت 24 - لیکچر 24 25 - لیکچر 25 26 - لیکچر 26 27 - لیکچر 27 28 - لیکچر 28 29 - لیکچر 29 30 - لیکچر 30 31 - لیکچر 31 32 - لیکچر 32 33 - لیکچر 33 34 - لیکچر 34 35 - لیکچر 35 36 - لیکچر 36 37 - لیکچر 37 38 - لیکچر 38 39 - لیکچر 39 40 - لیکچر 40
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)