لیکچر 38
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56698
زمانی مکانی فاصلے
آج پیدا ہونے والا بچہ جب ساٹھ سال کا بوڑھا ہوتا ہے تو دراصل ساٹھ سال تک ہر لمحے بچہ پر موت وارِد ہوتی رہتی ہے اور ہر لمحے زندگی وارِد ہوتی ہے۔
جب ایک سال پر موت وارِد ہو جاتی ہے تو دو سال کا ہو جاتا ہے۔
اس طرز کا انکشاف ہمیں روزانہ خواب کی دنیا میں ہوتا ہے۔
زید خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے ایک دوست سے باتیں کر رہا ہے حالانکہ اس کا دوست دُور دراز فاصلے پر رہتا ہے لیکن خواب میں زید کو احساس بالکل نہیں ہوتا کہ اسکے اور دوست کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔
اسی طرح زید گھڑی دیکھ کر رات کے ایک بجے سوتا ہے۔ خواب میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہفتوں کا سفر کرتا ہے۔ راستے میں قیام بھی کرتا ہے۔ ایک طویل مدت گزارنے کے بعد گھر واپس آتا ہے ۔ آنکھ کھلتے ہی گھڑی دیکھتا ہے، گھڑی میں ایک ہی بجے کا وقت ہوتا ہے۔ اس قسم کے خواب میں زمانی فاصلہ صفر ہوتا ہے۔
کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کی زندگی میں ایک دو یا زیادہ خواب ایسے نظر نہ آتے ہوں جس میں زمانی و مکانی فاصلے صفر ہو جاتے ہیں لیکن اگر آدمی خواب کے علاوہ بیداری میں سفر کرنا چاہے اور دوست سے باتیں کرنا چاہے، منزل پر قیام کرنا چاہے، تو زمانی و مکانی فاصلے صفر نہیں ہوتے۔
خواب کے حواس کو اللہ تعالیٰ نے ’’لیل‘‘ کہا ہے اور دن کے حواس کو اللہ تعالیٰ نے ’’نَہار‘‘ کہا ہے۔
قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ
رات کی نَوع دن میں داخل ہو جاتی ہے اور دن کی نَوع رات میں۔
(سورۃ لقمان – 29)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ رات اور دن میں حواس مشترک ہے۔ محض فاصلے مرتے اور جیتے ہیں۔
مثلاً زید اور محمود دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چراغ جل رہا ہے، چراغ کی روشنی میں زید محمود کو اور محمود زید کو دیکھ رہا ہے۔ دونوں کے لئے روشنی دیکھنے کا ذریعہ ہے۔
روشنی کی رفتار بیک وقت دو سمتوں میں ہے۔
زید کی سمت سے روشنی محمود کی آنکھ تک پہنچتی ہے اور محمود کی سمت سے روشنی زید کی آنکھ تک پہنچتی ہے۔ یہ ایک ہی چراغ کی روشنی ہے جو محمود سے زید تک اور زید سے محمود تک سفر کر رہی ہے۔ یعنی چراغ کی ایک ہی روشنی زید سے محمود تک اور محمود سے زید تک سفر کر رہی ہے۔ سفر کی سمتیں مختلف ہیں لیکن مَخزَن ایک ہے۔
چراغ کی روشنی میں زید محمود کو دیکھ رہا ہے یعنی زید اور محمود کے دیکھنے کا ذریعہ روشنی ہے۔
یہی روشنی جب تصوّرات زید میں پیدا کرتی ہے تو زید کے تصوّرات کہلاتے ہیں۔ یہی روشنی جب تصوّرات محمود میں پیدا کرتی ہے تو محمود کے تصوّرات کہلاتے ہیں۔
اس عمل سے مَظاہر کا یہ قانون منکشف ہوتا ہے کہ:
سمتوں کی تبدیلی روشنی میں نہیں بلکہ مشاہدہ کرنے والے کے زاویۂِ نگاہ میں ہے۔ اسلئے کہ محمود اور زید ایک ہی روشنی کو دیکھ رہے ہیں لیکن دونوں کے تصوّرات الگ الگ ہیں۔ روشنی کا تصوّر زید اور محمود کے ذہن میں الگ ہے۔
محمود اور زید کے الگ الگ تصوّر سے روشنی میں ردّ و بدل واقع نہیں ہوا۔ زاویۂِ نگاہ میں فرق ہوا۔
جب ہم روشنی کو ایک روشنی مانتے ہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دیکھنے کا ذریعہ ایک مرکزی نقطہ ہے۔ جس کو مشاہدہ کرنے والے کی ذات کہتے ہیں۔
مشاہدہ کرنے والے کی ذات باری تعالیٰ سے مُتّصِل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ہم رگ جان سے زیادہ قریب ہیں۔
(سورۃ ق – 16)
یہاں یہ نقطہ غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر لفظ ’’ہم‘‘ استعمال کیا ہے۔ اسکے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کثرت میں ہر ایک فرد کی ذات کے ساتھ خود کو وابستہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کی منفرد حیثیت قائم ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ روشنی ایک ہے اور سمتیں دو ہیں۔ ایک سمت میں روشنی محمود کی طرف جا رہی ہے اور دوسری سمت میں روشنی زید کی طرف جا رہی ہے۔
• جب روشنی محمود کی طرف جا رہی ہے محمود کے تصوّرات کہلاتی ہے …. اور
• جب روشنی زید کی طرف جا رہی ہے تو زید کے تصوّرات کہلاتی ہے۔
تغیّر روشنی میں واقع نہیں ہوتا روشنی بدستور اپنی حالت پر قائم ہے۔ صرف زید اور محمود کے طرزِ بیان میں تغیّر ہے کیونکہ وہی روشنی زید میں زید کی تصویرِ حیات ہے اور محمود میں محمود کی تصویرِ حیات ہے۔
تصوف میں اس عمل کو ’’مُرتّبہ‘‘ کہتے ہیں۔
اگر ہم مُرتّبہ کا عام زبان میں ترجمہ کریں تو انگریزی کا ایک لفظ میکانزم (Mechanism) استعمال کرسکتے ہیں۔
میکانزم کی اساس ایک ہے فقط نام الگ الگ ہیں۔ یہی میکانزم یا مُرتّبہ لاشمار انواع پر مشتمل ہے۔ یہی میکانزم آدمیوں میں زید اور محمود ہے اور یہی میکانزم درختوں میں آم اور بادام ہے۔ یہی میکانزم حیوانات میں پھر بکری یا شیر ہے۔
روشنی جب انفرادی طور پر سفر کرتی ہے تو فرد کے تصوّرات کے مطابق شکلیں بناتی ہے۔ یہ میکانزم ایسے سیاہ نقطوں سے بنا ہوا ہے جو کائنات کی اصل ہے۔ یہی وہ نقطے ہیں جن میں گردش دوہری ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جہاں تکرار کا مفہوم استعمال کیا ہے وہاں یہی دوہری حرکت مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’کیا نہیں پہنچا انسان پر ایک وقت زمانے میں جو تھا شئے بغیر تکرار کیا ہوا۔‘‘
(سورۃ الانسان / سورۃ الدھر – 1)
قرآنِ پاک میں جہاں تکرار کا مفہوم بیان ہوا ہے وہاں دوہری حرکت مراد ہے۔
دوہری حرکت ہر سمت میں واقع ہوتی ہے۔ اس طرح وہ بیک وقت ہر پہنائی ہر گہرائی ہر سمت اور وقت کے کم ترین یونٹ میں جاری و ساری ہے۔
یہ دوہری حرکت صُدوری ہوتی ہے …. یعنی سیاہ نقطہ پہنائی گہرائی اور سمتوں میں پے در پے چھلانگ لگاتا رہتا ہے۔ جہاں تک اس نقطے کی چھلانگ ہے وہاں تک Spaceکی شکل و صورت بنتی رہتی ہے۔
اس سیاہ نقطے میں وہ ساری شکلیں مخفی ہیں جو مکانی شکل و صورت میں نظر آتی ہیں۔
جب یہ نقطہ چھلانگ لگاتا ہے تو مختلف مَظاہر کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔
اسی روپ کا نام کائنات ہے۔
اس نقطے میں لاشمار پردے ہیں۔ نقطے کی دوہری حرکت کے دو رخ …. رات اور دن کے حواس ہیں۔
دن کے حواس میں رات کے حواس مخفی ہیں …. لیکن
رات کے حواس میں دن کے حواس مخفی نہیں ہیں۔
ایک آدمی جو دن کے حواس میں ہے وہ دن کے حواس سے رات کے حواس نہیں دیکھ سکتا ہے۔
جو بندہ رات کے حواس میں داخل ہو گیا وہ رات کے حواس میں دن کے حواس کا مطالعہ کر سکتا ہے۔
یعنی ایسا بندہ جو رات کے حواس سے واقف ہو جاتا ہے اسکے اندر اللہ تعالیٰ اتنی سکت پیدا کر دیتے ہیں کہ جب وہ چاہے ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو جاتا ہے اور جب چاہے ٹائم اینڈ اسپیس میں قید ہو جاتا ہے۔
لیلۃ القدر – سیاہ نقطہ
زمان میں فاصلہ نہیں ہوتا اور مکان میں حد بندی ہوتی ہے۔
کائنات ایک نقطہ ہے اور یہی نقطہ مختلف حرکات میں سفر کرتا ہے۔
ان نقطوں کی ٹوٹ پھوٹ یا تکرار سے دوسرے بے شمار نقطے وُجود میں آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک میکانزم پر تخلیق کیا ہے۔ یہ میکانزم بہت سے سیاہ نقطوں سے بنا ہے۔ نقطوں کی گردش دوہری ہوتی ہے۔ یہ دوہری حرکت ہر سمت میں واقع ہوتی ہے۔
سیاہ نقطہ (زمان) پہنائی اور گہرائی کی سمتوں میں پَے در پَے متحرّک رہتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تکرار کرتا رہتا ہے۔
نقطہ کی تکرار کی وسعت اسپیس ہے۔
زمان کے دو مراتب ہیں:
• ایک مکان
• دوسرا خود زمان
مکان میں فاصلے ہوتے ہیں …. زمان میں فاصلے نہیں ہوتے۔
ایک مرتبے میں مشاہدہ کرنے والا ترتیب وار دیکھتا ہے، دیکھنے کا انداز اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ایک لمحے کے بعد دوسرے پھر تیسرے اسی طرح مزید لمحوں کے یکے بعد دیگرے گزرنے کا اِدراک کرتا ہے۔ مثلاً ہم وقت کو سیکنڈ، منٹ، گھنٹوں میں ناپتے ہیں۔ ایک منٹ سے دوسرے منٹ تک پہنچنا، پھر تیسرے منٹ میں داخل ہونا اِدراک کی تکرار ہے۔
اسی تکرار سے شُہود میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
ان گہرائیوں کو مکانی فاصلے کہا جاتا ہے۔
مثلاً دن ایک اسپیس ہے …. رات ایک اسپیس ہے …. پھول ایک اسپیس ہے …. خیال ایک اسپیس ہے …. جو کچھ ہمارے سامنے ہے سب اسپیس ہے۔ وہ چھوٹا کُرّہ ہو یا بڑا، سب اسپیس ہے۔ ایک سیکنڈ کو سنکھ حصے میں تقسیم کر دیا جائے تو ہر حصّہ ایک اسپیس ہے …. یعنی سیاہ نقطے میں ازل سے ابد تک کے تمام خدوخال تہہ در تہہ موجود ہیں اور سب خدوخال اسپیس ہیں۔
سیاہ نقطہ اپنی تکرار کرتا ہے …. ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگ لگاتا ہے …. چھلانگ لگانا معانی رکھتا ہے۔ سیاہ نقطے کی گہرائیاں اس درجہ لاتناہیت اختیار کر لیتی ہیں کہ پہلے انداز نظر کا اِدراک ممکن نہیں رہتا۔ یہ انداز نظر اپنا الگ اِدراک رکھتا ہے۔ اس انداز نظر میں جب سیکنڈ کی سنکھ در سنکھ تقسیم کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ذہن کی رفتار اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ ہم اس رفتار کو کسی اعداد و شمار میں بیان نہیں کر سکتے۔ ایک سیکنڈ کو سنکھ در سنکھ حصوں میں تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا شعور اسپیس کا تذکرہ کر رہا ہے …. لیکن انداز الگ ہے۔
جب ہم سیاہ نقطے کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ لامتناہی نظر آتا ہے کہ ہم کسی بھی طرح اس کی لامتناہیت کا تذکرہ نہیں کر سکتے۔
اسی اِدراک کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ہم نے یہ اتارا شبِ قدر میں
اور تو کیا بُوجھا! کیا ہے شبِ قدر؟
شبِ قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے
اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے ربّ کے حکم سے ہر کام پر
امان ہے! وہ رات، صبح کے نکلنے تک
(سورۃ القدر)
لیلۃ القدر ایک ایسا اِدراک ہے جو اِدراک ہمارے شعوری اِدراک کے مقابلے میں ساٹھ ہزار گنا ہے۔ یعنی لیلۃ القدر کے حواس ایک ہزار دن اور ایک ہزار رات کے حواس سے افضل ہیں۔
ایک ہزار دن اور ایک ہزار راتوں کے حواس کی رفتار سے لیلۃ القدر کے حواس کی رفتار زیادہ ہے۔
سیاہ نقطے کا اندازِ نظر دو طرح ہے:
• سیاہ نقطے کا اندازِ نظر یہ ہے کہ اس کو ہم چھوٹے سے چھوٹے ذرے میں تقسیم کرکے اس کا تذکرہ کر سکتے ہیں۔
• سیاہ نقطے کا دوسرا اندازِ نظر یہ ہے کہ ہم جب گہرائیوں میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں ایسی لاتناہیت ملتی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا
کائنات میں بیک وقت چار اِدراک کام کر رہے ہیں
اِدراک کو سمجھنے کے لئے کائنات کی گہرائی اور پہنائی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ایک طرف کائنات کو سطحی طور پر دیکھا جاتا ہے اور دوسری سطح میں کائنات کو پہنائی میں دیکھا جاتا ہے۔ کائنات کو پہنائی میں دیکھنا اور گہرائی میں محسوس کرنا یا دل کی آنکھ سے کائنات کا مشاہدہ کرنا اِدراک کی طرزیں ہیں۔ انسان کے اندر گہرائی پیدا ہو جاتی ہے تو دل کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ دل کی آنکھ سے دیکھنا اتنی وسعت رکھتا ہے کہ پوری کائنات آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔
• ظاہر میں دیکھنا پہنائی میں دیکھنا ہے …. اور
• باطن میں دیکھنا گہرائی میں دیکھنا ہے
پہنائی یا گہرائی میں دیکھنا فکر طلب ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا اور پھر عرش پر متمکن ہو گیا۔
(سورۃ الأعراف – 54)
اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔
(سورۃ ق – 16)
اللہ کا عرش پر متمکن ہونا اور رگِ جان سے قریب ہونا دونوں باتوں میں مفہوم مشترک ہے کہ:
• پہنائی میں اِدراک کرنا لاتناہیت کے بُعد میں لے جاتا ہے۔ اسی بعد کو اللہ تعالیٰ نے عرش فرمایا ہے۔
• گہرائی میں اِدراک کرنا انسانی شعور کے قریب میں پہنچتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے رگِ جان سے اقرب فرمایا ہے۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ لاتناہیت کا بعد اور لاتناہیت کا قرب یہ دونوں مقامات ایک ہی ہیں۔ صرف اِدراک کے اندازے الگ الگ ہیں۔
اِدراک ایک طرف پہنائی میں سفر کرکے عرش تک پہنچاتا ہے …. دوسری طرف گہرائی کی مسافتیں طے کرکے رگِ جان کے اقرب میں جذب ہو جاتا ہے۔
کائنات کے چار اِدراک
پہلا اِدراک تسوید اور دوسرا اِدراک تجرید ہے۔
تجرید …. نہر تسوید کا دوسرا رخ ہے۔
اسلئے کہ ہر بلندی کی ایک پستی ہے۔ اور ہر پستی کی ایک بلندی ہے۔ تسوید کا پشت رخ تجرید ہے۔
نہر تظہیر …. نہر تشہید …. یہ دونوں رخ کائنات کی ان حدود کا تذکرہ کرتے ہیں جو ماوراءِ کائنات سے جا ملتی ہیں۔
چار نہریں …. حجابِ عظمت، حجابِ کبریاء، حجابِ مَحمود اور عرش سے جاری ہوتی ہیں۔
یہ چاروں مقامات کائنات کی پستی اور بلندی …. بلندی اور پستی کا اظہار ہیں۔
ان چاروں اِدراک کو الگ الگ بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ ….
• تجرید تسوید کا دوسرا رخ ہے …. اور
• تظہیر کا دوسرا رخ تشہید ہے ….
یعنی ….
تسوید کا پست رخ تجرید ہے …. اور
تظہیر کا بلند رخ تشہید ہے۔
اللہ تعالیٰ اس مفہوم کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ:
اللہ بلندیوں اور پستیوں کا نور ہے جیسے طاق، اس میں قندیل اور قندیل کے اندر چراغ رکھا ہو۔ یہ مقدس تیل کا چراغ بغیر کسی ظاہری روشنی کے روشن ہے۔ جس کی روشنی نور اندر نور ہر سمت سے آزاد ہے۔
(حوالہ: سورۃ النّور – 35)
جب تک سیاہ نقطہ نورانی کیفیت سے معمور ہے وہ ہر سمت سے آزاد ہے۔ جب سیاہ نقطہ تکرار کے بعد نُزول کرکے روشنی کی حدوں میں داخل ہوتا ہے تو ٹائم اسپیس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو جب تلاش کرتے ہیں تو اللہ کی ہر صفَت نور در نور پردے میں ہے۔ یہ نور در نور پردے میں اللہ کی صفات ہر وقت ہر آن متحرّک ہیں۔
ان صفات کو متحرّک کرنے کا ذریعہ ایک نقطہ ہے۔
جیسے جیسے نقطے میں تحریک ہوتی ہے وہ نُزول کرتا ہے۔ اس نُزول میں دو رخ ہوتے ہیں ایک پستی کا رخ، دوسرا نُزول کا رخ، صَعود اور نُزول پستی اور بلندی۔ پستی اور بلندی اللہ کی تجلّیات کے انوار ہیں۔
یہ چار نہریں چار اِدراک ہیں اور انہی چار اِدراک کے ذریعے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
جس سیاہ نقطے کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ ہی نقطہ چاروں اِدراک کا سرچشمہ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 320 تا 327
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔