لیکچر 34
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56676
زماں غیر متَواتَر
علمُ الأَسماء
ہم جب قرآن میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ انسانی زندگی اور پوری کائنات کی زندگی عالمِ فطرت کے ساتھ قائم ہے۔
• عالمِ فطرت زمانِ متَواتَر ہے …. اور
• عالمِ غیب زمانِ غیر متَواتَر ہے ….
زمانِ حقیقی میں لمحات غیر متغیّر ہیں اور یہی غیر متغیّر لمحات ازل سے ابد کو محیط ہیں۔
غیر متغیّر لمحات کو علم کی ہستی بھی قرار دیا گیا ہے …. علم کی ہستی سے مراد یہ ہے کہ علم کوئی ایسی شئے نہیں ہے جس کی حیثیت صرف لفظ کی ہے …. بلکہ علم، بحیثیت علم ایک ہستی ہے۔ علم کی ہستی کا قیام زمانِ غیر متَواتَر میں ہے۔ علم کی ہستی دوسری ہستیوں کی طرح اِدراک بھی رکھتی ہے۔ ہم جب زمانِ متَواتَر یا زمانِ غیر متَواتَر کا تذکرہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ علم کی ہستی نے ہمیں متغیّر اور غیر متغیّر لمحات کا علم عطا کیا ہے۔
لمحۂِ حقیقی میں بتایا گیا ہے کہ لمحہ غیر متغیّر ہے …. اِسی غیر متغیّر لمحے کے اَوصاف معلوم کرنے میں علم کی ہستی کوشاں رہتی ہے۔ علم کی ہستی کی یہ کوشش لاتناہیت سے تناہیت کی طرف سفر ہے۔ لاتناہیت کا جو لمحہ تناہیت کی طرف سفر کرتا ہے وہ نورِ مرکّب کا لمحہ ہے۔ یہ لمحہ کس طرح سفر کرتا ہے …. ؟ اور دورانِ سفر کیا کیا واردات و کیفیات ہوتی ہیں ….؟ سفر کرنے میں ٹائم اسپیس کا کیا عمل دخل ہے …. ؟ انسانی شعور کسی طرح بھی اسے معلوم نہیں کر سکتا …. اسلئے کہ شعور کا آغاز ہی تناہیت سے ہوتا ہے۔
انسانی شعور کا آغاز تناہیت سے ہونے کا مطلب ہے کہ ہر لمحہ جب سفر کرتا ہے تو اسکے ساتھ ہی دوسرا لمحہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک لمحے سے دوسرے لمحے کی طرف سفر کرنا ہماری دنیا کا وقت ہے۔ یہ وقت نَسمہ مُفرِد سے شروع ہوتا ہے اور نَسمہ مرکّب پر ختم ہو جاتا ہے۔ جب انسانی شعور وہم، خیال اور تصوّر کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کا رخ نَسمہ مُفرِد کی طرف ہوتا ہے اور جب وہم، خیال، تصوّر سے نکل کر ہم محسوسات کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو شعور نَسمہ مرکّب سے متعارف ہوتا ہے۔
اب ہم یوں کہیں گے کہ ….
• شعور کے تغیّر سے واقف ہونے کا عمل ہی شعور ہے …. یعنی شعور کی ہستی اس لمحہ کے اندر بند ہوتی ہے جس لمحے کے اندر ہر آن تغیّر ہے۔ قرآنِ پاک میں اس تغیّر کا نام آفاق ہے۔
• غیر متغیّر لمحے کا نام زمانِ غیر متَواتَر ہے قرآنِ پاک زمانِ غیر متَواتَر کو انفس کہتا ہے۔
(حوالہ: سورۃ فصّلت – 53)
ہم جب نور کے لمحے کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل انسان کی روح کا تذکرہ کرتے ہیں اور جب ہم نَسمہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو انسانی ذہن کا تذکرہ کرتے ہیں۔
زید ایک فرد ہے ….
اگر سوال کیا جائے کہ زید کون ہے؟ تو یہ کہا جائے گا زید فلاں کا بیٹا ہے۔ عقل مند ہے۔ بردبار ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی زید جن صفات کا مجموعہ ہے۔ یہ صفات زید کے اوصاف ہیں۔ ہم جب زید کا تذکرہ کرتے ہیں تو گوشت پوست اور ہڈیوں کے پنجرہ پر عمارت کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ زید کو اسکے اعمال کی مناسبت سے جانتے ہیں۔ جب کہ زید کی صفات ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ لیکن زید کا جسمانی نظام ہمارے سامنے ہے۔ اب اگر ہم زید کی زندگی کا تجزیہ کریں تو یہ کہیں گے کہ زید اُن صفات کی فلم ہے جن صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ زید کی صفات اس کی فلم ہے۔ اس فلم کا نام ورائے شعور یعنی لاشعور اور نورِ مرکّب ہے۔
زید کی ہستی کو اس مثال سے سمجھئے۔
زید کو سورج کا خیال آیا۔ یعنی زید کے ذہن نے غیر شعوری طور پر سورج کے نظام کا احاطہ کر لیا۔ گویا زید کے لاشعور کے بالمقابل سورج کا مکمل نظام ایک تصویری شکل میں موجود ہو گیا۔ اس تصویری فلم میں سورج کے نظام کی تفصیلات زمانِ غیر متَواتَر کا ایک لمحہ ہے۔
اب قانون یہ بنا کہ اگر لمحہ کی تفصیلات یا زید سے متعلق اسکے اوصاف کی فلم اور فلم کے اندر آثار و احوال کو لپیٹ دیا جائے تو یہ سب زید کی زندگی کا ایک لمحہ بنا۔ یہ لمحہ زمانِ غیر متَواتَر کا لمحہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق کائنات میں ہر کوئی شئے ایک رخ پر تخلیق نہیں ہوئی۔ کائنات میں موجود ہر شئے دو رخوں سے مرکب ہے۔ اسی طرح لمحہ کے بھی دو رخ یا دو سطحیں ہیں۔
لمحہ کی ایک سطح حواس کے بالمقابل واقع ہے جس کو عالمِ فطرت کہتے ہیں۔ ایسے بے شمار لمحات کا مجموعی نام زید ہے۔ یہ وہی زید ہے جس کو حواس دیکھتے چھوتے اور جانتے ہیں۔ زید بے شمار لمحات کی لپٹی ہوئی سربستہ فلم ہے۔ بہ الفاظ دیگر زید زمانِ متَواتَر کی حیات کا ایک عنوان ہے۔ اسی زمانِ متَواتَر کے عنوان کی تفصیل زمانِ غیر متَواتَر کا وہ یونٹ ہے جو زید کی ماہیت ہے۔
ماہیت سے مراد ایسا نور یا ایسی روشنی ہے جو یونٹ کے اجزاء کی تصویری فلم ہے۔ اس تصویری فلم میں کسی یونٹ کا ہر وہم، ہر خیال، ہر احساس ریکارڈ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
آپ کیا سمجھے علیین (اعلیٰ زندگی) کیا ہے؟ (19)
یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (20)
(سورۃ المطفّفین)
انسان کی زندگی میں دو رخ برسرِ عمل ہیں۔
ایک رخ …. زندگی کا اعلیٰ رخ ہے …. اور دوسرا رخ زندگی کا اسفل رخ ہے۔
• زمانِ متَواتَر کا لمحہ جسم ہے …. اور
• زمانِ غیر متَواتَر کا لمحہ اس جسم کے احساسات کے شواہد کی تفصیلی فلم ہے۔ زمانِ غیر متَواتَر کا لمحہ ہر وقت ہماری روح کے بالمقابل رہتا ہے لیکن ہمارا ذہن اس طرف نہیں جاتا یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے لئے غیب ہے۔
قانون یہ ہے کہ ….
جب ہم کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو غیر متَواتَر لمحہ درمیانی فاصلے کو ہماری لاعلمی میں اس طرح ناپ لیتا ہے کہ شئے کی روشنی ذہن سے ہَوا بھر الگ رہتی ہے اور نہ ذہن کی سطح میں داخل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شئے کو دیکھ سکتے ہیں۔
ذہن شئے سے ہوا بھر الگ رہے یا ہوا پھر شئے میں داخل ہو جائے تو ہم شئے کو نہیں دیکھ سکتے۔
شئے کی روشنی نہ تو ذہن سے ہوا بھر الگ رہی اور نہ ذہن میں داخل ہوئی۔
اگر شئے کی روشنی ذہن میں داخل ہو جائے تو غیر متَواتَر زمانِ …. غیر متَواتَر نہیں رہے گا اور اگر شئے کی روشنی ہوا بھر شئے کے اندر داخل ہو جائے تو زمانِ متَواتَر …. متَواتَر نہیں رہے گا …. اور شئے کا وُجود زیرِ بحث نہیں آئے گا۔
اس کی مثال خواب دیکھنا ہے۔ خواب دیکھنے والا دس سال بعد کے واقعات اچانک دیکھنے لگتا ہے۔ حالانکہ دس سال کے درمیانی وقفے اسکے سامنے سے نہیں گزرے جب کہ زمانِ متَواتَر میں دس سال بعد کے واقعات کو دیکھنے کے لئے ہمیں دس سال کے وقفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
زمانِ غیر متَواتَر میں کائناتی حوادث کو ناپنے کے لئے تمام پیمانے موجود ہیں جس میں ماضی حال کو بغیر ترتیب کے ناپا جاتا ہے۔ رُؤیا یا خیال میں ہم ایسے زمانے کو واپس لا سکتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے گزر چکا ہے۔
جب ہم ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو کو پچیس سال پہلے دیکھا تھا تو ہمیں گذشتہ پچیس سال کے واقعات یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہم اس شخص کو دیکھنے کے بعد پچیس سال کی لپٹی ہوئی فلم کو محسوس کر لیتے ہیں۔ پچیس سال کا وقفہ زمانہ غیر متَواتَر میں ریکارڈ ہے۔ جب غیر متَواتَر کا ریکارڈ متحرّک ہوا تو ہمارے ذہن نے اس کی پچیس سالہ شخصیت کو واپس لانے کے تمام وقفوں کو حذف کر دیا۔ باالفاظ دیگر ہمارا ذہن غیر متَواتَر کے اس دائرے میں دیکھنے کے قابل ہو گیا جس دائرے میں مذکورہ انسانی شخصیت محفوظ ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ تمثیلی انداز میں فرماتے ہیں۔
ہم جب زینے سے اترتے ہیں تو زینے کی سیڑھیوں کا ناپ جو پہلے سے زمانِ غیر متَواتَر میں ریکارڈ ہے ہمارے قدموں کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اسلئے زینہ اترنے میں شعوری طور پر سوچنا نہیں پڑتا کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قدم ڈگمگا جاتا ہے تو ہم گر پڑتے ہیں۔ یہ اسلئے ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے ہمارا ذہن غیر متَواتَر سے ہٹ جاتا ہے۔ وہ رہنمائی جو غیر متَواتَر کر رہا ہے، زمانِ متَواتَر کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے جس کے سبب قدم غلطی کر جاتے ہیں اور آدمی گر جاتا ہے۔ زینے کا ناپ زمانِ متَواتَر میں ریکارڈ نہیں ہوتا۔ غیر متَواتَر میں ریکارڈ ہے۔
کائناتی فکر
ابدال حق، مُمثّلِ کائنات، حضور قلندر بابا اولیاءؒ اپنی کتاب لوح و قلم میں فرماتے ہیں:
فکر انسانی کی تین طرزیں ہیں۔ فکر انسانی کی پہلی طرز یہ ہے کہ وہ نوعِ انسانی کی حیثیت سے انفرادی طور پر انسان کے اندر پیدا ہونے والے تقاضوں کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے۔ جب نوعِ انسانی کا کوئی فرد صحیح طرزوں میں تقاضوں کو استعمال کرتا ہے تو اس کی ہر طرز نوعِ انسانی کے لئے اِخلاص کا جذبہ ہوتی ہے جب کسی فرد کے اندر نوعِ انسانی کے لئے خلوص کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے تو وہ ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی فکر انفرادی تقاضوں سے ہٹ کر پوری نَوعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے لگتی ہے اور نوعِ انسانی کا فرد انفرادی حیثیت سے نکل کر اجتماعی حیثیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی سوچ اور اسکے اندر پیدا ہونے والے تقاضے صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری نَوع کو محیط ہو جاتے ہیں۔ انفرادی سوچ نَوعی سوچ بن جاتی ہے۔ جب کسی فرد کے اندر نوعِ انسانی کے مجموعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت بیدار ہو جاتی ہے تو فکر ایسی وسعتوں میں داخل ہو جاتی ہے جہاں نَوعی تقاضوں سے گزر کر کائنات کے مجموعی تقاضے اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔
• پہلی فکر ۔۔۔۔۔۔انفرادی سوچ یا انفرادی طرزِ فکر
• دوسری فکر۔۔۔۔۔۔نوعی سوچ یا نَوعی طرزِ فکر
• تیسری فکر۔۔۔۔۔۔کائناتی سوچ یا کائناتی طرزِ فکر
جب فرد کی سوچ انفرادی سوچ نہیں رہتی تو فرد پر کائنات کے رُموز آشکار ہو جاتے ہیں۔ تین طرزِ فکر سے گزرنے کے بعد چوتھی طرزِ فکر میں داخل ہونے والا بندہ معرفت الٰہی حاصل کر لیتا ہے۔
لوحِ محفوظ کے قانون کی رو سے ہم بیک آن لمحہ کے کروڑویں حصّے میں صرف ایک چیز کا اِدراک کرتے ہیں۔ یہ اِدراک اس وقت کرتے ہیں جب تمام اشیاء کی نفی کر دیں۔ ہمارے ذہن کی صرف ایک سمت متعین ہے۔ اسی سمت میں تقاضے پرواز کرتے رہتے ہیں۔ بظاہر ہم آگے پیچھے اوپر نیچے دیکھتے ہیں لیکن آگے پیچھے دیکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہمارا ذہن ایک سمت میں مرکوز نہ ہو جائے۔
ہم چھ سمتوں میں سفر کرتے ہیں یا چھ سمتوں سے واقف ہیں۔ اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے لیکن روحانی نقطۂِ نظر سے چھ سمتیں محض قیاس کی پیداوار ہیں۔ فی الحقیقت سمت وہی ہے جس سمت میں ذہنی تقاضے سفر کر رہے ہیں۔ اس ہی سمت کا نام زمانِ متَواتَر ہے۔
سمجھا یہ جاتا ہے کہ زمانہ گزرتا رہتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے زمانہ ریکارڈ ہوتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کو ہر آدمی آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ مثلاً آج ہر فرد تیس سال کا ہے وہ بچپن سے تیس سال تک سفر کرتا رہا ہے اور کسی سمت میں سفر کرتا رہا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ زمانہ گزرتا رہتا ہے تو کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بچپن کے حالات اور جوانی کے اعمال ہمارے ذہن سے حذف ہو گئے ہیں۔ گزرنے والی چیز حذف نہیں ہوئی ریکارڈ ہو رہی ہے۔ قرآن نے اس کو کتابُ المَرقُوم قرار دیا ہے۔
(حوالہ: سورۃ المطفّفین – 20)
سائنسی زبان میں ویڈیو فلم کہہ سکتے ہیں۔ یہی كِتَابٌ مَّرْقُوم (ریکارڈ) علمُ الأسماء ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آدم کو علمُ الأَسماء سکھایا تو جو کچھ اللہ نے سکھایا وہ ریکارڈ ہو گیا۔ وہی ریکارڈ آدم سے آدم کی نسل کو منتقل ہو رہا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا یہ اعجاز ہے کہ وہ ایک بات مختلف پیراؤں میں بیان فرماتے ہیں تا کہ بات ذہن نشین ہو جائے۔
ہم نے بتایا تھا کہ انسانی زندگی یا اِدراک سے بننے والے تمام حواس کا تعلق اطلاع پر قائم ہے۔ اطلاع میں معنویت کا اختیار دیا گیا ہے۔ اطلاع میں معانی پہنانے سے پہلے اِدراک کرتے ہیں وہ اِدراک مَرئی یا غیر مَرئی صورت میں محفوظ ہے۔
کائنات ایک نقطہ ہے۔ جسے اپنے ذہن میں فرض کرنا پڑتا ہے۔ یہی کائنات کی موجودگی کا راز ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
کائنات ایک نقطہ ہے جسے اپنے ذہن میں فرض کرنا پڑتا ہے۔ یہی کائنات کی موجودگی کا راز ہے۔
ریاضی دانوں کی اِصطلاح میں نقطہ نہ لمبائی رکھتا ہے اور نہ چوڑائی رکھتا ہے اور نہ گہرائی رکھتا ہے۔ وہ صرف شعور کی تخلیق ہے۔ یہی نقطہ شعور سے مسافرت کرکے اِدراک بالحواس بنتا ہے۔ اسکے اِدراک بالحواس بننے کا طریقہ بہت سادہ ہے۔
نقطہ شعور کو قائم رکھتا ہے اور اپنی یاددہانی میں مصروف رہتا ہے یعنی شعور جس ریکارڈ پر قائم ہے۔ اس ریکارڈ کو دہراتا رہتا ہے۔ آج کا بچہ جب بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے تو یہ عمل ریکارڈ کو دہرانا ہے۔ اگر شعور اپنے ریکارڈ کو نہ دہرائے اور یاد دہانی میں مصروف نہ رہے تو بچہ جوانی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جوانی دراصل …. بچپن سے جوانی تک شعوری ریکارڈ کی یاددہانی ہے۔
شعور دعویٰ کرتا ہے کہ میں یہ ہوں، میں وہ ہوں، میں چاند کو دیکھ رہا ہوں۔ میں سورج کو دیکھ رہا ہوں، میں ستاروں کو دیکھ رہا ہوں، میرے ہاتھ میں کتاب ہے۔ یہ سب ریکارڈ کا دوہرانا ہے۔
بچپن میں جب ہوش و حواس کا دَور شروع ہوتا ہے تو بچہ چاند سورج سے واقف ہوتا ہے۔ شعوری طور پر اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ قلم ہے، یہ کتاب ہے، یہ سب ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ یہی ریکارڈ ہر آدمی بڑھاپے سے موت تک استعمال کرتا رہتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ بچہ کسی کتاب کو درخت کہے یا درخت کو کتاب۔ جو کچھ شعور میں ریکارڈ ہو گیا وہی حواس ہیں، وہی شعور ہے۔
شعور اپنے ریکارڈ کو یا ریکارڈ میں موجود نقوش کو یا ریکارڈ میں موجود تصویروں کو مختلف طریقوں میں استعمال کرتا ہے۔ ان میں ایک طریقہ جو تمام نَوعوں میں مشترک ہے نگاہ ہے۔ یعنی شعور اپنے اندر ریکارڈ کو نگاہ کے ذریعے دیکھتا اور دہراتا ہے۔
نگاہ ہمارے اندر کام کرتی ہے وہ دو مرکزوں یا سطحوں کو دیکھتی ہے ….
• نگاہ کی ایک مرکزیت میں دیکھنا شعور …. اور
• دوسری مرکزیت میں دیکھنا غیب ہے۔
نگاہ کا دیکھنا شعور میں ہو یا غیب میں ہو، نگاہ کا دیکھنا انفرادی ہو یا اجتماعی ہو، درحقیقت دونوں سطحوں میں ایک ہی نگاہ کام کر رہی ہے۔
مشاہدہ ہے کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے بادام کا ایک درخت ہو تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بادام کا درخت ہے پھر ہم نوعِ انسانی کے دوسرے فرد سے پوچھتے ہیں تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ ایک آدمی کے علاوہ ہم ہزاروں افراد سے یہی سوال کرتے ہیں تو ہر آدمی یہی کہتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ دیکھنے والی نگاہ ایک ہے۔ اگر نگاہیں دو ہوتیں تو ہر نگاہ کا زاویہ مختلف ہوتا ہے۔ جب ہم دو کہتے ہیں تو دراصل ایک سے دو ہونا مختلف ہے۔ ایک نگاہ کچھ دیکھتی ہے دوسری نگاہ کچھ اور دیکھتی ہے۔ اسلئے یہ ماننا پڑے گا کہ شعور کی ایک سطح اجتماعی ہے یہی مشترک سطح اِدراک بالحواس ہے۔
مولانا رومؒ نے کہا ہے:
’’آدمی دِید اَست، باقی پوست اَست‘‘
یعنی آدمی نگاہ ہے، باقی گوشت پوست ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی دراصل نگاہ ہے۔ باقی ہر چیز فانی ہے۔
’’دِید آں باشَد کہ دیدِ دوست اَست‘‘
نگاہ یہ ہے کہ وہ دوست کا مشاہدہ کرتی ہے۔
دوست کے مشاہدے سے مراد کائنات کی مشترک سطح ہے اور سنبھالنے والی ہستی اللہ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 290 تا 298
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔