لیکچر 33
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56671
حواس کی تقسیم
فرشتے، جنات، انسان، اَجرامِ فلَکی، کہکشانی نظام اور دوسری تمام نَوعوں کی ابتداء اور انتہا شعور کے ردّ و بدل پر قائم ہے۔
ہم ابتداء کو پیدائش کا مرحلہ کہتے ہیں تو انتہا کو موت کا مرحلہ کہیں گے۔ لیکن جب موت کے مرحلے پر تفکر کرتے ہیں تو موت کا مرحلہ بھی حیات کا ایک قدم ہے …. ایسی حیات کا قدم جس قدم کے بعد دوسرا قدم بھی حیات ہے۔
کائنات جن حواس اور جن شعوروں میں حیات کے مراحل طے کر رہی ہے وہ مختلف کیفیات ہیں۔ یعنی ….
مختلف کیفیات کے ردّ و بدل کا نام کائنات ہے ….
ہم شعوری اعتبار سے اتنے کمزور ہیں کہ کسی چیز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو محدودیت ہمارے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔ اگر ہم نظر کے سامنے بہت باریک کاغذ رکھ دیں تو شعور کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح جب ہم اس محدود کیفیت سے نکل کر لامحدود کیفیت میں داخل ہوتے ہیں تو شعور میں توانائی داخل ہو جاتی ہے۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ فرد کا شعور، نَوع کا شعور، کائنات کا شعور اور ماوراءِ کائنات کا شعور ہی زندگی کے مراحل کا تعین کرتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ شعور ایک ہی ہے اور یہ ایک ہی شعور کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ دَور کر رہا ہے۔ جیسے جیسے شعور میں حرکت ہو رہی ہے اسی مناسبت سے شعور میں درجہ بندی ہو رہی ہے۔
اللہ کی تمام صفات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسلئے کہ اللہ کی صفات لامتناہی ہیں۔ البتہ اللہ کی اُن صفات کا علم ہمیں حاصل ہے جن صفات کو اللہ نے علمِ الٰہیہ کہا ہے۔ یہ صفات وہ لمحہ ہیں جس لمحہ کے اندر اللہ کا ارادہ جاری ہے۔ اس بات کو مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ہی زمانِ مسلسل ہے یعنی اللہ کا ارادہ زمان ہے …. اللہ کے ارادے کے تحت اللہ کے ارادے میں خدوخال بننا مکانیت ہے۔
انبیاءِ کرام کی تعلیمات کی روشنی میں اس ذات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے جس ذات کے امر سے کائنات وُجود میں آئی ہے۔ جب تک ذاتِ مَطلَق کو نہیں سمجھا جائے گا، ذاتِ مَطلَق کے امر یا حکم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر معترض ہیں کہ امر کو سمجھنا یا ذاتَ مَطلَق کے ارادے کو سمجھنا کس طرح ممکن ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
کوئی آنکھ اللہ کا اِدراک نہیں کر سکتی۔ اللہ آنکھ کا اِدراک بن جاتا ہے۔
(حوالہ: سورۃ الأنعام – 103)
جب تک انسان اپنی کُنہ سے واقف نہیں ہوتا اس کا ذہن ذاتِ مَطلَق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ جب انسان خود سے واقف ہو جاتا ہے تو اپنے اندر اللہ کے امر سے واقف ہو جاتا ہے۔ جب تک انسان امر کو نہیں جانتا اپنی ذات سے واقف نہیں ہوتا۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر روشنی دیکھ کر سوال کیا۔
کون؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
میں ہوں تیرا رب۔
(حوالہ: سورۃ طٰہٰ – 12)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی اللہ کا امر ہے اور خود اللہ ذاتِ مَطلَق۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو روشنی دیکھی وہ روشنی امرِ ربّ (ذاتِ مَطلَق) تھی۔ اس واقعے سے ذاتِ مَطلَق اور امر کی حدود کا تعین ہو جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کا امر ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے امر کو روشنی میں مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ سوال کیا کہ کون! یعنی امر نے اس بات کی احتیاج محسوس کی کہ وہ ذاتِ مَطلَق کو پہچانے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روشنی دیکھ کر یہ نہیں جان لیا کہ یہ میرا ربّ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی احتیاج ہوئی کہ روشنی امر سے اپنا تعارف کرائے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
بعض لوگوں نے اپنے پیرایۂِ بیان میں ذاتِ مَطلَق کو حقیقتِ مَطلَقہ کہا ہے اور امر کو کائنات کہا ہے۔ یہ پیرایۂِ بیان حُکماءِ ربّانی کا ہے۔ حُکماءِ ربّانی سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اندر تفکر اور تلاش ہے اور جو لوگ اپنے شعور کی سطح سے نکل کر لاشعور میں داخل ہونے کے بعد کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ حُکماءِ ربّانی کے زمرے میں شامل ہیں۔ حُکماءِ ربّانی کے برعکس انبیاءِ کرام کی الگ طرز ہے۔ حکماء اور انبیاء میں بہت بڑا فرق ہے۔
• انبیاء علمِ حُضوری سے حقیقتِ مَطلَقہ کو تلاش کرتے ہیں …. اور
• حُکماءِ ربّانی مَظاہر سے کُنہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ یہ عمل قانونِ فطرت کے مطابق نہیں ہے۔
انبیاء باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ جب کہ حکماء اور دانشور ظاہر سے باطن کو تلاش کرتے ہیں۔ دونوں طرزیں اپنی جگہ صحیح ہیں اور صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ظاہری علماء چونکہ باطن سے بے خبر ہیں اسلئے وہ ظاہر کو سامنے رکھ کر ظاہر کی کُنہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب ان کے اوپر مخفی چیزوں کا انکشاف نہیں ہوتا تو وہ مخفی چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرزِ فکر سے کائنات کی ساخت میں بہت سارے حقائق سامنے نہیں آتے جب کہ انبیاء کی تلاش اس نقص سے پاک ہے۔ وہ کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس ہستی کا اِدراک کر لیتے ہیں جس ہستی نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔
جب ہم حواس میں تفکر کرتے ہیں تو ایک ہی نتیجہ مُرتّب ہوتا ہے کہ ایک ذات ہے اس ذات کے حکم سے حواس وُجود میں آئے۔ خدوخال کے ساتھ مَوجودات کا مُظاہرہ مُنقسِم حواس ہیں …. یعنی امرِ مَطلَق مُنقسِم حواس ہیں۔ مُنقسِم حواس ہی خود کو ازل سے ابد تک کا روپ دے کر کائنات کی شکل وصورت میں پیش کرتے ہیں۔
اللہ نے جب حکم دیا تو کائنات وُجود میں آ گئی۔ یعنی اللہ کے امر نے کائناتی خدوخال اختیار کرکے خود کا مُظاہرہ کر دیا اور یہ مُظاہرہ ہی مُنقسِم حواس ہیں۔ مُنقسِم حواس میں شکل وصورت کا ہونا ضروری ہے۔
شکل و صورت کی دو طرزیں ہیں۔
• ایک طر ز مادّی ہے ….
• دوسری طرز نورانی ہے
مادّی شکل وصورت سے روح کا سراغ نہیں ملتا۔ اسلئے کہ مادّہ کثیف ہے اور روح انہتائی درجے لطیف ہے۔ روح ہے تو مادّہ ہے، روح نہیں ہے تو مادّہ نہیں ہے۔
مشاہداتی دنیا پر ہر لمحہ فنا ہے اور روح کے اوپر فنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادّی شکل و صورت سے روح کی تلاش ممکن نہیں لیکن روح سے مادّی شکل وصورت کی کُنہ تک پہنچ جانا یقینی امر ہے۔
نفس سے مراد وہ روح ہے جس روح کے اوپر مادّیت کا قیام ہے۔
جب تک روح مادّیت کو سنبھالے رہتی ہے مادّیت قائم رہتی ہے اور جب روح مادّی وُجود سے دستبردار ہوجاتی ہے تو مادّیت فنا ہو جاتی ہے۔ اس تشریح سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو مادّیت کو اوّلیت دیتے ہیں۔
جب ہم مَظاہر کو مادّیت کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مَظاہر کو ہی حیات کہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مَظاہراتی خدوخال ہر لمحہ فنا ہو رہے ہیں۔ جب ہم مَظاہر کو اوّلیت دیتے ہیں اور مَظاہر کو وسعتِ حیات قرار دیتے ہیں تو ماضی کا انکار کرتے ہیں۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ساری کائنات ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آج کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرتا کہ اس کی پیدائش ماضی میں چلی جاتی ہے۔ کائنات میں حال، مستقبل کا کوئی درجہ نہیں ہے اسلئے بچہ جس آن پیدا ہوتا ہے دوسرے لمحے اس کی زندگی ماضی بن جاتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد گرامی ہے۔
’’جو کچھ ہونے والا ہے قلم لکھ کر خشک ہو گیا۔‘‘
اس حدیث سے ماضٰ کے علاوہ زمانے کا کوئی اور اسلوب معلوم نہیں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حال اور مستقبل دونوں ماضی کے اجزاء ہیں۔
عالمِ فطرت
کائنات ماضی میں ہونے والے ظہورات کا عکس ہے۔ ماضی کی حرکات کو سمجھنے کے لئے ہمیں مُنقسِم اور غیر مُنقسِم حواس میں تفکر کرنا چاہئے۔
شکل وصورت مُنقسِم حواس ہیں اور تَمثّل غیر مُنقسِم حواس سے ہیں۔
مُنقسِم حواس سے غیر مُنقسِم کو پا جانا ممکن نہیں …. لیکن غیر مُنقسِم حواس سے مُنقسِم حواس کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔
دنیاوی علوم کو اگر ہم اوّلیت دیتے ہیں اور مَظاہر کو وسعتِ حیات قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب بجز اسکے کچھ نہیں ہے کہ ہم ماضی اور مستقبل دونوں کا انکار رہے ہیں۔ جب کہ ماضی اور مستقبل کے ساتھ ساتھ حال کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔
ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے وہی حال اور مستقبل میں ڈسپلے ہو رہا ہے۔ خدا کا امر یہ ہے۔ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے، کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ کے ذہن میں کائناتی پروگرام جس ترتیب کے ساتھ تھا …. اللہ نے ’’کُن‘‘ کہا اور پروگرام وُجود میں آ گیا۔
اللہ کا ارادہ لامتناہی نور ہے۔ لامتناہی نور سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے ارادے میں کائنات موجود ہے۔ کائنات کی ماہیت اور کائنات کے اندر نَوعیں اور نَوعی افراد پر اللہ کی حکمرانی قائم ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں ہونے کا وہ ہو جاتی ہے۔
(حوالہ: سورۃ یٰسٓ – 82)
اس بات کی تشریح یہ ہے کہ امر الٰہی کے تین حصے ہیں۔
۱۔ ارادہ
۲۔ جو کچھ ارادے میں ہے یعنی شئے
۳۔ ارادے میں جو شئے ہے اس کا ظہور
ارادے کے اندر شئے کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو اللہ چاہتے ہیں وہ پہلے سے ان کے علم میں موجود ہے۔ چونکہ امرِ الٰہی کے متحرّک ہونے سے پہلے کائنات کی اشیاء اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود ہیں اور ’’کُن‘‘ کے بعد انہی اشیاء کا ظہور ہوا ہے۔ اسلئے جو کچھ موجود ہے سب ماضی ہے۔
ماضی کیا ہے؟ اور اس کی مقداریں کیا ہیں؟
ہمارے پاس ان مقداروں کو سمجھنے کی بہت سی طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ سائنسدان روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ بتاتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایک سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل کے برابر ہے تو ہمیں مجبوراً ماننا پڑے گا کہ کائنات کے ایک لمحہ کی رفتار روشنی کی رفتار ہے۔
زمانِ متَواتَر کا اِدراک دراصل حواس کی تقسیم ہے۔ کائنات کے اندر جو کچھ ہے ہم اس کو زمانِ متَواتَر کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ کائنات لمحات میں بند ہے۔ ایک لمحہ ہو یا دوسرا لمحہ ہو دونوں لمحات اس بات کے پابند ہیں کہ وہ لمحے کے اندر موجود رہیں۔
کائنات میں کسی بھی وقت ٹھہراؤ نہیں ہے۔ کائنات کا ہر لمحہ متحرّک ہے۔ یعنی کائنات کا لمحہ ایک تغیّر ہے۔ دوسرا لمحہ دوسرا تغیّر ہے۔ تیسرا لمحہ تیسرا تغیّر ہے اور چوتھا لمحہ چوتھا تغیّر ہے۔ چونکہ کائنات ہر لمحہ تغیّر ہے اسلئے ہر لمحہ الگ الگ ہے اور ہر لمحہ کے افعال و حوادث الگ الگ ہیں۔ جب ہر لمحہ کے حوادث و افعال الگ الگ ہیں تواس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر لمحہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ ہر لمحہ کے بعد فاصلہ زمانے کی جداگانہ وحدتیں ہیں۔
زمانِ متَواتَر معلوم واردات اور زمانِ غیر متَواتَر نامعلوم واردات ہے۔
زمانِ متَواتَر کی وحدتیں ایسی واردات کا مجموعہ ہیں جن سے شعور واقف ہے زمانِ غیر متَواتَر کی وحدتیں ایسی واردات کا مجموعہ ہے جن سے شعور واقف نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میں نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونکی۔
(حوالہ: سورۃ الحِجر – 29)
پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میں نے آدم کو علم الاشیاء عطا کیا۔
(حوالہ: سورۃ البقرۃ – 31)
اللہ نے آدم کو خلاء سے بنایا۔ اس خلاء میں اللہ نے روح پھونکی روح پھونکنے کے بعد آدم کو علم شئے عطا کیا۔
آدم دو ایجنسیوں سے مرکب ہے۔
• ایک روح ….
• دوسرا علم شئے
علم اشیاء حاصل ہونے کے بعد اشیاء کا علم حاصل ہوا۔
علمِ اشیاء عالمِ فطرت ہے۔ عالمِ فطرت، عالمِ شہادت (زمانِ متَواتَر) ہے۔ روح کے بالمقابل زمانِ غیر متَواتَر عالمِ غیب ہے۔
Euqation
روح الٰہی …. علمِ اشیاء …. عالمِ فطرت (زمانِ متَواتَر) = عالمِ شہادت
روح الٰہی …. روح کے اندر علمِ اشیاء (تکوینِ کائنات) = آدم
روح + علمِ اشیاء = آدم
• آدم خلاء ہے
• خلا میں روح ہے
• روح میں علمِ اشیاء ہے
• علمِ اشیاء عالمِ فطرت ہے
• عالمِ فطرت زمانِ متَواتَر ہے
• زمانِ متَواتَر … زمانِ غیر متَواتَر پر قائم ہے۔
• زمانِ غیر متَواتَر عالمِ غیب ہے۔
غیبُ الغیب
زمانِ حقیقی، زمانِ متَواتَر اور زمانِ غیر متَواتَر تین زمانے ہیں۔
زمانِ متَواتَر وہ زمانہ ہے جس میں ہم عالمِ ناسوت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس زمانے میں حواس ہر آن ہر لمحہ تقسیم ہو رہے ہیں۔ نظر آنے والی کائنات کے تمام افعال و حوادث کو ہم زمانِ متَواتَر کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔
زندگی کا کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں ہے جو قائم ہو۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ متغیّر ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ …. ہم قدم اٹھانے کے بعد دوسرا قدم اٹھاتے ہیں تو پہلا قدم متغیّر ہو جاتا ہے، تب دوسرا قدم اٹھتا ہے تو تیسرا قدم متغیّر ہو جاتا ہے …. یعنی زندگی کا کوئی لمحہ اس وقت تک لمحہ نہیں ہے جب تک اس میں تغیّر نہ ہو۔ ہر لمحہ کی واردات اور زندگی کے حوادث جدا جدا ہیں اور ہر حادثہ (کیفیت) کے درمیان ایک فاصلہ ہے۔ ہم جب ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھاتے ہیں تو ایک قدم کا دوسرے قدم میں جانا ایک تغیّر ہے اور ایک قدم کے بعد دوسرا قدم فاصلہ ہے۔
عالمِ غیب کو جاننے کے لئے روح کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ …. عالمِ غیب کا اِنشَراح روح میں ہوتا ہے۔
روح سے مراد لاشعور ہے۔ اگر ہم عالمِ غیب کو جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ شعور کی دنیا سے نکل کر لاشعور کی دنیا میں داخل ہوں کیونکہ شعوری دنیا کے حواس میں غیب سے آشنا ہونا ممکن نہیں ہے۔
زمانِ غیر متَواتَر Non Serial Time ہے۔
زمانِ حقیقی عالمِ الٰہی ہے جس کو غیبُ الغیب کہتے ہیں۔
زمانِ غیر متَواتَر فرشتوں کی دنیا ہے جس کو اِصطلاح میں غیب کہا گیا ہے۔
شعوری دنیا (زمانِ متَواتَر) سے نکل کر بندہ جب لاشعوری دنیا میں داخل ہو جاتا ہے تو اُس پر غیب منکشف ہو جاتا ہے اور فرشتوں کی دنیا سامنے آ جاتی ہے۔ جس طرح آدمی شعوری دنیا میں رہ کر شعوری دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح سالک لاشعور میں داخل ہو کر فرشتوں کو دیکھتا ہے۔
شعور کے بالمقابل دو ایجنسیاں یہں۔
• ایک غیبُ الغیب …. اور
• دوسری غیب
عالمِ غیب کے لمحات سے ہمارا شعور ناواقف ہے لیکن روح آگاہ رہتی ہے۔
غیبُ الغیب زمانِ حقیقی ہے۔ اس لاتناہیت کے مقابل تناہیت ہے۔ ہر تناہیت کی ماہیت کو علم کہا جاتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو لاتناہیت کے اندر تجسّس کرتا ہے۔
علم ایک ایسی ہستی ہے جو افہام و تفہیم میں لگی رہتی ہے۔ علم کی ہستی لاتناہیت کی روشنی معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ علم کی ہستی تلاش کرتے کرتے جس روشنی کو پا لیتی ہے اس کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور یہ روشنی مستقل نقش بن کر پیوست ہو جاتی ہے۔
اس بات کو پھر سمجھئے ….
• نَوع جب فرد کی حیثیت میں ہوتی ہے تو زمانِ متَواتَر ہے
• افراد کی ہستی (کُنہ) زمانِ غیر متَواتَر ہے۔
• ہر نَوع یہ جانتی ہے کہ میں انسان ہوں فرشتہ ہوں جنات ہوں پہاڑ ہوں گھاس ہوں درخت ہوں۔ نَوع کی موجودگی کا یہ علم ’’زمانِ حقیقی‘‘ سے منتقل ہوتا ہے۔
• نوع جب اس علم کو دہراتی ہے تو کائنات کے افراد الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ زمین پر بکری کی نَوع اسلئے موجود ہے کہ بکری خود کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے نَوعی علم کو دہراتی رہتی ہے۔ علم کا دہرانا ہی نَوعی افراد کی موجودگی کا ضامن ہے۔ نَوع کا علمی اعتبار سے خود کو دہرانا ایک طرف تناہیت ہے۔ اور دوسری طرف لاتناہیت ہے۔
1. زمانِ حقیقی Timelessness or Real Time
2. زمانِ غیر متَواتَر Non Serial Time
3. زمانِ متَواتَر Serial Time
زمانِ حقیقی = ورائے لا شعور، علمِ حُضوری، غیبُ الغیب، لاتناہیت، نور مَطلَق
زمانِ غیر متَواتَر = روحانی دنیا، عالمِ غیب، عالمِ تمثال، نورِ مرکّب
زمانِ متَواتَر = شعوری دنیا، نَسمہ مرکّب، عالمِ تخلیط، عالمِ ناسوت، عنصری مخلوق، عالمِ فطرت، عالمِ شہادت (مُنقسِم حواس)
خدوخال کی عدم موجودگی ۔ محض احساس = زمانِ حقیقی
نوع اور نَوع کے افراد سے آگاہی ۔ زمان غیر متَواتَر
اربوں کھربوں دنیائیں ۔ جو ٹائم کی گرفت میں ہیں (زمانِ متَواتَر)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 280 تا 289
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔