لیکچر 32
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56667
ایٹم کی تھیوری
آدمی علم دو طرح سیکھتا ہے۔
• اِکتسابی طریقہ پر …. اور
• روحانی طرزوں پر ….
اِکتسابی علوم کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ اِس علم کو سیکھنے کے لئے اسکے مُروّجہ حُروف کی ترتیب اور ان کے گراف سے واقفیت ضروری ہے۔ جیسے جیسے علوم میں اضافہ ہوتا ہے اسی مناسبت سے آدمی کا شعور طاقتور ہوتا رہتا ہے اور شعوری سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ دنیا میں رائج علوم پر زیادہ سے زیادہ تبصرہ کر سکتا ہے۔
جیسے جیسے شعور کی سکت بڑھتی ہے اسکے اوپر انکشاف ہوتا ہے کہ شعور کے علاوہ بھی کوئی شعور ہے جہاں سے یہ علم منتقل ہو رہا ہے۔ ماہر نفسیات اس کو لاشعور کہتے ہیں۔
شعور سے ہٹ کر ایک شعور ہے …. ایسا شعور جو عامۃُ النّاس کے شعور سے ماوراء ہے۔ اس شعور اور لاشعور میں وہ تمام علوم آتے ہیں جن علوم کے اوپر تخلیقی عوامل کام کرتے ہیں۔ تخلیقی عوامل سے مراد ایجادات ہیں۔
یوں سمجھئے کہ آج کا سائنسدان انسان کے اندر موجود دوسرے شعور (لاشعور) سے واقف ہو گیا ہے۔ جب اس نے لاشعور کے اندر رہتے ہوئے کسی شئے کی کُنَہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو نتیجے میں ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ علمِ حُصولی کی ضمن میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔
اب دنیاوی علوم سے ہٹ کر آسمانی علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
تاریخی شواہد ہمیں بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اِکتسابی علم نہیں سیکھا، کوئی استاد نہیں بنایا۔ لیکن اسکے باوجود ان کے ذریعہ نوعِ انسانی کو ایسے علوم منتقل ہوئے جن کے ذریعہ انسانی شعور میں ارتقاء ہوا۔
قرآنِ پاک میں ایک برگزیدہ ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم کی نشاندہی کی ہے جس علم کی دوسرے پیغمبروں نے نشاندہی نہیں کی۔
جب ہم شعور کے بعد دوسرا شعور یعنی لاشعور کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر اس (لاشعور) کی گہرائی میں تفکر کرتے ہیں تو ریڈیو، ٹی وی، ایٹم اور خلائی تسخیر کے فارمولے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ ترقی اور یہ ایجادات دوسرے شعور کی کارفرمائی ہے …. جس شعور کو سائنسدان لاشعور کہتے ہیں۔
اس ترقی میں اور ایجادات میں ایک بات غور طلب ہے وہ یہ کہ کوئی بھی ایجاد دنیا میں موجود وسائل سے باہر نہیں ہے۔ وسائل ہیں تو ایجادات ہیں …. وسائل اگر نہیں ہیں تو ایجاد نہیں ہو گی …. ہر ترقی وسائل کی محتاج ہے۔ چاہے وہ ایٹم بم ہو ، ہوائی جہاز ہو یا کوئی اور ایجاد ہو۔
ہم تیسرے شعور میں غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے انبیاء کی ذات آتی ہے۔ ان سے خَرقِ عادات میں وسائل زیرِ بحث نہیں آتے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآنِ پاک نے جس طرح متعارف کرایا ہے وہ اندھوں کو آنکھوں والا کرتے تھے، گنجوں کے سر پر بال آ جاتے تھے اور ہاتھ پھیرنے سے کوڑھ ختم ہو جاتا تھا۔
انبیاء کے بارے میں مراتب کا تعین کیا جاتا ہے کہ فلاں نبی کا مقام فلاں آسمان ہے۔ دراصل یہ تیسرے لاشعور کے مراتب کا تذکرہ ہے۔
آسمانی حدوں میں پہلا آسمان، دوسرا آسمان، تیسرا آسمان، چوتھا آسمان، پانچوں آسمان، چھٹا آسمان، اور ساتواں آسمان کسی فاصلے یا سمت کا تعین نہیں ہے …. یہ لاشعوری بیدار صلاحیتوں کا تذکرہ ہے یعنی ….
کسی نبی کے اندر تیسرا لاشعور کس حد تک متحرّک ہے …. اسی مناسبت سے نبیﷺ کے مقام کا تعین ہے۔
آدم ؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا مقام پہلا آسمان ہے۔ کسی نبی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا مقام تیسرا آسمان ہے۔
مختصر یہ کہ کسی نبی کا مقام دراصل لاشعوری مراتب کا تعین ہے۔
جب ہم اَجرامِ سماوی (ستاروں) کو آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں تو ہمارے شعور اور لاشعور کی حدیں مُتّصِل ہوتی ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ ہمارا شعور دوسرے لاشعور سے متاثر ہو جاتا ہے۔
آسمانوں پر ستاروں کو دیکھنا، چاندنی کی ٹھنڈک کو محسوس کرنا، سورج کی تپش سے متاثر ہونا …. اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارے شعور میں اتنی سکت ہے کہ وہ لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے۔ جب شعور لاشعور مین داخل ہو سکتا ہے تو لاشعور کے اندر تمام چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وسائل کی گہرائی میں اتر کر شئے کی کُنَہ تک پہنچ سکتا ہے۔ ایٹم کی تلاش میں یہی قانون کارفرما ہے۔
ہم جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں آسمان پر ستارے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اَجرامِ سماوی کا ہیولا ہمارے لاشعور کو چُھو دیتا ہے …. لیکن سیارہ کیا ہے؟ اور ان سیّاروں، کُرّوں کے تفصیلی اجزاء کیا ہیں؟ ستاروں کے اندرون و بیرونی آثار و احوال کس طرح واقع ہیں؟ یہ بات شعور سے مخفی ہوتی ہے اور لاشعور پر واضح ہوتی ہے۔
اس فارمولے کے مقابل جب کسی نبی یا ولی کے شعور کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ ولی کے اندر نبی کا لاشعور منتقل ہو جاتا ہے …. اور جب کسی ولی کے اندر نبی کا لاشعور منتقل ہو کر اسکے شعور کو اطلاعات فراہم کرتا ہے تو ولی کے حواس اَجرامِ سماوی کے اندرونی و بیرونی احوال کو پوری طرح دیکھتے، جانتے، سنتے اور چھوتے ہیں۔ اَجرامِ سماوی کے تمام احوال کُرّۂِ اَرضی کے احوال کی طرح قریب ہو جاتے ہیں۔
جس طرح ایک عام بندہ زمین کے کُرّہ پر بیٹھ کر کھلی آنکھوں سے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھتا ہے، چیزوں کے اندرونی احوال سے واقف ہوتا ہے، اسی طرح جب ولی میں انبیاءؑ کا علم (شعور) منتقل ہو جاتا ہے تو وہ زمین پر بیٹھ کر سیاروں اور اَجرام کے احوال (وہ بیرونی ہوں یا اندرونی ہوں) اس کی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔
جس طرح شعور کی توانائی اور تربیت کے مدارج مختلف ہیں اسی طرح لاشعور کی تربیت و توانائی (لاشعور کی حدود میں داخل ہونے) کی طرزیں مختلف ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ مُرتّب شعور رکھنے والا انسان کُرّۂِ اَرضی کے حالات سے زیادہ باخبر ہوتا ہے۔ ان پر بہتر طور سے تبصرہ کر سکتا ہے۔ لیکن ناقص شعور رکھنے والا انسان کُرّۂِ اَرضی کے مسائل کو جاننے سے قاصر ہے۔
اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک ساٹھ (60) سالہ کسان ہے (جس نے اپنی زندگی ایک محدود رقبے میں گزاری) کی علمی صلاحیتیں کھیتی باڑی سے آگے نہیں بڑھتیں اس کی عمر ساٹھ سال ہے وہ دادا، نانا، چچا، تایا برادری کا بزرگ بھی ہے۔ اس نے شعوری زندگی میں ساٹھ سالہ زندگی کے نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں۔ بے شمار تجربات بھی کئے ہیں لیکن چونکہ اس کا علم ایٹم کے بارے میں ناقص ہے اگر اس ساٹھ سالہ بوڑھے کے سامنے ایٹم کی تھیوری کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو وہ کچھ نہیں بتا سکے گا۔ اسکے برعکس پڑھے لکھے آدمی کے سامنے …. جس نے اِکتسابی علوم حاصل کرکے اپنے شعور کو توانا کر لیا ہے …. اسکے سامنے ایٹم کی تھیوری بیان کی جائے تو اسے ایٹم کی تھیوری سمجھنے میں کوئی دقّت اور پریشانی نہیں ہو گی۔
انسان اور خصوصاً روحانی انسان چار شعوروں سے واقفیت رکھتا ہے۔ ایک شعور وہ ہے جس کو ہم خارجی دنیا کہتے ہیں یعنی جس شعور سے ہم خارج کو دیکھنے، خارج کو سمجھنے اور خارجی احساسات سے متاثر ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ایسا شعور ہے جس سے نوعِ انسانی کا ہر فرد کم و بیش واقف ہے۔ اس کو پہلا شعور کہا جاتا ہے۔ جب ہم دوسرے شعور یعنی لاشعور کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں شعور کو جس جگہ سے اطلاعات فراہم ہوتی ہیں، شعور ان اطلاعات میں معانی پہنا کر Imageبناتا ہے جہاں سے اطلاعات آ رہی ہیں وہ لاشعور ہے۔ اس لاشعور سے عامۃُ النّاس واقف نہیں ہیں۔ البتہ وہ لوگ جو فکر کرتے ہیں اور تحقیق و تلاش کے میدان میں سرگرداں رہتے ہیں واقف ہو جاتے ہیں۔
لاشعور سے نئے نئے علوم سامنے آتے ہیں۔ اختراعات و ایجادات کا سلسلہ قائم ہوتا ہے۔ یہی شعور ہے جس کے ذریعے سائنسی ترقی ہم تک پہنچی۔
ان دو شعوروں کے علاوہ دو شعور اور ہیں ….
تیسرا شعور …. اور چوتھا شعور اُن لوگوں کے اندر متحرّک ہوتا ہے جن حضرات کو ہم نبی یا ولی کے نام سے جانتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ جب کائنات میں پھیلی ہوئی روشنی کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو چاروں شعوروں میں ہوتی ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی یہی روشنی کائنات اور کائنات کے افراد کے درمیان پہچان کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ روشنی کائنات یا افرادِ کائنات کے درمیان سے نکال دی جائے تو ایک شعور اور تین لاشعور کی حیثیت صفر کے برابر ہو جائے گی اور اگر تینوں لاشعوروں میں تبدیلی واقع ہو جائے تو شعوری خدوخال بھی تبدیل ہو جائیں گے۔
شعور میں تبدیلی یا روشنیوں میں ردّ و بدل کا تعلق روشنی کے مختلف زاویوں سے ہے۔ روشنی نَسمہ ہے۔ نَسمہ ایسے تانے بانے کا نام ہے یا ایسی روشنی کی لکیروں کا نام ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست بھی نہیں ہیں اور ایک دوسرے سے فاصلے پر بھی نہیں ہیں۔ لیکن اسکے باوجود یہ روشن لکیریں اپنے زاویئے بدلتی رہتی ہیں۔
خیال کہاں سے آتا ہے؟
مختلف زاویوں میں نئی نئی مثالوں سے آپ حضرات و خواتین کے گوش گزار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق چار شعوروں (ایک شعور اور تین لاشعوروں) سے کی ہے۔
ہم جب اوپر سے نیچے کی طرف کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں تو چوتھے لاشعور سے ہماری مراد شعورِ اوّل ہے۔
اَسماء الٰہیہ جب اپنے آپ کو اللہ کی صفَت میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ان کے اندر حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے اندر احکام کا رنگ غالب ہو جاتا ہے۔
احکام کا رنگ غالب ہونا تصوف میں ’’بِداعَت‘‘ ہے۔ جب بِدَاعت اوّل شعور سے دوئم شعور میں منتقل ہوتی ہے تو امرِ الٰہیہ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
کائنات اللہ کی صفات پر قائم ہے ….
صفات اللہ کے احکام کے ذریعے مظہر بنتی ہیں ….
یہ سلسلہ ازل سے قائم ہے اور ابد تک جاری رہے گا ….
صفات کے اندر جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو خدوخال اور شکل و صورتیں رونما ہوتی ہیں۔ یہ خدوخال اور صورتیں تین مراحل سے گزر کر مادّی شکل و صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔
کائنات کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے جس طرح کائنات کو بنایا، کائنات بحیثیت مجموعی ایک جگہ پر قائم ہے۔ کائنات بحیثیت مجموعی اس طرح موجود ہے کہ کائنات میں موجود ہر ذرّہ موجود بھی ہے اور ہر ذرّہ دوسرے ذرے میں پیوست بھی ہے۔
مثلاً جب ہم کائنات کی اجتماعی حیثیت کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ایک شکل وصورت کے اندر پوری کائنات جلوہ گر ہے۔
نباتات، جمادات، حیوانات، اَجرامِ سماوی سب ایک دوسرے کے اندر گڈ مڈ ہیں۔
کائنات ایک ایسا عالم ہے جہاں ہر نَوع دوسری نَوع کے اندر نظر آتی ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کائنات ایک علم ہے۔ علم اگر نہیں ہے تو کائنات نہیں ہے۔ علم اللہ کی صفات (اَسماءِ الٰہیہ) ہیں۔
شعورِ اوّل: نورِ مُفرِد
شعور دوم: نورِ مرکّب
شعورِ سوئم: نَسمہ مُفرِد …. اور
شعورِ چہارم نَسمہ مرکّب ہے۔
• نورِ مُفرِد کی تخلیق مَلاءِ اعلیٰ …. اور
• نورِ مرکّب کی تخلیق ملائکہ ….
• نَسمہ مُفرِد کی تخلیق جنات …. اور
• نَسمہ مرکّب کی تخلیق عَنصری مخلوق …. عنصری مخلوق میں ہماری زمین کا کُرّہ بھی شامل ہے۔
۱۔ شعورِ اوّل ۔۔۔۔۔۔ نورِ مُفرِد
۲۔ شعورِ دوئم ۔۔۔۔۔۔ نورِ مرکّب
۳۔ شعورِ سوئم ۔۔۔۔۔۔ نَسمہ مُفرِد
۴۔ شعورِ چہارم ۔۔۔۔۔۔ نَسمہ مرکّب
۱۔ نورِ مُفرِد ۔۔۔۔۔۔ مَلاءِ اعلیٰ
۲۔ نورِ مرکّب ۔۔۔۔۔۔ ملائکہ
۳۔ نَسمہ مُفرِد ۔۔۔۔۔۔ جنات
نَسمہ مرکّب ۔۔۔۔۔۔ انسان، حیوان، نباتات، جمادات ….
زندگی خیالات کی رَو کا دوسرا نام ہے۔
اگر خیالات کا سلسلہ منقطع ہو جائے تو تمام تقاضے تمام حواس ختم ہو جائیں گے۔
زمین کی حرکت کوئی کام اور کوئی تقاضا ایسا نہیں ہے جو خیالات کے دائرہ سے باہر ہو۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کام سے متعلق خیال آتا ہے۔ جب تک خیال نہ آئے اور گہرائی پیدا نہ ہو تو کوئی چیز مظہر نہیں بنتی۔
• خیال سے پہلے ایک کیفیت ایسی ہوتی ہے جس کا دباؤ ذہن پر پڑتا ہے اور اسی خیالی کیفیت کی بنیاد پر آدمی خیال میں معانی پہناتا ہے ….
• لیکن خیال سے پہلے ایک اور کیفیت ہوتی ہے جس کا دباؤ ذہن پر نہیں پڑتا۔ لیکن ذہن کے اوپر ہلکی شبیہہ ضرور بن جاتی ہے۔ خیال کی اس لطیف کیفیت کو ’’وہم‘‘ کہتے ہیں۔ خیال کی یہ لطیف کیفیت جب گہرائی اختیار کرتی ہے تو واہمے سے گزر کر خیال بن جاتی ہے۔
یہ بات سمجھ لی گئی ہے کہ خیال سے زندگی میں تقاضے بنتے ہیں …. لیکن یہ بات ابھی غور طلب ہے کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟
لوحِ محفوظ پر نقوش، نُزول کرنے کے بعد روشنی کی لہروں میں منتقل ہوتے ہیں تو یہ روشنی ذہن سے ٹکرا کر بکھر جاتی ہے۔ لہروں اور لکیروں کا نُزول ذہن انسانی پر نہ ٹکرائے تو انسان واہمہ اور خیال سے واقف نہیں ہوتا اور جب تک واہمہ اور خیال سے واقفیت نہ ہو، تقاضے پیدا نہیں ہوتے۔ ہم شب و روز خیالات میں گھرے رہتے ہیں۔ کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم زندگی سے وابستہ سمجھتے ہیں اور بے شمار خیالات ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم اہمیت نہیں دیتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قانون یہ ہے کہ کوئی بھی خیال ذہن پر وارِد ہوتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس خیال کا تعلق کائنات کے کسی نہ کسی شعبے سے ضرور ہے۔
خیال کا آنا بجائے خود اس کی دلیل ہے کہ خیال کہیں سے آیا۔ یہ خیال ذہن انسانی پر ٹکرایا تو ذہن میں حرکت پیدا ہوئی۔ ایسی حرکت، جس حرکت کے بارے میں ہم کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے۔ لیکن بہرحال ذہن کے پردوں میں حرکت واقع ہوتی ہے۔ چونکہ ہم اس حرکت کو محسوس نہیں کرتے یا حرکت میں معانی نہیں پہنا سکتے، اسلئے ہم اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن اس حرکت کا تعلق کائنات کے ان تاروں یا لہروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب و تدوین کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہے۔
ہم اس بات سے آشنا ہیں کہ ہوا چلتی رہتی ہے۔ ہوا کی تیزی، کمی، خُنکی یا گرمی سے بھی ہم متعارف ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے …. ہَوا معمول کے برعکس چل کر تیز جھونکوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ عمل …. یعنی تیز جھونکوں میں منتقل ہونا چونکہ روٹین کی حرکت کے خلاف ہے …. لازماً یہ سوچنا پڑے گا کہ جس نظام میں ہَوا بنتی ہے یا جس نظام سے ہَوا چل کر زمین میں پھیلتی ہے …. اس نظام میں تغیّر واقع ہوا ہے۔
اسی طرح جب انسان کے زہن میں کوئی حرکت واقع ہوتی ہے یا کوئی خیال وارِد ہوتا ہے تو اسکے معانی یہ ہیں کہ انسان کے لاشعور میں حرکت واقع ہوئی ہے۔ کہاں حرکت واقع ہوئی ہے …. اس حرکت کا کس نظام سے تعلق ہے یہ انسان کی خود اپنی تلاش پر منحصر ہے۔
آدمی جس قدر گہرائی میں تفکر کرنے کے بعد اپنے لاشعور سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے اسی مناسبت سے اس کی تلاش آسان ہو جاتی ہے۔
عالمین میں کوئی شئے دو رخ کے بغیر موجود نہیں ہے۔ مَرئی اشیاء ہیں۔ ہمیں خدوخال نظر آتے ہیں …. لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی ہستی نے اِس کو سنبھالا ہوا ہے۔
ایک رخ غالب دوسرا رخ مخفی ہے …. دونوں مل کر زندگی بنتے ہیں اور زندگی ہی احساس ہے۔
احساس یا حِس کے بھی دو مراتب ہیں۔ ایک شئے سامنے ہے اور دوسری شئے جو مشاہدہ کرنے والی ہے، مخفی ہے۔
• ایک رخ وہاں ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت موجود ہے۔ یہ قوت کسی چیز کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔
• دوسرا رخ وہاں ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت کی نگاہ پڑتی ہے۔
جب تک حِس کے دونوں رخ یکجا نہ ہوں اس وقت تک ہم کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔
کوئی موجود ہمارے سامنے ہے لیکن اس موجود کو سنبھالنے والا ہمارے سامنے نہیں ہے۔ مادّی چیز (مرئی شئے ) گوشت پوست کی آنکھ سے نظر آتی ہے اور غیر مَرئی چیز گوشت پوست کی آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ لیکن روحانی آنکھ اسے دیکھتی ہے۔
جب ہم سیاہ تختے کو دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے تختہ ہے لیکن جب ہم سیاہ رنگ پر تفکر کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ رنگ الگ ہے اور تختہ الگ ہے یعنی ہم رنگ اور تختے کے ملاپ کو تختہ سیاہ کہتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 271 تا 279
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔