لیکچر 29
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56627
نظر کا قانون
کائنات نگاہ یا نظر ہے ….!
جب تک کائنات کے افراد کو نظر منتقل نہیں ہوئی اس وقت تک کائنات عالمِ تَحیّر تھی۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اَلَستُ بِرَبِّکُم‘‘۔ کائنات میں جتنی بھی ارواح تھیں انہوں نے اس آواز کی طرف دیکھا تو انہیں اللہ کا اِدراک حاصل ہو گیا۔
یہ اِدراک ہی نظر ہے۔ یہی وہ نظر ہے جو پہلا بُعد (Dimension) ہے۔ اسکے بعد کائنات کے تینوں دائرے مکان ہیں۔ جن کے نام بالترتیب
• بُعد نمبر ۱
• بُعد نمبر۲
• بُعد نمبر۳ اور
• بُعد نمبر۴ ہیں
۱۔ بُعد ۔۔۔ نظر ۔۔۔ شُہود
۲۔ بُعد ۔۔۔ نظارہ ۔۔۔ مشاہدہ
۳۔ بُعد ۔۔۔ ناظر ۔۔۔ شاہد
۴۔ بُعد ۔۔۔ منظور ۔۔۔ مشُہود
یہ چاروں بُعد …. شُہود، مشاہدہ، شاہد او ر مشُہود ہیں۔
• شُہود(نہر تسوید) کائنات کی ساخت میں اصل بنیاد ہے۔ اس میں کبھی تغیّر واقع نہیں ہوا اور نہ ہو گا۔ اس ہی حقیقت پر تینوں مکانیتوں کی عمارت قائم ہے۔ زماں راستہ ہے۔ اور باقی تین بُعد مکانیت ہیں۔ راستہ ایک سفر ہے، سفر کرنے والے افراد الگ الگ ہیں۔
• کائنات کی اصل بنیاد کے بعد پہلی مکانیت ’’نہرِ تَجرید‘‘ ہے جو مشاہدہ یا نظارے کی نَوعیت میں اپنا وُجود رکھتی ہے۔
• دوسری مکانیت ’’نہرِ تَشہید‘‘ …. شاہد یا ناظر کی حیثیت رکھتی ہے۔
• تیسری مکانیت ’’نہرِ تَظہیر‘‘ ہے …. جو مشُہود یا منظور کہلاتی ہے۔ یہی وہ مکانیت ہے جو روشنی کا ایک گہرا سمندر ہے اور یہی وہ مکانیت ہے جس کو آئینہ کا قائم مقام کہا گیا ہے۔
– نہرِ تسوید ۔۔۔ زماں ۔۔۔ راستہ
– نہرِ تجرید ۔۔۔ مکانیت نمبر ۱ ۔۔۔ نظارہ
– نہرِ تشہید ۔۔۔ مکانیت نمبر ۲ ۔۔۔ ناظر
– نہرِ تظہیر ۔۔۔ مکانیت نمبر ۳ ۔۔۔ روشنی۔ آئینہ کے قائم مقام
نہرِ تسوید ۔۔۔ کائنات کی اصل
نہرِ تجرید ۔۔۔ اصل بنیاد کے بعد پہلی مکانیت
نہرِ تشہید ۔۔۔ کائنات کی اصل (زماں) کے بعد دوسری مکانیت
نہر تظہیر ۔۔۔ کائنات کی اصل (Time) کے بعد تیسری مکانیت
تسوید ۔۔۔ خلاءِ نور۔ لامکاں، زماں، وقت یا اللہ کا ذہن ہے۔
تجرید ۔۔۔ تشہید، تظہیر۔ تینوں دائرے کائنات میں مکان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جب ہم لفظ روحانیت کہتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ایسی طرزِ فکر کا تذکرہ کر رہے ہیں جو طرزِ فکر دنیا میں رائج تمام علوم سے الگ اور مختلف ہے۔ طبیعات، نفسیات اور مابعد النفسیات کا علم ہمیں روشنی فراہم کرتا ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے اسے ہماری آنکھ دیکھ رہی ہے۔ اسکے برعکس روحانی طرزِ فکر ہمیں بتاتی ہے کہ کسی چیز کو دیکھنے میں ہماری مادّی آنکھ واسطہ بن رہی ہے۔ جب ہم پہاڑ کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت ہم پہاڑ کو نہیں دیکھتے …. پہاڑکے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔ یعنی پہاڑ ہمیں دیکھتا ہے اور پہاڑ اپنے دیکھنے کے زاویئے کو ہمیں منتقل کر دیتا ہے اور ہم پہاڑ کے دیکھنے کو دیکھ لیتے ہیں۔
براہِ راست نظرکائناتی شعور ہے۔ جس طرح ایک انسان پہاڑ کو پہاڑ دیکھتا ہے، اسی طرح انسان کے علاوہ تمام مخلوقات …. چرندے، پرندے اور درندے اور دوسری مخلوق پہاڑ کو پہاڑ دیکھتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انسان نے پہاڑ کو پہاڑ دیکھا اور شیر نے پہاڑ کو سمندر دیکھا ہو۔ براہِ راست نظر کا یہ کردار کائنات کے ہر ذرے میں یکساں طور پر برسرِ عمل ہے۔ جس طرح انسان لوہے کو سخت محسوس کرتا ہے اسی طرح چیونٹی اور ہاتھی بھی لوہے کو سخت محسوس کرتے ہیں۔ براہِ راست طرزِ نگاہ کائنات میں ہر فرد کو حاصل ہے اور یہ اشتراک اسلئے ہے کہ انسان سمندر کو نہیں دیکھتا …. سمندر انسان کو دیکھتا ہے ۔ انسان سمندر کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔
کائنات میں پھیلے ہوئے تمام مناظر اسی قانون کے پابند ہیں۔
جس طرح آدمی چاند کی طرف نظر اٹھا کر چاند کو دیکھتا ہے …. اُسی طرح چکور بھی چاند کو دیکھتا ہے۔ جس طرح ایک آدمی پانی پی کر آنتوں کی سیرابی کرتا ہے اسی طرح چوپائے پانی پی کر اپنی جسمانی نشوونما کرتے ہیں۔ اسی طرح درخت کی جڑیں پانی کو پانی سمجھ کر پانی سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ جس طرح انسان اور دوسرے جانور پانی سے نشوونما پاتے ہیں …. اسی طرح پھول پانی پی کر اپنی نشوونما کرتے ہیں۔ جس طرح ایک سانپ دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتا ہے اسی طرح بکری بھی دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتی ہے۔
یہ ایک مشترک نگاہ ہے جو ساری کائنات اور کائنات کے تمام افراد میں یکساں طور پر عمل پذیر ہے۔ نظر کے اس قانون میں کہیں اختلاف نہیں ہے۔ براہِ راست یہ زاویہ ہر ذرے میں موجود ہونے کے باوجود غیر مُتغیّر ہے۔
غیر مُتغیّر اس حقیقت کو کہا جاتا ہے جس میں تبدیلی اور تعطل نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
انسان کو علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
(سورۃ العلق – 5)
یعنی اللہ نے انسان کے لاشعور میں علم ذخیرہ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ علم سکھا دیا جس علم سے انسان کے علاوہ کائنات میں کوئی دوسرا فرد واقف نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
پس جس وقت کہ درست کروں اور پھونکوں اسکے بیچ اپنی روح میں سے پس گر پڑو واسطے اسکے سجدہ کرتے ہوئے۔
(سورۃ ص – 72)
’’پھونکوں اسکے بیچ اپنی روح میں سے‘‘ …. وہ علم ہے …. جو علم اللہ تعالیٰ نے آدم کے علاوہ کائنات میں کسی مخلوق کو نہیں سکھایا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں نے آدم کو اپنے اَسماء (صفات) کا (براہِ راست طرزِ فکر یعنی کائناتی شعور) کا علم سکھا دیا۔
(سورۃ البقرۃ – 31)
فرمانِ باری تعالیٰ راہ نمائی کرتا ہے کہ کائنات میں انسان وہ ہستی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست طرز نگاہ کا علم دیا ہے۔
کائنات تخلیق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ خود کائنات کے سامنے آ گئے اور فرمایا ….
مجھے پہچانو میں تمہارا ربّ ہوں …..
مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے اپنے دیکھنے کو دیکھا اور کائنات نے اللہ کو دیکھنے کو دیکھا۔
علمُ الأَسماء
کائنات کی ساخت …. اور
ساخت میں مختلف مقداریں …. اور
ان مقداروں سے ترتیب پا کر مختلف نَوعیں …. اور
ہر نَوع میں مخصوص خدوخال …. مخصوص صفات، صفاتی اشتراک ….
ہر نَوع کے الگ الگ افراد …. اور
افراد کا دوسرے نَوع کے افراد سے باہمی رشتہ …. ہر ذی عقل اور ذی فہم آدمی کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ساری کائنات ایک کنبہ ہے اور اس کنبے کا ایک سرپرست اعلیٰ ہے۔
کائنات میں کوئی بھی نَوع ہو یا کسی بھی نَوع کا فرد ہو، کائنات کے افراد سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا۔ کوئی فرد کائنات میں موجود نَوعوں یا اَجرامِ سماوی سے واقفیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اسکے ساتھ مخفی رشتہ میں بندھا ہوا ہے۔ کوئی ایک آدمی سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی فرد جس طرح درخت کو درخت دیکھتا ہے اسی طرح دوسری نَوع کے افراد بھی درخت کو درخت دیکھتے ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس تمام نَوعیں ایک دوسرے سے باہمی رشتہ رکھتی ہیں …. ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں اور ایک دوسرے کے کام آ رہی ہیں۔
جس طرح مخلوق کا ہر فرد یہ جانتا ہے کہ ہوا کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے اسی طرح ہَوا بھی یہ شعور رکھتی ہے کہ پانی کے ننھے ننھے ذرّات اپنے دوش پر اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا میری ڈیوٹی ہے۔
جس طرح انسان پانی پی کر پیاس بجھاتے ہیں اسی طرح ہَوا کو بھی یہ شعور حاصل ہے کہ وہ پانی کے بخارات اور پانی کے ذرّوں کو اٹھا کر اُن مقامات تک لے جاتی ہے جہاں سے ندی نالے اور دریا بنتے ہیں …. لیکن پانی کو …. ہَوا کو …. درختوں کو یہ شعور نہیں ہے کہ شعور کا علم کیا ہے؟ یہ علم اللہ نے صرف انسان کو وَدیعت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ہم نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونک دی ….
یہ روح پھونکنا ہی وہ علم ہے جو کائنات میں مشترک رشتہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات ہم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دی ہے ….
ہر بات قرآنِ پاک میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
ان علوم کی تَدوین تین (3) طرح ہوئی ہے۔
• علمِ حُضوری
• علمِ حُصولی
• علمِ تَدلّیٰ
ہر ذی شعور جس کو کائنات میں کوئی بھی حیثیت حاصل ہے جانتا ہے کہ وہ کائنات کا ایک فرد ہے۔ ہر ذی فہم جو کائنات کا محل وقوع جاننا چاہتا ہے لازماً یہ سوچتا ہے کہ کائنات کس سطح پر رواں دواں ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں علیم ہوں ….
یعنی علم کا سورس اور منبع اللہ ہے۔ علم کا جو بھی حصّہ منتقل ہُوا اس کا سورس اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں خبیر ہوں ….
جس ذی شعور کو بھی اطلاع کی معنویت معلوم ہے وہ یہ جانتا ہے کہ زندگی کا دارومدار خبر پر ہے۔
ساری زندگی ایک خبر متَواتَر کی حیثیت رکھتی ہے۔
کھانا پینا، سونا جاگنا، نفرت کرنا محبت کرنا …. یہ سب ایک اطلاع ہے جو انسان کے دماغ میں وارِد ہوتی ہے۔ یہ اطلاع کہاں سے آ رہی ہے؟ …. اس اطلاع کا سورس اللہ ہے جو خبیر ہے۔
انسان اور کائنات کے دوسرے افراد میں دیکھنے کا عمل جاری ہے۔ تَواتُر کے ساتھ دیکھنے کا عمل اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ …. نگاہ کیا ہے؟ نگاہ کہاں سے آ رہی ہے؟ اور اس کا سورس کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں بصیر ہوں ….
یعنی کائنات کے افراد میں جو نگاہ کام کر رہی ہے اس کا سورس اللہ ہے۔
اسی طرح انسان جب اپنی زندگی کا اور اپنے اسلاف کی زندگی کا تجزیہ کرتا ہے اور اللہ کی دی ہوئی فہم سے کام لیتا ہے تو اسکے لئے اس بات سے انکار ممکن نہیں رہتا کہ وہ بااختیار ہونے کے باوجود بے اختیار ہے۔ پیدائش پر وہ قدرت نہیں رکھتا۔ زندہ رہنے پر اسے قدرت حاصل نہیں ہے۔
ضرور کوئی ایسی اتھارٹی ہے جس نے زندگی کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ جس نے پوری کائنات کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ یہ احاطہ اللہ کی صفَت ہے …. اور اس صفَت کو اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ’’محیط‘‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ ہمارے اندر شعور ہے …. ہمارے اندر دماغ ہے …. لیکن ہم کسی چیز پر حتمی طور پر قدرت نہیں رکھتے۔ ہمارے سارے ارادے، ساری خواہشات کامیابی سے پوری نہیں ہو جاتیں اور ہم ہمیشہ ناکامی کا منہ نہیں دیکھتے۔ انسان کو قدرت حاصل نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے۔ وہ ہر آن کسی ہستی کا محتاج ہے۔ اللہ کی یہی صفَت ہے جو قدیر کے نام سے بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو روشنی بخشی ہے اس روشنی کا تذکرہ نور کے نام سے کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں آسمانوں اور زمین کا نور ہوں ….
مفہوم یہ ہے کہ کائنات اور کائنات کا محل وقوع صرف اور صرف اللہ کا علم ہے اور یہی وہ علم ہے جو اللہ نے انسان کے علاوہ کسی کو نہیں سکھایا۔
ارتقاء
شعور کی سطح سے بلند ہو کر لاشعور میں تفکر کیا جائے تو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کائنات پر ایک واحد ہستی حکمران ہے۔ اس یکتا ہستی نے کائنات چلانے کے لئے ایک مربوط نظام بنایا ہے اس نظام کے تحت زندگی کی ابتداء اور انتہا کائنات کا سفر ہے۔
• پہلی منزل میں کائنات نے خود کا اِدراک کیا ….
• دوسرے قدم پر اس بات کی آگاہی حاصل کی کہ میں مخلوق ہوں اور میرا بنانے والا خالق اللہ ہے
• تیسرے قدم پر کائنات نے نَوعی اعتبار سے اِدراک کیا ….
• چوتھے قدم پر کائنات نے نَوعی حواس کو الگ الگ سمجھا اور ہر نَوع اس بات سے واقف ہو گئی کہ ہر نَوع کے افراد مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ ….
• انفرادی حیثیت میں جب نَوعوں نے اپنا اِدراک کر لیا تو دوسرا سفر شروع ہوا۔
پہلا سفر نُزولی تھا کائنات نے اوپر سے نیچے کی طرف سیڑھیاں طے کیں اور جب کائنات نَوعی اعتبار سے انفرادی شکل و صورت میں ظاہر ہو گئی اور ہر فرد نے اپنے وُجود کا اِدراک کر لیا تو صَعودی سفر شروع ہو گیا۔ اس نُزولی اور صَعودی سفر کا نام ارتقاء ہے۔
جس طرح عالم ارواح (نُزولی حیثیت) سے عالمِ ناسوت تک کائنات کے سفر کو ارتقاء کہتے ہیں ….. اسی طرح عالمِ ناسوت سے عالم ارواح کی طرف لوٹنے کا نام ارتقاء ہے۔
ارتقاء کس طرح ہو رہا ہے ….؟
کائناتی سفر کس طرح طے کیا جا رہا ہے ….؟
کائناتی ارتقاء براہِ راست حواس سے متعلق ہے اور حواس کا تعلق خیالات سے ہے۔
خیالات انفارمیشن ہے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خیالات (اطلاعات) کا کہیں نہ کہیں سورس ہے۔ مخلوقات کی زندگی کے تمام اعمال و حرکات …. جو سفر کا ذریعہ ہیں …. روشنی ہے۔ ہم روشنی کے ذریعے دیکھتے ہیں …. روشنی کے ذریعے سنتے ہیں …. روشنی کے ذریعے سمجھتے ہیں …. روشنی کے ذریعے چُھوتے ہیں …. باالفاظ دیگر ہمارے تمام حواس روشنی ہیں اگر درمیان میں سے روشنی کو نکال دیا جائے تو حواس ختم ہو جائیں گے۔
روشنی کی بِساط ٹوٹ جائے تو پوری زندگی بکھر جائے گی۔
بنیاد نہیں ہو گی تو عمارت بھی نہیں رہے گی۔
روشنیوں کے جال پر راستہ بنا ہوا ہے۔
روشنیاں تار تانے بانے کی طرح ہیں۔ تار ایک دوسرے سے اتنے قریب ہیں کہ ان کو الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔
ایک سفید کاغذ لے کر اس پر پینسل سے درخت کے نقش و نگار بنائیں۔ درخت کی تصویر کے خاکوں کے چاروں طرف رنگ بھر دیں آپ کو کاغذ پر درخت نظر آئے گا اگر کاغذ کے اوپر سے رنگ مٹا دیا جائے اور کاغذ کو سفید کر دیا جائے تو درخت نظر نہیں آئے گا۔
کاغذ پر رنگ روشنی ہے اور اس رنگ کے درمیان اسکیچ کائنات ہے۔
جس طرح کاغذ کے اوپر رنگ نے درخت کا احاطہ کیا ہوا ہے اسی طرح اللہ کے علم نے کائنات کا احاطہ کیا ہوا ہے ….
جس طرح کاغذ کے اوپر درخت نظر آ رہا ہے …. جب کہ وہ خلاء ہے۔ اسی طرح کائنات کا ہر ذرّہ خلا کی صورت میں اللہ کے علم میں ہے اور اللہ کا علم اللہ کا نور ہے۔
جس طرح کاغذ پر رنگ کی موجودگی میں دیکھنے والے کو رنگ نظر نہیں آتا ہے …. درخت نظر آتا ہے اسی طرح کائنات کی شکل وصورت نظر آتی ہے لیکن نور نظر نہیں آتا۔ صرف کائنات کا وہ خلا نظر آتا ہے جس خلا میں تصویر بنی ہوئی ہے اور ان خلائی تصویروں کے نام چاند سورج زمین آسمان پہاڑ سبزہ زار دریا سمندر وغیرہ ہیں۔
کاغذ کے چاروں طرف رنگ بھر دیئے جائیں اور بیچ میں ایسے نقش و نگار بنا دیئے جائیں جو سمندر کی تصویر کشی کرتے ہوں تو دیکھنے والا برملا پکار اٹھے گا کہ یہ سمندر ہے …. بصورت دیگر تمام نَوعیں اللہ کا نور ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 246 تا 254
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔