لیکچر 28

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56622

متغیّر و غیر متغیّر

کائنات کے دو رخوں میں ایک رخ کا نام زمانیت ہے اور دوسرے رخ کا نام مکانیت ہے۔
جہاں کائنات زمانیت میں ظاہر ہوتی ہے، وہ نُزولی حرکت ہے اور جب مکانیت پس منظر میں چلی جاتی ہے تو حرکت صَعودی ہو جاتی ہے۔
نُزول و صَعود کا سلسلہ لوحِ محفوظ کے ساتھ قائم ہے۔
لوحِ محفوظ میں نُزول کرنے والے تمام خدوخال جب عالمِ ناسوت کی طرف نُزول کرتے ہیں تو لوحِ محفوظ اور عالمِ ناسوت کے درمیان ایک پردہ (سکرین) آتا ہے۔
• نُزولی حالت میں عالمِ ناسوت اور لوحِ محفوظ کے درمیان سکرین کو برزخ کہتے ہیں۔
• لوحِ محفوظ سے چلنے والی تصویریں جب عالمِ ناسوت میں مظہر بنتی ہیں اور یہ مَظاہرات صَعود کرتے ہیں تو لوحِ محفوظ اور عالمِ ناسوت کے درمیان ایک پردہ آتا ہے۔ اس پردے کو عالم اَعراف کہتے ہیں۔

لوحِ محفوظ سے عالمِ ناسوت تک آنے میں اور عالمِ ناسوت سے لوحِ محفوظ تک واپس پلٹنے میں جو مراحل پیش آتے ہیں ان مراحل کی تعداد سات (7) ہے۔

نفس واحدہ کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ نقطۂ وحدانی کا وہ رخ جو اللہ کے ساتھ وابستہ ہے اس کو علمُ القلم کہا جاتا ہے۔ یہی رخ تجلّی ذات بھی کہلاتا ہے اور اسے ورائے بے رنگ یا ورائے لاشعور بھی کہتے ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں قلم اور لوح کے تئیس (23) شعبے ہیں۔ قلندر بابا اولیاءؒ نے ان 23 شعبوں کا تذکرہ نہیں کیا۔ البتہ علمُ القلم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ شعبہ لاشعور کے اس نقطے سے متعلق ہے جس کی
• ایک سطح حافظہ ….
• دوسری سطح فکر ہے۔

حافظہ اور فکر کی دونوں سطحیں ایک ہی حرکت کے دو رخ ہیں۔
• حافظہ کی سطح خلاءِ نور ہے۔ خلاءِ نور بسیط، عمیق اور محیط ہے۔
• فکر کی سطح محض نور ہے جو خلاءِ نور سے نور کی طرف یعنی لامحدودیت سے محدودیت کی طرف نُزول کرتی ہے
یہ بہت عمیق اور گہری بات ہے۔
اب ہم نور، خلاءِ نور، حافظہ اور فکر کی مشاہداتی صورتحال بیان کرتے ہیں۔

جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تھا …. اللہ ایک ذات ہے، اللہ بصیر ہے، اللہ خبیر ہے، اللہ علیم ہے، اللہ محبت کرنے والا ہے۔ اللہ خالق ہے، اپنی مخلوق کی تمام ضروریات سے واقف ہے، اللہ تعالیٰ کا ذہن بھی ہے …. اللہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اپنے تعارف کے لئے وہ ایسی تخلیق عمل میں لائے جس تخلیق میں …. حافظہ ہو …. فکر ہو …. بصیرت ہو …. علوم سیکھنے کی تمام صلاحیتیں ہوں …. تا کہ مخلوق اللہ کو پہچان لے۔

اللہ کے ذہن میں خیال آیا کہ ایک ایسی کائنات بنائی جائے جو مکمل ہو اور اس کائنات کے افراد میں ایسے منتخب افراد ہوں جو اللہ کو پہچان سکیں اور جن کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہو۔ اللہ کے ذہن میں یہ خیال نقش و نگار اور خدوخال کے ساتھ موجود تھا۔
اللہ نے اس خیال کو مَظاہراتی شکل و صورت دینی چاہی تو کہا ’’کُن‘‘۔
• اللہ کے ذہن میں جو کچھ اور جس طرح تھا، وہ عمل میں آ گیا۔ جہاں یہ پروگرام عمل میں آیا اس عالم کو عالم ارواح کہتے ہیں۔
• عالم ارواح کے بعد دوسرا عالم عالم لوحِ محفوظ ہے۔ عالم ارواح کے بعد لوحِ محفوظ پر کائنات کی ہر حرکت، کائنات کا ہر لمحہ اور کائنات کے اندر جتنی نَوعیں ہیں سب کی صورتیں نقش ہو گئیں۔ ان نقوش یا فلم کا نام لوحِ محفوظ ہے۔
• پھر اس پروگرام کو اللہ کے قانون کے مطابق حرکت ملی اور کائنات خدوخال کے ساتھ مظہر بن گئی۔ جہاں کائنات نے نَوعی اعتبار سے مَظاہراتی خدوخال اختیار کئے۔ یعنی فلم کا یکجائی پروگرام نَوعی اعتبار سے الگ الگ ہو اس عالم کو عالم مثال کہتے ہیں۔
• نَوعی پروگرام کی فلم جب انفرادی صورت میں ڈسپلے ہوئی تو اس کا نام عالمِ ناسوت ہے۔

ہر شئے ایک طرف نُزول کر رہی ہے اور دوسری طرف صَعود کر رہی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر شئے لامحدودیت سے محدودیت کی طرف سفر کر رہی ہے۔ ہرشئے اس بات کا تعارف کرا رہی ہے کہ اللہ کی ذات پاک بے نقص اور غیر محدود ہے۔ ہم اگر متغیّر اور غیر متغیّر کو الگ الگ سمجھنا چاہیں تو غیر متغیّر کا نام غیر محدودیت اور متغیّر کا نام محدودیت رکھیں گے۔ جب شئے میں تغیّر پیدا ہوتا ہے تو پہلے حدود کا قیام عمل میں آتا ہے۔ یعنی حد بندی کے بغیر کوئی شئے تغیّر کا مُظاہرہ نہیں کرتی۔
کسی شئے میں حدود کا تعین نہ ہو تو حرکت واقع نہیں ہوتی۔
مخلوق محدود ہے اور خالق تغیّر سے پاک ہے۔
تغیّر سے پاک ہونا ہر قسم کی احتیاج ہر طرح کی پابندی سے آزاد ہونا ہے۔
لامحدودیت خالق کی صفَت ہے اور محدودیت مخلوق کا وصف ہے۔

علم الیقین عین الیقین
عزیزان گرامی قدر!
آپ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ ہر شئے کی بنیاد لامحدودیت ہے اور ہر شئے لا محدودیت سے نُزول کرکے محدودیت میں مُظاہرہ کرتی ہے۔ کائنات اور ہر فرد محدود دائرے میں اس بات کا تعارف کراتا ہے کہ اللہ کی ذات غیر محدود ہے۔
حد بندی تخلیق میں ہے لیکن خالق لامحدود اور لاتغیّر ہے۔

اللہ کا ارادہ (نقطۂ وحدانی) جب متحرّک ہوتا ہے تو خلاءِ نور کو نور کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ اللہ کا ارادہ جس نے ’’کُن‘‘ کہہ کر کائنات تخلیق کی، کسی سبب کی احتیاج نہیں رکھتا کیونکہ اللہ تعالیٰ خود خالق ہیں۔ انہیں بحیثیت خالق کے کسی سبب یا وسیلہ کی احتیاج نہیں ہے۔
خلاءِ نور میں وسائل و اسباب موجود نہ ہونے کے باوجود اللہ نے جب ’’کُن‘‘ فرمایا تو ’’کُن‘‘ کہتے ہی خلاءِ نور میں شکلیں اور صورتیں بن گئیں۔ اس حقیقت سے یہ بات منکشف ہوئی کہ خلاءِ نور اور خالق کا ارادہ ایک ہی حقیقت ہیں اور یہی حقیقت کائنات کی تعمیر کی بنیاد ہے۔ قرآن پاک میں اس حقیقت کو تَدلّیٰ کا نام دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
یہ تو حکم ہے بھیجا ہوا
جس کی طاقت زبردست ہے
اصلی صورت پر نمودار ہوا
جب وہ افق اعلیٰ پر تھا
نزدیک آیا اور پھر اور نزدیک آیا، جھکا
دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا، بلکہ کم
پھر وحی کی اللہ نے اپنے بندے پر جو چاہا
جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا دل نے۔
(حوالہ: سورۃ النجم 4 سے 11)

یہ وہ مشاہدات و کیفیات ہیں جو معراج کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام پر منکشف ہوئیں۔ ان آیات میں، اُن حقائق اور اعلیٰ مَراتب کا تذکرہ ہے جو حقائق اور اعلیٰ مراتب حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو براہِ راست اللہ سے حاصل ہوئیں۔

علمِ لَدُنّی کے تین شعبے ہیں۔
۱۔ ایک حصّہ اجمال
۲۔ دوسرا حصّہ تفصیل
۳۔ تیسرا حصّہ اَسرار
علمِ لَدُنّی میں جس حصے کو اَسرار کہا جاتا ہے، اس کی تعلیمات اللہ تعالیٰ خود دیتے ہیں۔
اَسرار تجلّیات کے علوم کے حقائق ہیں۔ یہی حقائق علمُ القلم ہیں۔
علمُ القلم علوم کا وہ باب ہے جو لوحِ محفوظ سے پہلے ہے۔ لوحِ محفوظ انہی علوم کا عکس ہے۔ یہ علوم لوحِ محفوظ کے احکامات پر اوّلیت رکھتے ہیں۔ علمُ القلم جاننے والا کوئی بندہ جب احکامات صادِر کرتا ہے تو وہ تمام احکامات لوحِ محفوظ پر نقش ہو جاتے ہیں اور لوحِ محفوظ کے نقوش ہی نُزول کرکے کائنات بنتے ہیں اور کائنات کے خدوخال میں ظاہر ہوتے ہیں۔

اس بات کو سیّدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے اپنی دعاؤں میں بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی ایک دعا یہ ہے۔
یا اللہ!
میں تجھے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کِیا …. یا مجھ سے پہلوں پر ظاہر کِیا …. اور میں تجھے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جو تو میرے بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔
یہ الفاظ بہت زیادہ غور طلب ہیں کہ جو تو میرے بعد کسی پر ظاہر کرے گا …. یہ نام اللہ تعالیٰ کی ان صفات و کمالات پر مشتمل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہیں۔ یہی صفات و کمالات اللہ کے شَعائر اور تجلّیات ہیں۔
یہ علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد ’’اَبداء‘‘ سے پہلے ہے۔
اس مرتبہ کی معرفت …. تخلیق و تکوین کی صلاحیتیں عطا کرتی ہے۔
مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے ہر نام میں لاشمار کمالات جمع ہیں۔ کمالات خلاءِ نور سے صادِر ہو کر لوح محوظ کی زینت بنتے ہیں، یا لوحِ محفوظ پر نقش و نگار بن کر ابھرتے ہیں۔ یہی لوحِ محفوظ کے نقش و نگار لوحِ محفوظ سے نُزول کرکے عالمِ خلق میں ظاہر ہوتے ہیں۔
خلاءِ نور، وراءِ بےرنگ ہے۔ وراءِ بےرنگ سے نفی یا عدم مراد نہیں …. وہ عدم نور مراد ہے جو نورانیت کے قانون کی دستاویز ہے …. جو قانونِ نورانیت کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک طرح کا لطیف ترین جلوہ ہے اور اس ہی جلوہ سے نور کی تخلیق ہوتی ہے۔

خلاءِ نور اللہ کی ذات نہیں ہے …. خلاءِ نور ورائے بے رنگ ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ وراءُ الوراءِ بے رنگ ہے۔
مفہوم یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ کی ذات کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی ہستی کو کسی بھی طریقے سے الفاظ میں محدود نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بیان الفاظ، وہم و تصوّر اور ہر طرزِ فہم سے بالاتر ہے۔

انسان جب اللہ تعالیٰ سے متعارف ہوتا ہے تو متعارف ہونے کی دو طرزیں ہیں:
• ایک طرز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعارف ہوتا ہے۔
• دوسری طرز یہ ہے کہ انسان اللہ کی ذات سے متعارف ہوتا ہے۔

کوئی انسان جب صفات سے متعارف ہوتا ہے تو اللہ کو اللہ کی صفات میں دیکھتا ہے اور اللہ کی صفات میں اللہ کو دیکھنا کسی نہ کسی پردہ میں دیکھنا ہے۔
اس کے برعکس جب کوئی بندہ اللہ کو اللہ کی ذات میں دیکھا ہے تو محض فکرِ وَجدانی سے اللہ کی قربت کو محسوس کرتا ہے۔
فکرِ وَجدانی سے قربت کو محسوس کرنے والا بندہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو الفاظ یا کسی قسم کے خدوخال میں بیان نہیں کر سکتا۔
فکرِ وَجدانی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں انسان تجلّیِٔ ذات کا مشاھدہ کر لیتا ہے۔
تجلّیِٔ ذات کو دیکھا اور اللہ کی ذات کو دیکھنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔
یعنی جب کوئی بندہ …. ذات کو دیکھتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی تجلّیِٔ کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ اس مقام میں اللہ تعالیٰ سے گفتگو کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
یہ بات پھر غور طلب ہے کہ اللہ سے گفتگو براہِ راست ذاتِ باری تعالیٰ سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ سے گفتگو بھی تجلّیِٔ ذات کی معرفت ہوتی ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد ہے۔
مجھ سے اللہ کو پہچاننے کا حق پورا نہیں ہوا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ
یا اللہ! رفیقِ اعلیٰ سے ملا دے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے ارشادِ عالی کا مطلب یہ ہے کہ:
کوئی بندہ براہِ راست نہ تو اللہ کو دیکھ سکتا ہے اور نہ اللہ سے گفتگو کر سکتا ہے۔
اللہ کو دیکھنا، اللہ سے گفتگو کرنا، اللہ کی قربت کو محسوس کرنا …. تجلّیِٔ ذات کی معرفت سے ہوتا ہے۔

ہم جب آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں آئینے کے اندر اپنا عکس نظر آتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں جب کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جب تک آئینہ ہمیں دیکھ کر اپنے اندر عکس محفوظ نہ کرے ہم آئینہ نہیں دیکھ سکتے۔ یعنی کوئی بھی شخص آئینے کو نہیں دیکھتا بلکہ ہر شخص آئینے کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔
بالکل یہی صورتحال براہِ راست حواس کی ہے۔
ہم جب کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو پہلے وہ شئے انسان کے مشاہدے میں داخل ہوتی ہے پھر شئے کے اندر فہم اور شعور ابھرتا ہے، جو شئے کے تعارف کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک شئے مشاہدے میں داخل نہ ہو یا شئے کی فہم …. شعور میں منتقل نہ ہو …. ہم کسی شئے میں معانی نہیں پہنا سکتے۔
مثلاً جب سورج کہا جاتا ہے تو سننے والا اپنے داخل میں سورج کو محسوس کرتا ہے۔ اسکے بعد شعوری طور پر سورج کے معانی اور مفہوم متعیّن ہوتے ہیں۔ ہم روزانہ جو سورج دیکھتے ہیں وہ سورج داخل کے اندر موجود سورج سے مختلف ہے۔ نہ صرف یہ کہ مختلف ہے بلکہ جس طرح ہم سورج کو دیکھتے ہیں …. اگر ہم روحانی واردات و کیفیات میں سورج کا مشاہدہ کریں تو سورج بالکل اِس سورج کے برعکس نظر آتا ہے۔ آنکھ جب سورج کو دیکھتی ہے تو سورج کے اندر شعاعیں اور روشنیاں پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ سورج دیکھنے کے بعد یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ سورج کے اندر حرارت اور گرمی ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔

جب ہم اپنے سیارے کو دیکھتے ہیں تو سیارے میں روشنیوں کو سورج کی روشنیاں قرار دیتے ہیں جب کہ روحانی آنکھ دیکھتی ہے کہ ہر سیارہ بذات خود ایک روشنی ہے اور سیارہ جب سورج کے سامنے ہوتا ہے تو سیارے کی روشنی سورج پر پڑتی ہے۔
سورج کے اندر ظاہری آنکھ سے جو تیزی نظر آتی ہے وہ دراصل زمین یا کسی سیارے کا عکس ہے۔
ہم جب سورج کو ظاہری اسباب سے ہٹ کر مشاہدہ کرتے ہیں تو …. تمام دنیا میں انسان سورج کے بارے میں سوچتے یا سنتے ہیں …. اُن سب کو سورج ایک ہی طرح محسوس ہوتا ہے۔ لیکن روحانی آنکھ جس طرح سورج کو دیکھتی ہے وہ ایسی حقیقت ہے جس میں تغیّرنہیں ہوتا۔ روحانی دنیا میں بسنے والا ہر انسان سورج کو ایک ہی طرح دیکھتا ہے اور اس میں کبھی تغیّر نہیں ہوتا۔
یہی صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب ہم ایسی چیز کا نام سنتے ہیں جس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ نام سننے کے بعد اُس اَن دیکھی شئے کا کوئی نہ کوئی تصوّر ذہن پر ضرور ابھرتا ہے۔
خدا کو کسی نے نہیں دیکھا لیکن جب کوئی بندہ خدا کا نام سنتا ہے تو اسکے داخل میں ایک حقیقت ضرور وارِد ہوتی ہے۔ ایسی حقیقت جس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مثلاً ایک آدمی خدا کے وُجود کو انکار کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انکار کس چیز کا کِیا جا رہا ہے۔
اللہ ایک حقیقتِ ثابِتہ ہے جو انسان کے اندر داخل ہوتی ہے اور شعور اس حقیقت کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس حقیقت کے معانی و مفہوم اگر شعور میں پوری طرح واضح نہیں ہوتے تو انسان خدا کا انکار کر دیتا ہے۔ اصل میں وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ جس خدا کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس خدا کو شعوری فہم تسلیم نہیں کرتی۔

بہرحال براہِ راست دیکھنے کی طرز میں ….
• کائنات ایک نقطہ ہے …. جس کے اندر کائنات ہی نہیں وراءِ کائنات بھی ہے …. یہی محسوس نقطہ عَینُ الیقین ہے …. لیکن
• جب اس نقطے میں وراءِ کائنات بھی داخل ہو جاتا ہے تو اس کیفیت کو حقُ الیقین کہا گیا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 238 تا 245

شرحِ لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - تعارف 0.02 - انتساب 0.03 - پیش لفظ 01 - لیکچر 1 – علم حُضوری، علم حُصولی 02 - لیکچر 2 – ثابِتہ اَعیان جوَیّہ 03 - لیکچر 3 – لوحِ محفوظ 04 - لیکچر 4 – مُغَیَّباتِ اَکوان 05 - لیکچر 5 – کثرت کا اجمال 06 - لیکچر 6 – اِدراک اور وَجدان 07 - لیکچر 7 – نیابت و خلافت 08 - لیکچر 8 – کُن فیکون 09 - لیکچر 9 – تجلّیات, اجمال 10 - لیکچر 10 – حواس کی رفتار 11 - لیکچر 11 – اندر کی آواز 12 - لیکچر 12 – لاعلمی بھی علم ہے 13 - لیکچر 13 – قوتِ اِلقاء 14 - لیکچر 14 – نسبتِ عِلمیہ 15 - لیکچر 15 – شخصِ اکبر 16 - لیکچر 16 – آدم کا شرف 17 - لیکچر 17 – قضا و قدر 18 - لیکچر 18 – تصرف اور علمِ شئے 19 - لیکچر 19 – معجزہ، کرامت، اِستدراج 20 - لیکچر 20 – الہامی کتابیں 21 - لیکچر 21 – روشنی کی قسمیں 22 - لیکچر 22 – ازل تا قیامت 23 - لیکچر 23 – نسبتِ یادداشت 24 - لیکچر 24 25 - لیکچر 25 26 - لیکچر 26 27 - لیکچر 27 28 - لیکچر 28 29 - لیکچر 29 30 - لیکچر 30 31 - لیکچر 31 32 - لیکچر 32 33 - لیکچر 33 34 - لیکچر 34 35 - لیکچر 35 36 - لیکچر 36 37 - لیکچر 37 38 - لیکچر 38 39 - لیکچر 39 40 - لیکچر 40
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)