لیکچر 27
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56598
برزخ و اعراف
اللہ تعالیٰ نے جب گوناں گوں اور بے خبری کی صورت کو ختم کرنا چاہا تو کائنات کو مخاطب کِیا۔
جیسے ہی کائنات کی سماعت سے اللہ تعالیٰ کی آواز ٹکرائی، سماعت کی حِس پیدا ہو گئی۔ سماعت میں حرکت پیدا ہونے کے بعد کائنات میں کسی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت بیدار ہو گئی۔
جیسے ہی متوجہ ہونے کی صفَت میں حرکت ہوئی، کائنات نے آواز دینے والی ہستی کی طرف دیکھا۔ نگاہ کھلنے کے بعد اور اپنے علاوہ ایک اور ہستی کو دیکھا تو دو رخ منکشف ہوئے۔
۱۔ ایک رخ تخلیق
۲۔ دوسرا رخ خالق
ان دونوں رخوں کا تعین عالمِ امر ہے۔ عالمِ امر میں جو کچھ ہوا یا نگاہ نے جو دیکھا اس میں چونکہ خود تخلیق اور خالق مُفرِد ہستیاں ہیں اسلئے عالمِ امر کی تمام حرکات مُفرِد قرار پائیں۔ عالمِ امر میں دو حرکات ہیں جن میں کوئی رنگ نہیں ہے اور یہ دونوں حرکات نفی ہیں۔ یعنی ایسا عالم جس عالم میں بے خبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
یہ دونوں عالم لطیفۂِ خَفی اور لطیفۂِ اخفیٰ سے متعلق ہیں۔
• لطیفۂِ اخفیٰ عالمِ امر خاص ہے …. اور
• لطیفۂِ خَفی عالمِ امر عام۔
• لطیفۂِ خَفی (عالمِ امر عام) تخلیق کی بِساط ہے …. اور
• لطیفۂِ اخفیٰ (عالمِ امر خاص) خالق کی ذات ہے۔ عالمِ امر خاص خَفی سے کشف ہوتا ہے۔
• لطیفۂِ خَفی کائنات کا ریکارڈ ہے اور لطیفۂِ اخفیٰ تجلّیات کا ریکارڈ ہے۔ یہ دونوں لطائف مَوجودات کی اصل ہیں۔
• اخفیٰ کسی نَوع کے تمام افراد کی اصل ہے۔
اس کی مثال درخت کا بیج ہے۔ ہم جب درخت کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارا ذہن درخت کی نَوع اور اس نَوع کی اصل کی طرف جاتا ہے۔ تو ہم جب زمین میں بیج ڈالتے ہیں بیج درخت بن جاتا ہے۔ یہ بیج اس درخت کی اصل ہے لیکن ہم جب درخت کی پوری نَوع کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بیج کا تذکرہ کرنا پڑے گا جو سب سے پہلے بویا گیا تھا۔ وہی ایک بیج ہزاروں لاکھوں درختوں سے گزر کر آج بھی درخت بن رہا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ آم کے درخت کی نَوع اور اس نَوع کے تمام افراد کی اصل وہ بیج ہے جو زمین میں بویا گیا تھا اس بیج کے نسمے میں ایسی حرکت ہے جو آغاز بھی رکھتا ہے اور جس کا انجام بھی ہے۔ یہ حرکت آغاز سے انجام کی طرف گریز کر رہی ہے ہر نَوع کا پہلا بیج نَوع کا پہلا فرد ہے۔
• نوع کے ہیولے کی پہلی حرکت اخفیٰ ہے …. اور
• نَوعی ہیولے کی دوسری حرکت خَفی ہے۔
• اخفیٰ کی نگاہ ہمیشہ پردے کے پیچھے دیکھتی ہے …. اور
• خَفی کی نگاہ پردے کے اوپر دیکھتی ہے۔
پردے کے پیچھے دیکھنے سے مراد تخلیق سے باہر غیب میں دیکھنا ہے اور پردے کے اوپر دیکھنے سے مراد عالم مَظاہر میں دیکھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے۔ آسمانوں اور زمین کو وہی حیات دیتا ہے۔ وہی موت دیتا ہے۔ وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے آسمان اور زمین کو چھ روز میں بنایا۔ پھر تخت پر قائم ہوا۔ وہ سب جانتا ہے جو زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور جو چیز اس سے نکلتی ہے، جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور اس میں چڑھتی ہے۔ وہ دانا اور بینا ہے۔ وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے وہ ہر آن ہر لمحہ اپنی مخلوق کے ساتھ رہتا ہے۔ مخلوق کسی بھی سیارے کی ہو یا کسی بھی زمین کی ہو وہ سب کو دیکھتا ہے۔ جو کچھ مخلوق کرتی ہے اسکے علم میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی حکمرانی پر اللہ محیط ہے اور جو چیز زمین و آسمان میں موجود ہے وہ سب اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر تفکر کیا جائے تو بہت ساری باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ موجود ہے پاکی بیان کرتے ہیں مفہوم یہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو شعور نہ رکھتی ہو مخلوق نہ صرف اپنی ذات کا شعور رکھتی ہے بلکہ یہ بھی جانتی ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں موجود ہر چیز اللہ کی پاکی اور عظمت بیان کرتے ہیں۔ اللہ کی حکمرانی سب پر ہے اسکے قبضے اور قدرت میں پیدائش اور موت ہے۔ کوئی پیدا ہونے والی چیز اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ ایک دن اسے موت کا مزا چکھنا ہے۔ جب کہ ہر نفس اور ہر ذی شعور یہ چاہتا ہے کہ اسکے اوپر موت وارِد نہ ہو لیکن موت آ جاتی ہے۔ موت کا وارِد ہونا جب لازم بن گیا تو مَوجودات کے ہر فرد کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس کو سہارا دینے والا اور پیدا کرنے والا، اس عالم سے دوسرے عالم میں منتقل کرنے والا اللہ ہے۔
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا اور تخت پر قائم ہوا۔
نُزول و صَعود کے سات درجے ہیں۔
اللہ جانتا ہے کہ جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے یعنی نُزول کرتی ہے۔
اللہ جانتا ہے جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز اس میں چڑھتی ہے یعنی صَعود کرتی ہے۔ آسمانوں سے زمین پر آنا اور زمین سے آسمانوں پر چڑھنا نُزول و صَعود کی دو حالتیں ہیں۔ جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں سب اللہ کی سلطنت ہے۔ یعنی ہر چیز اللہ کی دسترس میں ہے۔
زندگی کا ہر لمحہ ایک طرف نُزول ہے تو دوسری طرف صَعود ہے۔ نُزول و صَعود میں سفر کرنے کے لئے اولیاء اللہ نے چھ رخ متعین کئے ہیں ہر رخ ایک حرکت ہے۔ ان چھ رخوں یا چھ حرکتوں کا نام لطائف ستہ ہے۔
۱۔ لطیفۂِ اخفیٰ
۲۔ لطیفۂِ خفی
۳۔ لطیفۂِ سِرّی
۴۔ لطیفۂِ روحی
۵۔ لطیفۂِ قلبی
۶۔ لطیفۂِ نفسی
ہر نَوع میں ہر حرکت ایک طول رکھتی ہے۔ ان چھ حرکات میں سے تین حرکات نُزولی اور تین صَعودی ہیں۔ تین نُزولی حرکات کے مقابل دوسرے رخ پر تین صَعودی حرکات بیک وقت وقوع میں آتی ہیں۔
اخفیٰ کی بے رنگی تمام رنگوں کی اصل ہے اور یہ بے رنگی سِرّ میں پہنچنے کے بعد یک رنگ ہو جاتی ہے۔
سِرّ کی ایک رنگی اپنے اندر تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ سِرّ کے بعد یہ حرکت ایک طول اور طے کرتی ہے جیسے ہی یہ طول طے ہوتا ہے یک رنگ کے اندر سب رنگ بکھر جاتے ہیں۔ جن حدود میں یہ رنگ منتشر ہوتے ہیں۔ ان حدود کا ایک رخ قلب(تصوّر) ہے۔ دوسرا رخ نفس (احساس) ہے۔ تصوّر، نفس اور احساس کے رنگوں کے مجموعے کا نام مظہر ہے۔
یہ قانون صرف نوعِ انسانی کے لئے نہیں ہے۔ ہر نَوع کے لئے مخصوص ہے۔ وہ انسان کی نَوع ہو۔ فرشتوں یا جنات کی نَوع ہو یا کسی بھی سیارہ کی نَوع ہو سب کے لئے یہی قانون نافذ ہے۔
حرکت میں بے رنگی زمان ہے۔ لیکن یک رنگی کا بہت سارے رنگوں میں بکھرنا شعور ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ….
• جب زمان (Time) سطح پرہوتا ہے تو مکان (Space) عُمق میں ہوتا ہے …. لیکن
• مظہر کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد زماں عُمق میں چلا جاتا ہے اور مکان سطح پر آ جاتا ہے۔
• اخفیٰ سے مظہر کی طرف جو حرکت واقع ہوتی ہے نُزولی حرکت ہے …. لیکن
• جب مکان سطح پر آ جاتا ہے تو حرکت صَعودی ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت لطیفۂِ نفسی سے روح کی طرف صَعود کرتی ہے اور روح سے خَفی کی طرف صَعود کرتی ہے۔
• لطیفہ قلبی اور لطیفۂِ نفسی کی اجتماعیت عالمِ ناسوت ہے۔
• لطیفۂِ روحی …. صَعودی اور نُزولی حرکت کے درمیان ایک پردہ ہے۔ اس عالَم کو اَعراف یا برزخ کہتے ہیں۔ نُزول سے زمین پر آنے سے پہلے جس عالم یا جس پردے پر قیام ہوتا ہے وہ پردہ لطیفۂِ روحی ہے۔ اس کو برزخ کہتے ہیں۔ مظہر کے بعد جب صَعودی حرکت شروع ہوتی ہے تو بیچ میں ایک پردہ آتا ہے اس عالم کو اَعراف کہتے ہیں۔
• لطیفۂِ خَفی کتابُ المَرقُوم ہیں۔ یعنی انسان جو کچھ کرتا ہے اسکے اعمال کا ریکارڈ تمام حرکات و سکنات کی دستاویزی فلم ہے۔ یہ فلم ہی دراصل حشر نشر کی منزل ہے۔
یہ سب انسانی زندگی کے سات قدم ہوئے۔ ان سات قدموں میں ہر قدم ایک عمر یا شعور ہے اور ساتوں قدم پر انسان نُزول و صَعود کی حرکات پوری کرتا ہے۔
ان ساتوں قدموں یا عمروں کے دو نام ہیں۔
• عالمِ رنگ یا عالمِ ناسوت
• دوسرا عالم حشر نشر
ان دونوں منزلوں کے درمیان دو مرحلے اور پڑتے ہیں۔
• لوحِ محفوظ اور عالمِ ناسوت کا درمیانی مرحلہ عالم مثال ہے۔
• عالمِ ناسوت اور حشر نشر کا درمیانی مرحلہ عالم برزخ اور عالم اَعراف ہے۔ نُزولی مرحلہ عالم بزرخ اور صَعودی مرحلہ اَعراف ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 232 تا 237
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔