لیکچر 19 – معجزہ، کرامت، اِستدراج
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=50056
معجزہ، کرامت، اِستدراج
طرزِ فکر میں اگر رحمانی علوم کا غلبہ ہے اور انسانی شعور علم نبوت کے زیر اثر کوئی عمل کرتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں کوئی خرقِ عادت صادِر ہوتی ہے اسے کرامت کہتے ہیں۔
اگر یہی عادت کسی نبی سے سرزد ہوتی ہے تو اس کا نام معجزہ ہے۔
لیکن اگر یہی خرقِ عادت کسی ایسے انسان سے صادِر ہوتی ہے جس انسان کے شعور میں رحمانی علوم کا غلبہ نہیں ہے اور طرزِ فکر میں شکوک و شبہات اور وسوسوں کی دنیا آباد ہے تو اس کا نام جادو ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
فرعون کا دربار لگا ہوا ہے۔
ایک طرف فرعون کے پَروردہ کاہن اور نجومی کھڑے ہیں۔ دوسری طرف ایک فردِ واحد، اللہ کا پیامبر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہیں۔
جادوگر رسیاں اور بانس پھینکتے ہیں تو خرقِ عادت کا ظہور ہوتا ہے۔ رسیاں سانپ اور بانس اژدھے بن جاتے ہیں۔ اور جب موسیٰ علیہ السلام اپنا عصا پھینکتے ہیں تو یہ عصا ایک بڑا اژدھا بن کر فرعون کے دربار میں دوڑتے ہوئے بے شمار سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیتا ہے۔
فرعون کے دربار میں موجود تمام کاہن اور جادوگر جب اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کے پیشِ نظر فرعون کی خوشنودی ہے اور اس فن کے مظاہرے میں دنیاوی لالچ اور فرعون سے قربت کا احساس ہے۔ اس کے برعکس موسیٰ علیہ السلام نے جب معجزہ دکھایا تو ان کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ میں بہت بڑا فن کار ہوں، انہیں انعام کا لالچ نہیں تھا۔ ایک فردِ واحد بہت بڑے دربار میں سینکڑوں جادوگروں کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں صرف یہ بات ہے کہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔
اس واقعے سے روحانیت اور اِستدراج کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔
- اگر خرقِ عادت میں دنیاوی لالچ اور اللہ کی دوری کے عناصر موجود ہیں تو وہ جادو یا اِستدراج ہے، اور
- اگر خرقِ عادت میں محض اللہ کی خوشنودی ہے تو معجزہ یا کرامت ہے
سوال یہ ہے کہ اِستدراج، جس کا نام ہم تخریب کے علاوہ کچھ نہیں رکھ سکتے، کیسے وُجود میں آیا؟
آپ جانتے ہیں کہ :
کائنات کی اصل… تجلّی ہے
کائنات کی شروعات تجلّی سے شروع ہوتی ہے، اور
تجلّی کائنات کے ہر ذرے میں گشت کرتی رہتی ہے، اور اس طرح گشت کرتی ہے کہ شئے کے محدود ترین مرکز سے بھی گزرتی ہے۔ شئے کے محدود ترین مرکز یا خول سے مراد یہ ہے کہ کائنات میں جتنی تخلیقات ہیں اور کائنات میں جتنے عناصر ہیں اور ان عناصر میں جتنے ذرات ہیں ہر ذرے میں اللہ تعالیٰ کی تجلّی گشت کر رہی ہے۔
اللہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض (سورۃ نور – 35)
کائنات کے ہر ذرّے میں مستقل و متواتر حرکت ہو رہی ہے۔ اگر حرکت کو کائنات کے ذرّات سے گزرتے وقت کوئی ناپسندیدہ عمل پیش آ جائے تو اس کے اندر ایک طوفانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے یعنی حرکت میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ عدم توازن سے معیّن مقداروں میں تحیر واقع ہونے لگتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام میں تحیر واقع ہو رہا ہے، تحیر کے اثر کی وجہ سے کوئی نہ کوئی تخریبی اثر مُرتّب ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم کے اندر خون دَور کرتا رہتا ہے۔ فکر اور خیالات کا اثر براہِ راست انسانی جسم پر پڑتا ہے۔
خیالات میں اگر کثافت اور بیزاری ہے تو خون میں اس کا اثر مُرتّب ہوتا ہے۔ ایک آدمی سڑی ہوئی غذائیں استعمال کرتا ہے یا ایک آدمی ایسے خیالات میں زندگی گزارتا ہے جو خیالات خود اس کے ضمیر کو ملامت کرتے ہیں تو اس حال میں شعوری واردات و کیفیات اور جسمانی نظام ضرور متاثر ہوتا ہے۔
تجلّی میں وسوسے شامل کر دیئے جائیں تو اس کی قوتیں خیر کے برعکس تخریب میں کام کرنے لگتی ہیں۔
سادھو جب جسم پر راکھ مل کر جسم کے مسامات بند کر لیتا ہے…. جِلدی مسامات بند ہونے سے جسم کے اندر دَور کرنے والی لطیف روشنیاں، کثیف ہو کر رقیق بن جاتی ہیں۔ یہی کثیف روشنیاں اور یہی تعفّن ایک جسم سے منتقل ہو کر دوسرے جسم میں بہنے لگتا ہے۔ وہاں یہ کثیف روشنیاں اپنی تاثیر پیدا کر کے تخریبی سرگرمیوں (اِستدراج) میں عمل کرنے لگتی ہیں۔
ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عبادت کا تعلق جسمانی اعضاء سے نہیں ہے، عبادت کا تعلق ذہن سے ہے۔
جب عبادت کا تعلق ذہن سے ہے تو غسل اور وضو کیوں ضروری ہے؟
عبادت کرنے سے پہلے غسل یا وضو اس لئے ضروری ہے کہ وضو کرنے سے ہماری طرزِ فکر میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ اس پاکیزگی سے طبیعت شگفتہ ہو جاتی ہے اور شگفتگی عبادت میں اِنہماک پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
کشش کا قانون
تجلّی نے جب نُزول کیا تو نور میں جلوہ گر ہوئی…. اور نور تنزّل کر کے روشنی یا مظہر بن گیا۔
یہ سلسلہ ازل سے ابد تک جاری ہے۔
- نوعوں کا اجتماعی پروگرام جس نقطے پر مرکوز ہے اس نقطے کا نام شخصِ اکبر ہے…. اور
- جب یہ اجتماعی پروگرام نَوعی شکل میں الگ الگ متحرّک ہوتا ہے…. تو اس کا نام شخصِ اصغر ہے۔
ہر نَوع معیّن مقداروں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ معیّن مقداروں کے ساتھ زندہ رہتی ہے اور معیّن مقداروں کے ساتھ فنا ہو جاتی ہے۔
- معیّن مقداریں اگر شخصِ اکبر سے متعلق ہیں تو ہر نَوع کی زندگی اجتماعی نقطے (شخصِ اکبر) سے وابستہ ہے…. اور
- نَوع کے افراد کا تعلق شخصِ اصغرسے ہے….
جب ہم نَوعی اعتبار سے نَوع کے افراد کا مطالعہ کرتے ہیں اور نَوعی زندگی میں تقاضوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ :
- ہر نَوع میں جذبات مشترک ہیں….
- زندگی کے اعمال و اشغال اور جسمانی تقاضے مشترک ہیں۔
تقاضوں میں یکسانیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ساری کائنات کسی ایک نقطے میں بند ہے۔
انسان فی الواقع اطلاع کا مظہر ہے …. اور اطلاع علم ہے۔ یعنی کائنات ایک علم ہے اور یہ علم چار شعوروں پر پھیلا ہوا ہے۔
Summary:
1) کائنات کا لاشعور
2) کائنات کا شعور
3) کائنات کا ارادہ
4) کائنات کی حرکت
- کائنا ت کا لاشعور تجلّی ہے…. اور
- کائنات کا شعور تجلّی کی صفَت ہے…. اور
- تجلّی کی صفَت ارادہ ہے ….اور
- ارادے میں حرکت مظہر ہے
یہ چاروں شعور کائنات کی اصل ہیں۔
جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں نے لکھا …. یا کہتے ہیں کہ ہم نے کھانا کھایا …. ہم وہاں گئے …. یہاں آئے ….
یہ گفتگو کا انداز اگر صحیح ہوتا تو ہم کہتے ….کھانا میرے منہ نے کھایا …. تحریر میرے ہاتھ نے لکھی …. سفر میرے پیروں نے کیا …. رائج گفتگو کو ہم کسی بھی طرح حقیقی گفتگو نہیں کہہ سکتے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے برائی اور بھلائی کا خالق فی الواقع اللہ ہے۔ لیکن اللہ کے اوپر کسی فعل کے حدود کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس لئے…. جس طرح اللہ نے تخلیق کی ہے اس ہی طرح انسان کو برائی یا بھلائی اخیتار کرنے کا ارادہ بھی عطا کیا ہے۔
اس کی مثال آدم کا قصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آدم کو جنّت میں رکھا اور Time and Space کی حد بندیوں سے آزاد کر دیا۔ جنّت میں موجود شجرِ ممنوعہ رکھا اور سمجھا کر یہ بات فرمائی کہ اس درخت کے قریب نہ جانا۔ اللہ تعالیٰ نے ممانعت کرنے سے پہلے آدم کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ شجر ممنوعہ کے قریب جائے یا نہ جائے۔ ایسی صورت میں برائی یا بھلائی سرزد ہونا آدم کا ذاتی وصف ہے۔
یہ علم اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ کائنات میں کوئی چیز اللہ سے باہر نہیں ہے۔
ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے علم کا ایک ریکارڈ ہے…. اِس ریکارڈ کو پڑھ لینا…. اِس ریکارڈ سے واقفیت حاصل کر لینا…. اللہ کی معرفت ہے۔
اللہ کی معرفت اللہ کی طرح قدیم ہے…. جس طرح اللہ کی موجودگی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اسی طرح اللہ کی صفَت قائم ہے اور قائم رہے گی۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت اللہ کا علم ہے اور جب اللہ کی صفَت ارادہ کر کے حرکت بن جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا حکم بن جاتی ہے۔
- اللہ تعالیٰ کی صفَتِ علم کو علمُ القلم…. اور
- اللہ کی صفَتِ حکم کو لوحِ محفوظ کہتے ہیں….
یہ دونوں ریکارڈ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کائنات کی ابتداء اور کائنات کی انتہا غیب کے اوپر قائم ہے۔
تمام احکامات خدوخال کے ساتھ عالم غیب میں موجود ہیں اور یہ احکامات اللہ تعالیٰ کی مشئیت اللہ تعالیٰ کی صفَت اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق مادی دنیا میں نازل ہوتے رہتے ہیں۔
چار شعوروں کو چار نہریں بھی کہتے ہیں۔ ان چار نہروں کے مقامات یہ ہیں۔
1) نہرِ تَسوید کی حدود …. عالمِ لاہوت
2) نہرِ تَجرید کی حدود …. عالمِ جبروت
3) نہرِ تَشہید کی حدود …. عالمِ ملکوت
4) نہرِ تَظہیر کی حدود …. عالمِ ناسوت
عالمِ لاہوت وہ مقام ہے جس میں ….
- اللہ تعالیٰ کا علم…. غیب کی شکل وصورت میں موجود ہے….
- اِس مقام میں ایسے لاشمار دائرے ہیں جو خفیف ترین نقطے سے دائرے کی شکل میں توسیع اختیار کر کے پوری کائنات پر محیط ہوتے ہیں….
- عالمِ لاہوت کو تجلّی یا دائرۂِ تجلّی بھی کہا جاتا ہے….
- تجلّی کا ہر لفظ جب دائرہ بنتا ہے تو پہلے ہر نقطے کے دائرے سے بڑا ہوتا ہے….
- تجلّی کے یہ بے شمار دائرے کائنات کی تمام اصلوں کی بنیاد ہیں….
- تجلّی کے انہی دائروں سے کائنات نَوعوں کی شکل میں تبدیل ہوتی ہے….
- اس دائرے کو غیبُ الغیب کہتے ہیں….
تخلیق کی اصل روح ہے اور روح کی اصل تجلّی ہے۔
- غیب الغیب کی بنیاد نہر تسوید ہے۔ جسے عالم لاہوت کہا جاتا ہے…. اور
- جب کائنات کی ماہیت خدوخال میں منتقل ہو جاتی ہے تو اس عالم کو نہر ِتجرید یا عالمِ جبروت کہتے ہیں۔
- عالم جبروت کے اندر مقیم نَوع یا افرادِ کائنات کی صفات نُزول کرتی ہیں تو الگ الگ ایک شعور بن جاتی ہیں۔
- اسی دائرہ شعور کا نام نہر تشہید یا عالم ملکوت ہے۔
- عالم ملکوت کے اندر خدوخال اپنی حدوں سے جب نُزول کرتے ہیں یا عالم ملکوت سے باہر آ جاتے ہیں تو عالم محسوسات کی بنیاد پڑ جاتی ہے اس مقام کو عالم ناسوت کہتے ہیں۔
لطائف کے تذکرے میں لطیفوں کے مقام کا تذکرہ ہوا ہے۔
- لطیفۂِ نفسی ناف کے مقام پر
- لطیفہ قلبی قلب کے مقام پر
- لطیفۂِ روحی سینے کے وسط میں
- لطیفۂِ سِرّی دائیں پستان کے نیچے
- لطیفۂِ خَفی پیشانی میں اور
- لطیفۂِ اخفیٰ ام الدماغ کے مقام پر ہے۔
اگر ان لطیفوں کو اللہ کی صفَتِ علم کے ساتھ مشاہدہ کیا جائے تو سارے لطائف دائروں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح گھڑی میں اسپرنگ ہوتا ہے۔ اسپرنگ کی خاصیت یہ ہے کہ اسے اکٹھا کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ سمیٹ کر کم سے کم کر لیا جاتا ہے اور اسے پھیلا کر زیادہ سے زیادہ طویل کیا جا سکتا ہے۔
اسپرنگ کا ہر دائرہ محدود بھی ہے اور اس محدودیت کے مقابلے میں طویل ترین بھی ہے۔
انا کا فلسفہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تفکر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
جب رات کی تاریکی چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ ستارے کی چمک دیکھ کر کہا۔ یہ میرا ربّ ہے اور جب ستارہ غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا غروب ہو جانے والا، چُھپ جانے والا، گھٹ جانے والا، معبود نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ستارے سے زیادہ روشن اور چمک دار چاند کو دیکھا۔ چاند بھی غروب ہو گیا۔ اس کے بعد چاند سے زیادہ روشن سورج کو دیکھا اور یہ سوچا کہ اب تک دیکھی جانے والی چمک دار چیزوں میں سب سے زیادہ روشن سورج ہے۔ سورج بھی غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ غروب ہونے والا خدا نہیں ہو سکتا اور میں اس خدا کی طرف اپنا رخ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔
(حوالہ: سورۃ الأنعام ، آیت نمبر 76 تا 79)
اس آیت مبارکہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تغیّر پذیر شئے پرستش کے قابل نہیں ہے۔
انسانی زندگی کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کسی لمحے ٹھہرتی نہیں ہے…. ہر آن اور ہر منٹ زندگی کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔
(سورۃ یٰس، آیت نمبر 36)
ان دو قسموں کو سمجھنے کے لئے ہمیں انسان کے اندر کام کرنے والے شعوری اور لاشعوری حواس کو سمجھنا پڑے گا۔
شعوری اسباب جب زیرِ بحث آتے ہیں تو ہمارا واسطہ ہر ہر قدم پر غیر ربّ سے پڑتا ہے اور ہم زندگی گزارنے کے لئے ربّ کے علاوہ دوسری بہت ساری چیزوں سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔
اس کے برعکس ہماری زندگی کا دوسر ارخ یہ ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ہستی سے رشتہ قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی لاشعوری حواس جب غیر ربّ کی نفی کرتے ہیں اور زندگی کو بحال رکھنے کے لئے ایک مسلمہ حقیقت ہیں اور زندگی کے لئے جزو اعظم ہیں۔
آدھی زندگی شعور میں اور آدھی لاشعور میں گزرتی ہے۔
پیدائش کے بعد انسانی زندگی کا بڑا حصّہ لاشعور میں گزرتا ہے۔
بارہ سال تک کی شعوری عمر میں افہام و تفہیم نہیں ہوتی۔ آٹھ سال یا بارہ سال کی عمر تک نیند کا وقفہ شمار کیا جائے تو بیداری سے زیادہ ہے۔ انسان لاشعور میں عمر کا ایک تہائی حصّہ صرف کرتا ہے اور عمر کا باقی حصّہ شعور میں صرف کرتا ہے۔
لاشعوری زندگی کا حصّہ غیر ربّ کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا اختیار انسان کو حاصل ہے۔ اگر انسان شعوری زندگی میں رہتے ہوئے لاشعوری زندگی میں زیادہ وقت گزارے تو اسے لاشعوری زندگی میسر آ جاتی ہے۔
ترجمہ :
اے کپڑے میں لپٹنے والے ! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی دیر یا نصف رات۔ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ بےشک
(سورۃ المزمل شریف، آیت نمبر 1 سے 4 )
رات کو اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے۔
(سورۃ المزمل شریف، آیت نمبر 6)
اس آیت میں اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ شعوری زندگی میں رہتے ہوئے لاشعوری زندگی میں داخل ہو کر اللہ کی طرف متوجہ رہو اور اپنے ربّ کا نام یاد کرتے رہو۔ بے شک وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔
(حوالہ: سورۃ المزمل شریف، آیت 7 سے 9)
زندگی کا ایک وقفہ یہ ہے کہ ہم لاشعوری حواس میں بے عمل رہتے ہیں اور بیداری میں وظیفۂِ اعضاء پورا کرتے ہیں۔ ان حواس میں ہمارے اور زمان اور مکان کا غلبہ رہتا ہے۔ یعنی ہم خود کو ہر قدم پر پابند اور مقید محسوس کرتے ہیں۔ زندگی کے دوسرے وقفے نیند کی حالت میں ہمارے اوپر زمان و مکان کی پابندی ٹوٹ جاتی ہے۔
رات کو نماز قائم کرنا یا تہجد میں اٹھنا اسی طرح دعوت ہے۔ یہ وہ وقفہ ہے جو پابند شعور سے آزاد کر دیتا ہے۔
سورۃ المزمل شریف میں یہی قانون بیان فرمایا گیا ہے:
- جس طرح غیر شعوری طور پر غیر ربّ کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی تعمیر ہوتی ہے…. اسی طرح
- شعوری طور پر غیر ربّ کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے ….
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 153 تا 161
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔