لیکچر 35

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56685

دائرہ اور مثلث

ایک فرد ہو یا کروڑوں افراد ہوں، نگاہ انفرادی ہو یا اجتماعی ایک ہی طرح دیکھتی ہے۔
نگاہ کی دوسری سطح یہ ہے کہ جو کچھ نگاہ دیکھتی ہے وہ کائنات کے دوسرے افراد سے مخفی ہوتا ہے۔
• دیکھنے کی مشترک سطح کو تصوف میں ’’وحدت‘‘ کہتے ہیں۔
• نگاہ کی دوسری سطح کو تصوف میں ’’کثرت‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ کثرت بھی وحدت کی ایک نگاہ ہے۔
کائناتی رشتے کے اعتبار سے نگاہ وحدت ہے۔
البتہ جب نگاہ کثرت کے زاویے میں داخل ہوتی ہے تو نگاہ جو کچھ دیکھتی ہے اس کا مفہوم الگ الگ دیکھتی اور سمجھتی ہے۔
الگ الگ دیکھنا کثرت کی تخلیق ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا تا کہ میں پہچانا جاؤں۔
(حدیثِ قدسی)
اللہ تعالیٰ خود کو چھپا ہوا خزانہ کہتے ہیں۔
اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے چار ایجنسیوں کا تذکرہ کیا ہے:
• ایک خود اللہ تعالیٰ
• دوسرا چھپا ہوا خزانہ
• تیسرا تخلیق اور
• چوتھا خالق کو پہچاننا۔
ان چار ایجنسیوں میں نگاہ کے چار زاویئے ہیں۔ یہ چار زاویئے وحدت و کثرت کے دو دو زاویئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ چھپا ہوا خزانہ ہیں …. چھپا ہوا خزانہ تصوف کی زبان میں واجبُ الوجود ہے۔ واجبُ الوجود کو جب ہم شعور کے دائرے میں سمجھتے ہیں تو روحانی آنکھ سے نظر آتا ہے کہ واجبُ الوجود کا شعور تکرار کر رہا ہے اور خود کو دہراتا رہتا ہے۔
واجبُ الوجود ایک نقطہ (شعور) ہے۔ جب یہ نقطہ خود کو دہراتا ہے اس نقطے کے دو نقطے ہو جاتے ہیں۔ نقطہ پھر خود کو دہراتا ہے تو اس نقطے کے مزید دو نقطے بن جاتے ہیں۔
ازل سے اسی طرح ہو رہا ہے شعور کی تکرار سے بے شمار نقطے بن رہے ہیں اور بے شمار نقطے ایک دائرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ہر نقطہ ایک دائرہ ہے۔ یہ تمام دائرے مل کر بڑا دائرہ بناتے ہیں یہی بڑا دائرہ کائنات ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ذہن میں جو پروگرام ہے وہ خود کو دہراتا رہتا ہے۔ پروگرام کی تکرار سے دوسرا پروگرام۔ دوسرے سے تیسرا پروگرام تخلیق ہوتا رہتا ہے۔
دائرے کے پھیلنے اور سمٹنے کے عمل سے دائرے میں دو رخ بن جاتے ہیں۔ ایک ہی دائرہ کے دو حصے دو مثلث ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: اللہ ہی کا ہے جو رات اور دن میں سکونت پذیر ہے وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
(سورۃ انعام آیت 13)

یعنی رات اور دن میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت ہے۔
انسان کے اِدراک و حواس میں جو کچھ ہے اللہ کی ملکیت کے تابع ہے اور اللہ کے شعور یا ذات واجبُ الوجود کی تکرار سے بنے ہوئے دائرے ہیں۔ یہی دائرے انسان کا اِدراک بنتے ہیں۔ یہی دائرے انسان کو حواس سے آشنا کرتے ہیں۔ انسان کے اِدراک میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
• ایک حصّہ کا تعلق رات کے حواس سے ہے
• دوسرا حصّہ وہ ہے جس کا تعلق دن کے حواس سے ہے۔
یہ دونوں دائرے حرکت دَوری کی دو سطحیں ہیں۔
یہ دونوں سطحیں حواس کا سرچشمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا نام الگ الگ رکھا ہے۔ ایک کا نام ’’لیل‘‘ ہے دوسرے کا نام ’’نہار‘‘ ہے۔ ایک دائرے کا نام خواب اور دوسرے کا نام بیداری ہے۔ نوعِ انسانی میں رات کے حواس کو تاریکی غنودگی یا نیند کہہ کر غیر حقیقی تصوّر کیا جاتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ غیر حقیقی تصوّر کو اللہ نے ردّ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق رات اور دن کے حواس ٹھوس ہیں۔
دن کے حواس کو اجتماعی شہادت حاصل ہے اور رات کے حواس کو انفرادی لیکن کسی بھی طرح یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اجتماعی شہادت میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔
نگاہ کی اجتماعی اور انفرادی سطح سے زمان کی بنیاد قائم ہوتی ہے، جب ایک فرد دوسرے سے متعارف ہوتا ہے تو یہی تعارف کا مرحلہ زمان بنتا ہے۔ تعارف سے مراد یہ ہے کہ جب ایک بندہ دوسرے بندے کو دیکھتا ہے یا ایک فرد دوسرے فرد سے آشنا ہوتا ہے تو آشنا ہونے میں کوئی مخفی رشتہ ہونا ضروری ہے۔ اگر مخفی رشتہ نہ ہوتا تو ایک فرد دوسرے فرد کو نہ پہچان سکتا۔ یہی مخفی رشتہ زمان ہے۔
جب ایک فرد دوسرے سے متعارف ہوتا ہے چونکہ زمان میں دونوں افراد موجود ہیں اور رشتہ مشترک ہے اسلئے ذات ایک نقطے پر ٹھہر جاتی ہے۔
افراد کائنات ایک جگہ نقش ہیں اور جہاں یہ نقش ہیں اس کو زمان کہتے ہیں۔
گزرنا، ٹھہرنا شعور کی ایک طرز ہے۔ اسکے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہر چیز قائم بالذات ہے یعنی کائنات کا ہر فرد ایک بِساط پر قائم ہے اسی بِساط پر موجود نقش کو نگاہ دیکھتی ہے اور شعور سمجھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میں سمیع ہوں۔ میں بصیر ہوں ….
یعنی سماعت اور بصارت میری واحد ملکیت ہیں۔ کوئی اس میں شریک نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں نے انسان کو سماعت دی، بصارت دی۔

ان دونوں ارشادات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی سماعت سے سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی بصارت سے دیکھتا ہے۔
کوئی انسان انفرادی طور پر دیکھتا ہو …. کوئی انسان اللہ کی ذات میں دیکھتا ہو …. کوئی سالک زمانِ متَواتَر میں دیکھتا ہو …. یا زمانِ غیر متَواتَر میں دیکھتا ہو …. یہ سب دیکھنا اللہ کا دیکھنا ہے یا اللہ کی سماعت سے سننا اور اللہ کی بصارت سے دیکھنا ہے۔
انفرادی طور پر زمانِ متَواتَر میں دیکھنے کا عمل ناقص ہے۔ انسانی شعور جب اللہ کی دی ہوئی سماعت یا دی ہوئی بصارت کو استعمال کرتا ہے تو اس بصارت یا سماعت کو خود سے منسوب کرنے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا، میں نے سنا۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اللہ کی سماعت سے سنا اور اللہ کی بصارت سے دیکھا۔
جب کوئی انسان اللہ کی سماعت و بصارت کو خود سے منسوب کرتا ہے تو غلطیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسکے معانی میں غلطیاں کرنے لگتا ہے۔

جب ہم نگاہ کو اجتماعی حیثیت میں بیان کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ نگاہ کی ایک سطح ہے، نگاہ جو دیکھتی ہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ہر جگہ اس کا دیکھنا یکساں ہے۔
یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے۔ جب بندہ اس قانون سے انحراف کرکے اللہ کی سماعت و بصارت کو اپنی ملکیت سمجھ لیتا ہے یا خود سے سماعت اور بصارت کو منسوب کر لیتا ہے تو وہ مسلسل ایسی غلطیاں کرنے لگتا ہے جس کی بنا پر وہ زمانِ غیر متَواتَر سے دُور ہو جاتا ہے۔ اور اسکے اوپر اللہ کے عرفان کی محرومی کا پردہ پڑ جاتا ہے۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی شخص کی نگاہ بادام کو انجیر دیکھے اسلئے کہ انجیر بادام اور انسان سب ایک سطح پر موجود ہیں اور سب نگاہ کے اعتبار سے ایک طرز میں دیکھتے ہیں۔ البتہ کوئی آدمی انجیر کو فضول درخت قرار دے کر معانی پہنانے میں غلطی کر سکتا ہے لیکن غلط معانی استعمال کرنے میں انجیر فضول درخت نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک نفس سے۔
(سورۃ أعراف – آیت ۱۸۹)
اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ نوعِ انسانی مخفی اسکیم کے تحت بنائی گئی ہے۔ وہ مخفی اسکیم جو نظر نہیں آتی۔ یہ اسکیم زبان متَواتَر میں نظر نہیں آتی۔ کیونکہ مَظاہر کے پیچھے کام کر رہی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے نفس واحدہ فرمایا ہے۔
یہی مخفی اسکیم نظر آنے والی تاریکی یعنی رات اور روشنی کی گہرائی میں ایسے نقوش کی تخلیق کرتی ہے جن کو ہمارے حواس مَظاہر کی صورت میں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔
یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم نقوش کے اِدراک سے انکار کر دیں یا ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کریں۔ البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حق کو باطل کہہ دیں اور باطل کو حق سمجھیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انسان اللہ کی دی ہوئی سماعت اور بصارت کو اپنی ذات سے وابستہ کر دیتا ہے۔ جب کوئی انسان اللہ کی ذاتی صفَت کو اپنا ذاتی وصف قرار دے دیتا ہے وہ حق کو باطل سمجھتا ہے اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وہ غلط طرزِ فکر ہے جس کے زیر اثر انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔

اللہ کے فرمان کے مطابق ہر فرد کو وحی یا ألقاء کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وَدیعت کردہ اس صفَت کو انسان ضمیر کے نام سے جانتا ہے۔
ضمیر نور باطن ہے۔ ضمیر کی آواز اللہ کی آواز ہوتی ہے۔ ضمیر ہر لمحہ انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور جب انسان ضمیر کی رہنمائی قبول نہیں کرتا تو نفس کی تنفید شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تنقید بھی ایک طرح سے رہنمائی کرتی ہے۔ یہی تنقید انسان کی نیت کو صحیح یا غلط رکھتی ہے۔ جب تک کوئی انسان ضمیر کی آواز پر توجہ نہیں دیتا رہنمائی حاصل نہیں کرتا۔ رہنمائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات اور وسوسوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

زمان و مکان کا ایڈمنسٹریشن
کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے اور بڑے سے بڑے کُرّے میں کُل ذات محیط ہے۔
ہم چھوٹے سے چھوٹے ذرے کو دیکھنا چاہیں تو تصوّرات کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم جب فرشتے کا تذکرہ کرتے ہیں (گو کہ ہم نے فرشتے کو نہیں دیکھا) لیکن فرشتے کے بارے میں تصوّر ضرور رکھتے ہیں۔ ہم آسمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں باوجودیکہ آسمانوں کو نہیں دیکھا لیکن تصوّر موجود ہے۔ یہی تصوّرات کُل ذات سے یک ذات میں منتقل ہوتے ہیں۔
• تصوّرات کا منتقل ہونا یک ذات کا اپنا وصف نہیں ہے ….
• تصوّرات کا منتقل ہونا کُل ذات پر منحصر ہے ….
جس طرح کل ذات، تصوّرات یک ذات کے سپرد کر دیتی ہے، یک ذات اسی طرح ان تصوّرات کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔
گلاب ایک ذات ہے۔ کُل ذات نے گلاب کو شکل وصورت کا تصوّر منتقل کیا۔
کُل ذات نے انسان کو جس طرح کے تصوّرات منتقل کئے اسی طرح انسان کی شکل و صورت بن گئی۔
انسان ایسے تصوّرات کا مجموعہ ہے جو کُل ذات سے ذات کا شعور حاصل کرتا ہے۔ وہ تصوّرات جو انسانی جسم کی تخلیق کرتے ہیں، لاشعور (کُل ذات) ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مادّی جسم لاشعور نے بنایا ہے اور خارج میں موجود روشنیاں اس کو غذا فراہم کر رہی ہیں جس کی بناء پر انسان کے اندر خون دوڑ رہا ہے …. یہ بات خلاف قانون ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ کُل ذات سے منتقل ہونے والے تصوّرات مادہ کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور یہی مادہ ثقل کی صورت میں متعارف ہوتا ہے۔ جب یہی لاشعور تصوّرات کو مادے میں منتقل کرنے کا اہتمام نہیں کرتا تو موت وارِد ہو جاتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
انسان کو اپنی زندگی میں ایک سے زیادہ مُرتّبہ سخت ترین بیماریوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بیماری کے زمانے میں غذا کم سے کم رہ جاتی ہے یا مفقود ہو جاتی ہے۔ غذا کم ہو جانے سے موت واقع نہیں ہوتی اسکے معنی یہ ہوئے کہ جسمانی مشین زندگی کو چلانے کی ذمہ دار نہیں۔ ان مشاہدات سے یہ بات تحقیق ہو جاتی ہے کہ خارج سے انسانی جسم کو جو کچھ ملتا ہے وہ زندگی کا موجب نہیں ہے۔ زندگی کا موجب صرف کُل ذات ہے۔

کُل ذات کو سمجھنے کی کئی طرزیں ہیں۔
انسان پیدا ہوتا ہے، پھر وہ چند ماہ کا ہوتا ہے، پھر ساٹھ، ستّر، اسّی اور نوّے سال کا ہو جاتا ہے۔ اسکے جسم میں اسکے خیالات میں اسکے علم و عمل میں ہر لمحہ تغیّر ہوتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ جسم کا ہر حصّہ تبدیل ہو جاتا ہے لیکن چند ماہ کے بچّہ کا، نوّے سال کی عمر میں بھی وہی نام ہے۔ اگر اس کا نام محمود ہے تو وہ محمود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ کُل ذات سے جو تصوّر انسانی شعور کو منتقل کر دیا جاتا ہے وہی تصوّر قائم رہتا ہے۔ چاہے جسم کا ایک ایک ذرّہ تبدیل ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: وہی ہے جو ہر شئے کو محیط ہے۔
(سورۃ فُصّلت – 54)

سوال یہ ہے کہ جب زید کُل ذات سے منسلک ہے تو کائنات کا علم زید کو کیوں حاصل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زید کُل ذات سے لا تعلق رہتا ہے اور اپنی ذات سے باہر نہیں نکلنا چاہتا۔
اگر کوئی فرد اپنی حدود میں رہ کر اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی سوچ محدود ہے۔ محض ذات کی حدود میں سوچنے سے اسکے اندر محدودیت کی بنا پر اخلاص پیدا نہیں ہوتا۔
اور جب کوئی فرد خود کی نفی کرکے اپنی سوچ کو اجتماعی بنا لیتا ہے تو محدود، انفرادی سوچ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اگر ایک شخص کی تمام دلچسپیاں اپنے خاندان تک محدود ہیں تو اس کی فہم خاندان کی حدود سے باہر نہیں جاتی۔ فہم جس قدر محدود ہو گی مشاہدات اس ہی مناسبت سے محدود ہوں گے۔

انسان کی آنکھ، کان اپنی فہم کی حدود میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ وہ فہم کی حدود سے باہر نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سُن سکتے ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے اطراف دیکھ رہا ہے، سُن رہا ہے، لیکن فہم کو خاندان سے باہر کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہوتی۔
انفرادی سوچ کے حامل انسان کا شعور چند سال کے بچے جیسا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر میں صرف خاندان کی حدود میں سوچتا ہے تو روحانی نقطۂ نظر سے اس کی عمر چند سال کے بچّہ سے زیادہ نہیں ہے۔ ایسا انسان جو محض انفرادی مفاد کو مدنظر رکھتا ہے۔ سو سال کی عمر میں بھی بلوغ کو نہیں پہنچتا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس بنیاد پر وہ کُل ذات سے بے خبر رہ جاتا ہے۔
کائنات کی اسٹیج پر اس کی حالت وہی ہے جو تین سال کے بچے کی کسی بین الاقوامی جلسے میں ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ….. (سورۃ النّور – 35)
ترجمہ: اللہ سماوات اور ارض کی روشنی ہے۔

روشنی کا سلسلہ جب منقطع ہو جاتا ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ موت واقع ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کُل ذات سے یک ذات کا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ہے۔
موت دراصل ایک ایسا پردہ ہے جو اِطّلاعاتی طور پر حیات کی ایک سطح سے فرد کو الگ کرکے دوسری سطح میں داخل کر دیتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 299 تا 306

شرحِ لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - تعارف 0.02 - انتساب 0.03 - پیش لفظ 01 - لیکچر 1 – علم حُضوری، علم حُصولی 02 - لیکچر 2 – ثابِتہ اَعیان جوَیّہ 03 - لیکچر 3 – لوحِ محفوظ 04 - لیکچر 4 – مُغَیَّباتِ اَکوان 05 - لیکچر 5 – کثرت کا اجمال 06 - لیکچر 6 – اِدراک اور وَجدان 07 - لیکچر 7 – نیابت و خلافت 08 - لیکچر 8 – کُن فیکون 09 - لیکچر 9 – تجلّیات, اجمال 10 - لیکچر 10 – حواس کی رفتار 11 - لیکچر 11 – اندر کی آواز 12 - لیکچر 12 – لاعلمی بھی علم ہے 13 - لیکچر 13 – قوتِ اِلقاء 14 - لیکچر 14 – نسبتِ عِلمیہ 15 - لیکچر 15 – شخصِ اکبر 16 - لیکچر 16 – آدم کا شرف 17 - لیکچر 17 – قضا و قدر 18 - لیکچر 18 – تصرف اور علمِ شئے 19 - لیکچر 19 – معجزہ، کرامت، اِستدراج 20 - لیکچر 20 – الہامی کتابیں 21 - لیکچر 21 – روشنی کی قسمیں 22 - لیکچر 22 – ازل تا قیامت 23 - لیکچر 23 – نسبتِ یادداشت 24 - لیکچر 24 25 - لیکچر 25 26 - لیکچر 26 27 - لیکچر 27 28 - لیکچر 28 29 - لیکچر 29 30 - لیکچر 30 31 - لیکچر 31 32 - لیکچر 32 33 - لیکچر 33 34 - لیکچر 34 35 - لیکچر 35 36 - لیکچر 36 37 - لیکچر 37 38 - لیکچر 38 39 - لیکچر 39 40 - لیکچر 40
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)