لیکچر 30
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56631
شعور۔ علمِ لَدُنّی
نوعِ انسانی میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر کے افراد کی توجہ ستر پوشی کی طرف رہتی ہے۔
ستر پوشی کے عمل کو اتنی زیادہ مُرتّبہ دھرایا جاتا ہے کہ چھپانا انسان کی طبیعت کا تقاضا بن جاتا ہے۔ اس تقاضے سے انسانی زندگی میں ستر پوشی کے ساتھ ساتھ عیب پوشی کے جذبات بھی کارفرما ہو جاتے ہیں۔
انسان اپنی غلطیوں کو چھپا کر خود کو مثالی بنا کر پیش کرنا چاہتاہے۔ یہی اِخفاء زندگی میں ارتقاء کا سبب بنتا ہے۔
اس کے برعکس جانوروں میں اِخفاء نہیں ہوتا۔ حیوان چونکہ دوسرے حیوان کی زندگی سے واقف ہے اسلئے وہ خود کو دوسرے حیوان کے سامنے مثالی بنا کر پیش نہیں کرتا۔
انسان خود کو دوسروں کے سامنے مثالی بنا کر پیش کرتا ہے تو نئے نئے راستوں اور نئی نئی ایجادات کا سبب بنتا ہے۔ یہ انسان کی ایسی کوشش اور جدوجہد ہے جس جدوجہد و کوشش سے وہ علمِ حُصولی سے گزر کر علمِ حُضوری میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی کوشش تمام طبعی علوم کا مجموعہ ہے۔ نئے نئے راستوں کا تلاش کرنا نئے نئے علوم کی داغ بیل ڈالنا اور ان علوم سے نئے نئے فلسفوں کا ظاہر ہونا …. یہ سب اِرتقائی عوامل ہیں۔ اِرتقائی عمل کو علمِ حُصولی کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات محلِ نظر ہے کہ علمِ حُصولی کی بنیاد پر جتنے بھی فلسفے وُجود میں آتے ہیں یا ایجادات ہوتی ہیں ان کا بہت بڑا حصّہ مفروضات اور قیاسات پر مشتمل ہے۔ جہاں مفروضات اور قیاسات کا عمل دخل ہے اس علم کو ’’علمِ حُضوری‘‘ کہتے ہیں۔
علمِ حُضوری فکر کی گہرائیوں میں تلاش کئے جاتے ہیں، جبکہ علمِ حُصولی طبعی قوانین کے پابند ہیں اور طبعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرنے پر مجبور ہیں۔
ہر انسان کی زندگی دوسرے انسان کے لئے ایک سَربستہ راز ہے اور ہر انسان دوسرے انسان سے ناواقف ہے۔ یہ ناواقفیت ہی انسان کی زندگی کا راز ہے۔ انسانی زندگی کا یہ راز ہر انسان کو اپنی غلطیوں کو چھپانے کی طرف مائل کرتا ہے۔ بالطبع ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسرے کے سامنے اچھا پیش کرے اور لوگوں کے سامنے اس کی غلطیاں ظاہر نہ ہوں۔
ہر انسان یہ بات جانتا ہے کہ میری زندگی کے بارے میں میرے علاوہ دوسرا کوئی شخص نہیں جانتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی کا اِخفاء اِرتقا کا سبب بنتا ہے۔
حیوانی زندگی میں اِخفاء نہیں ہے۔ انسانی ساخت کا شعوری امتیاز ہی دراصل اس کو علوم و فنون کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ نوعِ انسانی دو علوم سے واقف ہے:
• ایک علم مفروضات، قیاسات اور فکشن پر قائم ہے
• دوسرا علم حقیقت پر مبنی ہے۔ اس علم میں فکشن مفروضات اور قیاس شامل نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہے وہ حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس میں تغیّر اور ردّ و بدل نہیں ہوتا۔
دونوں کی اصل علمِ لَدُنّی ہے۔
علمِ حُضوری اور علمِ حُصولی دونوں کو ایک دوسرے سے ’’علمِ لَدُنّی‘‘ متعارف کراتا ہے۔ علمِ لَدُنّی کے حقائق علمِ حُصولی کی گہرائیوں میں تلاش کئے جاتے ہیں۔
مثلاً ہم اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں جب پانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو پانی کے خدوخال، پانی کا استعمال، پانی بہنا، سمٹنا، بہاؤ …. یہ سب علمِ حُصولی کے دائرے میں آتا ہے، لیکن جب پانی کی ماہیئت تلاش کرتے ہیں تو اس تلاش کو …. اور تلاش کے نتیجے میں حاصل علم کو علمِ حُضوری کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
تمام طبعی قوانین اور تمام علوم جو اس دنیا میں رائج ہیں وہ سب روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں۔ مثلاً جب ہم پانی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ پانی نشیب میں ہی کیوں بہتا ہے اور پانی کے اندر قوتیں کس طرح مخفی ہیں تو پانی کی فطرت سے ہمیں روحانی قوانین کا سراغ مل جاتا ہے۔ جیسے جیسے ہم گہرائی میں تفکر کرتے ہیں ہمارے اوپر نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں اور یہ انکشاف ہمیں روحانی قوانین کی حقیقت تک پہنچا دیتے ہیں۔ روحانی حقیقت تک پہنچنا علمِ حُضوری سے رُوشناسی ہے۔ علمِ حُضوری اور علمِ حُصولی میں ہم اس وقت فرق قائم کر سکتے ہیں جب ہمیں علمِ لَدُنّی سے واقفیت ہو۔ یہی وہ علم ہے جو انبیاء علیہم السّلام کو حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو انبیاء کی نسبت سے اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے۔
علمِ لَدُنّی جب انبیاء کو حاصل ہوتا ہے تو علمِ نبوت ہے اور علمِ نبوت کے زیر اثر جب اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے تو علمِ لَدُنّی ہے۔
اولیاء اللہ کو یہ علم الہام کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور پیغمبروں کو یہ علم وحی کے ذریعہ منتقل ہوتا ہے۔
کائنات چار دائروں میں متحرّک ہے۔ ان دائروں کا ہر زاویہ الگ الگ معانی رکھتا ہے اور ان دائروں کے دو رخ متعین ہیں۔
• ایک رخ جو صَعودی حالت ہے ….
• دوسرا رخ نُزولی حرکت ہے ….
ان دائروں کے دوسرے زاویوں کے الگ الگ چار نام ہیں۔
• پہلے زاویئے کا نام راح ہے۔
• دوسرے زاویئے کا نام روح ہے۔
• تیسرے زاویئے کا نام رُؤیا ہے۔
• چوتھے زاویئے کا نام رُؤیّت ہے۔
یہ چار اوصاف لاشعور سے تعلق رکھتے ہیں۔
• جب راح میں تغیّر ہوتا ہے تو زمانی اور مکانی فاصلے معدوم ہوتے ہیں۔ ’’راح‘‘ میں سفر کرنے والے مسافر کو خدوخال نظر نہیں آتے۔
• راح میں جب حرکت ہوتی ہے تو اس کا نام روح ہے اور اس میں زمانی مکانی فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی شخص کے سامنے سورج کا نام لیں تو آناً فاناً اسکے ذہن میں سورج کا عکس گزر جاتا ہے۔ گزرنے والا ’’سورج‘‘ …. وہ سورج ہے جس سے وہ خارج میں رُوشناس ہے۔ وہ کسی اور سورج کو نہیں جانتا۔ وہ فقط اس سورج سے واقف ہے جو ذہن میں موجود ہے۔ اگر ہم اس شخص کو ایک نقطہ تسلیم کر لیں تو یوں کہیں گے کہ نقطہ میں خدوخال نہیں ہیں۔ جب روح میں حرکت ہوتی ہے تو خدوخال بن جاتے ہیں۔ نقطہ میں خدوخال کو روح کہتے ہیں۔
• نقطہ روح بن جاتا ہے تو شعور پیدا ہوتا ہے۔ نقطہ کی پہلی حرکت کو تصوّر یا رُؤیا کہتے ہیں …. لیکن
• جب یہ تصوّر گہرا ہو کر بصارت کی سطح پر آ جاتا ہے تو رُؤیّت بن جاتا ہے۔
علمِ لَدُنّی ایک ایسی ایجنسی ہے جو علمِ حُضوری اور علمِ حُصولی دونوں کی حدیں قائم کرتی ہے۔
دونوں کی حدیں قائم کرنے کے بعد علمِ لَدُنّی ہمیں علمِ حُضوری اور علمِ حُصولی کے طبعی قوانین سے رُوشناس کرتا ہے۔ علمِ لَدُنّی ہمیں باخبر کرتا ہے کہ تمام طبعی قوانین روحانی قوانین کے تابع ہیں۔
اِدراک اور شعور
پہلا دائرہ شعور ….
دوسرا دائرہ اِدراک ….
تیسرا دائرہ تصوّر …. اور
چوتھا دائرہ شئے ہے ….
کائنات کی پہلی سطح کائنات اور افراد کائنات کے اندر بہت گہرائی میں واقع ہے۔ اس سطح کے اوصاف کا علم تقریباً ناممکن ہے اس سطح کی گہرائی میں مشیئت براہِ راست کام کرتی ہے۔ البتہ وہ لوگ اس سطح کی صفات کو جان لیتے ہیں جو براہِ راست مشیئت کے تابع ہوتے ہیں۔ پہلی سطح کے عارف لوگوں کو علمُ القلم سکھایا جاتا ہے۔
پہلی سطح کے بعد دوسری سطح جب نُزول کرتی ہے تو اس میں نئے نئے اوصاف شامل ہوتے ہیں۔ ان مجموعی اوصاف کا نام لاشعور ہے۔
لاشعور میں جب حرکت ہوتی ہے تو فرد کا شعور اس کا احاطہ کر لیتا ہے اور اسی احاطہ کا نام تصوّر ہے۔
اور جب تصوّر اپنی سطح سے ابھر کر فرد کے سامنے آتا ہے تو شعور اپنی بالمقابل چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے۔
مختصر یہ کہ کائنات کے ہر فرد کو چار سطحوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی فرد ان چار سطحوں سے نہ گزرے اس وقت تک شئے کی موجودگی زیرِ بحث نہیں آتی۔
اس بات کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ پہلے تین مرحلوں میں شئے کا تانا بانا تیار ہوتا ہے اور چوتھے مرحلے میں شئے خدوخال کے ساتھ ’’موجود‘‘ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
کائنات میں شئے کی حرکت دو طرح ہوتی ہے:
• ایک حرکت طولانی ہے …. اور
• دوسری حرکت محوری ہے۔ لیکن محوری حرکت طولانی حرکت کے تابع ہوتی ہے۔
طولانی حرکت ہو یا محوری حرکت دونوں میں ایک وقفہ ہوتا ہے۔
طولانی حرکت یا محوری حرکت (مکان و زمان) …. دونوں حالتیں طولانی سمت اور محوری سمت میں ایک ساتھ گردش کرتی ہیں۔ یہ دونوں گردشیں مل کر مسلسل شعور تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ اس کی مثال لٹو ہے۔
ڈوری میں باندھ کر لٹو کو پھینکا جاتا ہے۔ لٹو گھومتا ہے تو لٹو کے گھومنے کی حالت زمانی مکانی دونوں طرح ہوتی ہے۔ لٹو محوری گردش میں گھومتا ہے اور طولانی گردش میں آگے بھی بڑھتا ہے۔
• طولانی گردش میں آگے بڑھنا مکانیت ہے …. اور
• محوری گردش میں دائروں میں گھومنا زمانیت ہے۔
لٹو چلنے کے بعد جب تھمتا ہے تو دیکھنے میں لٹو چند منٹ کے لئے چلا لیکن جس جگہ سے لٹو کی حرکت شروع ہوئی، لٹو نے سفر کرکے کسی دوسری جگہ قیام کیا۔
ہم طولانی حرکت کو اپنے حواس میں سیکنڈ منٹ گھنٹے دن ماہ اور سال اور صدیوں کی شکل میں شمار کرتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ طولانی گردش کو اپنے حواس میں منٹ یا مکانیت کا وقفہ شمار کرتے ہیں۔
جب ہماری نظر آسمان پر اٹھتی ہے تو ہمارے حواس میں سیکنڈ منٹ کے وقفے ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب کہ ہمارا شعوری تجربہ ہے کہ ہم چند سو قدم سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو لاکھوں میل ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔
چاند سورج ستاروں اور اَجرامِ فلَکی کو دیکھنا اسلئے ممکن ہے کہ ہم طولانی گردش کے ساتھ محوری گردش میں بھی سفر کرتے ہیں۔ طولانی گردش میں وقفہ مکانیت ہے۔ محوری گردش میں مکانیت نہیں ہوتی جب ہم نو کروڑ میل دور سورج کو دیکھتے ہیں تو ہم محوری گردش میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہم محوری گردش میں سفر کریں یا طولانی گردش میں سفر کریں یہ دونوں گردشیں مل کر وقفہ کہلاتی ہیں۔
واہمہ خیال اور تصوّر سے گزر کر آدمی محسوساتی حالت میں داخل ہوتا ہے۔ محسوسات کی مرکزیت عالمِ ناسوت ہے۔ عالمِ ناسوت مادّی زندگی ہے۔ ایسی مادّی زندگی جو ٹھوس ہے اور عناصر کا مجموعہ ہے۔
تعصبات اور مفکرین
عالمِ ناسوت عناصر کی تخلیق ہے۔ عناصر کی تخلیق فرد کا چوتھا شعور ہے۔ اس شعور کا اِدراک سطحی ہوتا ہے۔ اس کا ٹھہراؤ اور ٹھوس پن بہت کم وقفے پر مشتمل ہے۔ چونکہ اس کا ٹھوس پن بہت کم وقفے پر مشتمل ہے، اسلئے یہ شعور حواس کے اعتبار سے زیادہ ناقص ہے۔ ٹھوس پن زیادہ ہونے کی بناء پر اس شعور میں مسلسل خلاء واقع ہوتا رہتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
ضمیر نور باطن ہے۔ ضمیر یا نور باطن سے اِستفادہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات (شریعت و تکوین پر) غور و فکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نَوعِ انسان کی تخلیق کا اجمالی پہلو یہ ہے کہ اللہ کو یکتا اور ایک مانا جائے۔ یہ اَسرار انبیاءِ کرام اور آخری نبی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام پر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔ چونکہ انبیاء کو یہ کشف وحی کے ذریعے ہوتا ہے اسلئے ان کے فرمودات میں قیاس کو دخل نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس انبیاء علیہم السلام کے نہ ماننے والے فرقے توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ کسی ایک طاقت کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے قیاس سے رہنمائی چاہتے ہیں۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے ہمیشہ توحید کو قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی کرکے توحید کو غیر توحیدی نظریات بنا کر پیش کیا۔ اور یہ نظریات کہیں نہ کہیں دوسرے فرقوں سے متصادم ہوتے رہے۔ قیاس (مفروضہ یا فکشن) کا پیش کردہ نظریہ کسی دوسرے نظریے کا چند قدم تو ساتھ دے سکتا ہے لیکن بالآخر ناکام ہو جاتا ہے۔ جب کہ انبیاء کا توحید کا نظریہ قیاس پر مبنی نہیں ہے۔
ہم جب نوعِ انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں اور نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اس طرف توجہ دینی پڑے گی کہ نوعِ انسانی ایک کنبہ ہے۔ اس کنبہ کا ایک سرپرست ہے اور وہ ایسا سرپرست ہے جس کی سرپرستی میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اس نظریئے پر نوعِ انسانی کو اکٹھا کرنے کے لئے ایک مکتبۂِ فکر پر جمع ہونا ضروری ہے۔ وہ نقطۂِ فکر یہ ہے کہ:
اللہ ایک ہے …. اللہ نوعِ انسانی کا سرپرست ہے ….
ابتدائے آفرینش سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام تک جتنے انبیاء مَبعوث ہوئے، ان سب نے توحید کا ہی تذکرہ فرمایا ہے۔ کسی نبی کی تعلیم ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے۔ اگر نوعِ انسانی ایک مرکز پر جمع ہو کر فلاح چاہتی ہے تو اسے انبیاء کی تبائی ہوئی توحید پر عمل کرنا ہو گا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاء کی توحید کے نظریئے کے علاوہ آج تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے، وہ تمام، اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ مَوجودہ دَور میں تقریباً تمام پرانے نظام ہائے فکر یا تو فنا ہو چکے ہیں یا ردّ و بدل کے ساتھ فنا کے راستے پر سرگرم عمل ہیں۔
اگرچہ ان نظام ہائے فکر کے ماننے والوں کی کوشش یہی ہے کہ تمام نوعِ انسانی کے لئے روشنی بن سکیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ قیاس پر مشتمل سارے نظام ناکام ہو ئے اور ناکام ہوتے رہیں گے۔
آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں …. اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا کہ نوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت اس نقطۂِ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ جس نقطۂِ توحید کو انبیاء علیہ السلام نے متعارف کرایا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ مَوجودہ دَور کے مفکرین کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر وہ نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو اسکے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے کہ …. قیاس سے ہٹ کر اس نقطۂِ فکر کو سمجھا جائے جو نقطۂِ فکر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں میں زندگی کی طرزیں مختلف ہیں۔ لباس اور جسمانی وظائف جداگانہ ہیں۔ یہ بات کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تمام نوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ ہم جب جسمانی وظیفے سے ہٹ کر داخل (Inner) میں دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ جسمانی وظائف الگ الگ ہونے کے باوجود نوعِ انسانی کا ہر فرد روحانی وظائف میں باہم اشتراک رکھتا ہے اور باہمی اشتراک یہ ہے کہ مخلوق کی ضروریات پورا کرنے والا ایک اللہ ہے۔ ایک ہی ہستی ہے جس نے تمام مخلوق کو سنبھالا ہوا ہے۔ نوعِ انسانی کی جتنی ترقیاں ہیں، جتنے علوم کے مَدارج ہیں، ان سب کا تعلق اسی ایک ذات سے ہے۔ کوئی علم اس وقت تک علم نہیں بن سکتا جب تک کوئی ذات ان علوم کو انسانی دماغ پر وارِد (Inspire) نہ کرے۔ کوئی ترقی ممکن نہیں ہے جب تک اس دنیا میں کسی شئے کے اندر تفکر نہ کیا جائے۔ کوئی شئے موجود ہو گی تو ترقی ہو گی، موجود نہیں ہو گی تو ترقی نہیں ہو گی۔ نوعِ انسانی موجود ہو گی تو اِرتقاء ہو گا۔ نوعِ انسانی موجود ہی نہیں ہو گی تو اِرتقاء کیسے ہو گا؟
نوعِ انسانی کے دماغ میں کچھ کرنے کچھ بنانے کا خیال وارِد نہ ہو تو وہ کچھ نہیں بنا سکتی۔ یہ وہ باہمی ربط ہے جو روحانی اعتبار سے تمام نَوعوں اور تمام افراد میں ہمہ وقت متحرّک ہے اور اس کا مَخزن توحید کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
دنیا کے مفکرین کو چاہئے کہ دنیا میں رائج اِن وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کریں اور اقوامِ عالم کو وظیفۂِ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کرنے کی ہمہ گیر کوشش کریں۔
یہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔
ایک وقت آئے گا کہ قوم مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی، نوعِ انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقاء تلاش کرے اور بقاء کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت میں نہیں ہیں۔
دنیا کے مفکرین پر لازم ہے کہ وہ خود کو تعصّبات سے آزاد کرکے قرآنِ پاک کی بیان کردہ توحید کو اپنے اوپر اور پوری نوعِ انسانی پر جاری و ساری کریں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 255 تا 263
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔