لیکچر 26

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=55081

تخلیق کا قانون

کائنات میں ہر شئے کا کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہے۔ اور یہ نام ہی کسی شئے کا مَظاہرہ کرتا ہے لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ نام سے شئے کے جسم کا مَظاہرہ ہوتا ہے دراصل شئے کا اصل وُجود اس کا ہیولا ہے۔
مثلاً جب ہم پانی کہتے ہیں تو پانی کا نام ذہن میں آتے ہی ہمارے سامنے ایک شکل آتی ہے، ہمیں خدوخال نظر آتے ہیں اور ہم ان خدوخال کو پانی کے نام سے پہچانتے ہیں۔ اس طرح ہم کسی انسان کا نام زید بکر یا محمود رکھتے ہیں۔ جب زید کہتے ہیں تو دراصل ہم ان جسمانی خدوخال کا تذکرہ کرتے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم تفکر کرتے ہیں اور اس بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ….
نام ایک علامت ہے ….
اگر اس علامت (جسم) کا تعلق ظاہری دنیا سے ختم کر دیا جائے تو زندگی برقرار نہیں رہتی۔
باالفاظ دیگر ہم کسی چیز کا نام لیتے ہیں تو مراد اس شئے کا جسم ہوتا ہے اس شئے کی زندگی یا روح نہیں ہوتی۔
جب ہم قلم کہتے ہیں تو ہماری مراد قلم کی علامت یا قلم کے نام یا قلم کے جسمانی خدوخال سے نہیں ہوتی۔ قلم اس حقیقت پر قائم ہے جو قلم کے مفہوم سے ہمارے ذہن کو مطّلع کرتی ہے۔ جب ہم قلم کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں قلم کا وصف آتا ہے اور قلم کا وصف یہ ہے کہ قلم لکھنے کے کام آتا ہے۔
خیالات کو شکل و صورت دینے والی چیز اور مفہوم کو تحریری شکل میں کاغذ پر منتقل کرنے والی چیز کا نام قلم ہے۔
قلم ایک جسم ہے لیکن قلم کا وصف اس کی زندگی ہے۔
اسی طرح مَوجودات کے اندر جس قدر نَوعیں ہیں ان نَوعوں میں جس قدر افراد ہیں، ان میں سے ہر فرد کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔

ہم کائنات کو سمجھنے کے لئے کائنات کے ہر فرد کا نام متحرّک ذرّہ رکھ لیتے ہیں، جس کے دو رخ ہیں۔
حرکت کا ایک رخ رنگین اور روشن ہے جس کو جسم کہتے ہیں ….
حرکت کا دوسرا رخ بے رنگ روشنی ہے جس کو فطرت کہتے ہیں … بے رنگ روشنی کا نام نَسمہ ہے۔
نسمے کا ایک رخ زمان ہے اور نسمے کا دوسرا رخ مکان ہے ۔
زمان روح ہے اور زمان اللہ کی مشیئت ہے۔
زمان کا ایک رخ تجلّی اور دوسرا رخ اللہ کی صفات ہیں۔

۱۔ کائنات
۲۔ متحرّک ذرات
۳۔ رنگین اور روشن
۴۔ بے رنگ

۱۔ رنگین و روشن رخ ۔ جسم
۲۔ بے رنگ روشنی ۔ نسمہ
۳۔ نَسمہ ایک رخ ۔ زمان
۴۔ نَسمہ کا دوسرا رخ ۔ مکان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تَسُبُّوا الدَّهر، فإنَّ الله هُو الدَّهر
ترجمہ: زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔

حرکت کا وہ رخ جس کو ہم نے زماں کہا ہے، میں تغیّر نہیں ہوتا۔
حرکت کا دوسرا رخ جس میں تغیّر ہوتا رہتا ہے۔ ’’مکان‘‘ ہے۔

نَسمہ ۔ زمان ۔ روح
روح ۔ مشیئتِ الٰہی
زمان کا ایک رخ ۔ تجلّی
زمان کا دوسرا رخ ۔ صفات

کائنات کو کسی بھی زوایئے سے دیکھا جائے دو طرح نظر آتی ہے۔
کائنات خدوخال کے ساتھ براہِ راست متحرّک ہے۔ لیکن حرکت نظر نہیں آتی۔ مَظاہراتی جسم کی حرکات کسی شئے کی پابند ہیں۔ جسم کی اپنی کوئی اختیاری حرکت نہیں ہے۔
1. حرکت کا ایک رخ ہماری نظروں سے اوجھل ہے
2. دوسرا رخ ہماری نظروں کے سامنے ہے

جو رخ نظروں سے اوجھل ہے رنگ، روشنی، نور، فطرت، حقیقت یا نَسمہ ہے۔ حرکت کے ایک رخ میں تغیّر ہے …. حرکت کے دوسرے رخ میں تغیّر نہیں ہے….
1. جہاں تغیّر ہے وہ مکانیت ہے …. اور
2. جہاں تغیّر نہیں ہے وہ زمانیت ہے ….

متغیّر اور غیر متغیّر حرکات میں دو قدریں ہیں ایک میں ہمہ وقت تغیّر و تَبدّل ہو رہا ہے دوسرے میں تغیّر و تَبدّل نہیں ہے۔
جس رخ میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے مخلوق ہے ….
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
 اے پیغمبرﷺ!آپ فرما دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں
(ہم جب مخلوق کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں مخلوق میں یکتائی نظر نہیں آتی)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
 اللہ کو کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے۔ وہ ہر ضرورت سے مُبرّأ ہے۔
(جب کہ مخلوق کا ذی احتیاج ہونا لازمی امر ہے۔ اسلئے کہ مخلوق زندگی کے ہر ہر قدم پر وسائل کی محتاج ہے)

 اللہ کسی کی اولاد نہیں ہے۔
(جب کہ مخلوق کے اولاد ہوتی ہے)

 اللہ کسی کا باپ نہیں ہے۔
(جب کہ مخلوق باپ ہوتی ہے)

 اللہ کا کوئی خاندان نہیں ہے
(جب کہ مخلوق کا خاندان ہوتا ہے)

ثانی ہونا …. ذی احتیاج ہونا …. صاحبِ اولاد … بیٹا یا بیٹی ہونا ….. خاندان ہونا ….. مخلوق کی قدریں ہیں اور پانچوں قدریں ہمہ وقت تغیّر پذیر ہیں۔
آج کا بچہ اگر اولاد ہے تو کل وہ باپ بن جائے گا۔ عمر کے حساب سے ضروریات گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ خاندانی طرزیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔
یہ پانچوں قدریں جو اللہ نے مخلوق کے لئے بیان فرمائی ہیں، مکان (Space) ہیں اور یہ سب ہمیں نظر آتی ہیں۔
خالقیت کی قدریں اسکے برعکس ہیں۔
جب ہم مخلوق کا تذکرہ کرتے ہیں تو مخلوق کی قدروں میں ابتداء، انتہا، اِشتباہ، بےیقینی، وسوسے اور ہر قسم کا تغیّر ہمیں نظر آتا ہے۔ روشنی کی درجہ بندی اور تغیّر سے مخلوق کی مختلف نَوعیں بنتی ہیں اور مختلف نَوعوں میں مختلف شکل وصورت …. مختلف آثار و احوال پائے جاتے ہیں۔

کتاب لوح و قلم میں زمان و مکان کی بہت واضح مثال راستے اور مسافر سے کی گئی ہے۔
• راستہ زماں ہے …. اور
• مسافر مکاں ہے۔
ایک مسافر اپنے اندر کتنا ہی اِنہماک رکھتا ہو …. وہ اپنے آثار و احوال میں کتنا ہی گم ہو …. راستے کے بغیر سفر نہیں کرتا۔ وہ کتنا ہی بے نیاز اور بے خبر ہو جائے …. اپنی ذات سے کتنا ہی غافل ہو جائے …. کوئی مسافر راستے سے لاتعلق نہیں ہوتا۔

مسافر اس وقت مسافر ہے …. جب راستے پر چل رہا ہو۔

مسافر کی حرکات و سکنات، کردار زندگی کی طرزیں اور فکریں کسی بھی طرح راستے کی حدود سے باہر نہیں ہو سکتیں، اسلئے کہ:
• راستے میں تغیّر نہیں ہے …. اور
• مسافر میں ہر قدم کے بعد دوسرے قدم میں تغیّر ہو جاتا ہے
راستہ لاشعور ہے اور مسافر شعور ہے۔ ہم شعور سے لاشعور کو پہچان سکتے ہیں۔ شعور میں زیادہ سے زیادہ اِنہماک سے لاشعور میں توجہ کم ہو جاتی ہے۔ زندگی کی تمام طرزیں راستے کے اوپر قائم ہیں۔ اسی لئے جتنا زیادہ وقت راستے (لاشعور) میں غو ر وفکر کیا جائے گا اسی مناسبت سے زندگی زیادہ عمل کے راستے طے کرے گی۔
شعوری قدریں اور فکری دنیا
رنگ و بو کی دنیا میں ہم شعور سے لاشعور کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ زندگی کے تمام اعمال و حرکات کا تعلق لاشعور سے ہے۔ انسان کی توجہ جس قدر زیادہ شعوری زندگی پر ہوتی ہے اسی مناسبت سے لاشعور میں توجہ کم ہو جاتی ہے۔ چونکہ زندگی کا دارومدار لا شعور پر ہے اسلئے شعور میں زیادہ توجہ مرکوز ہونے سے زندگی کے اعمال اور ان کی قدریں کم ہو جاتی ہیں۔ شعور کا زیادہ سے زیادہ اِنہماک زیادہ سے زیادہ شعوری حرکت میں رہنے کی دلیل ہے اور جب انسان شعوری قدروں سے ہٹ کر لاشعور(فکری دنیا) میں داخل ہو جاتا ہے تو شعور کی گرفت کم ہو جاتی ہے۔
لاشعور مکانیت کی تعمیر کرتا ہے۔
عالمِ مکاں یا عالمِ خلق میں مکاں غالب اور زماں مغلوب ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ہم جب شعوری زندگی میں سفر کرتے ہیں تو ہمارے اوپر شعور کا غلبہ ہوتا ہے اور لاشعور مغلوب رہتا ہے۔ جب ہم مکانیت سے گزر کر زمانیت میں قدم بڑھاتے ہیں تو لاشعور غالب ہو جاتا ہے اور شعور مغلوب ہو جاتا ہے۔

• مکان کی اصل نَسمہ مُفرِد ہے …. اور
• خود مکان نَسمہ مرکّب ہے

نَسمہ مُفرِد کی تعمیر عالمِ امر اور نَسمہ مرکّب کی تعمیر عالمِ خلق میں ہوتی ہے۔

زندگی کی تمام حرکات و سکنات تین حرکات پر قائم ہیں:
1. حرکتِ ادنیٰ
2. حرکت ثانی …. اور
3. حرکتِ آخر

کائنات گریز اور کشش کی حرکات پر قائم ہے:
• ہر چیز ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہی ہے …. اور
• ہر چیز ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہے ….
گریز اور کشش کا یہ عمل زندگی میں اعمال و حرکات بننے کا مُوجِب ہے۔

کشش اور گریز کے تین دائرے ہیں:
۱۔ پہلا دائرہ لطیفۂِ اخفیٰ اور لطیفۂِ خَفی ہے۔
۲۔ دوسرا دائرہ لطیفۂِ سِرّی اور لطیفۂِ روح ہے۔
۳۔ تیسرا دائرہ لطیفۂِ قلب اور لطیفۂِ نفس ہے۔
ان تین دائروں کا مَظاہرہ ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی وُجود بنتا ہے۔ وُجود گوشت پوست کا ہو روشنیوں کا ہو یا انوار کا ہو۔

کشش و گریز کا قانون ’’إنّا لله وإنّا إلَيهِ رَاجِعُون‘‘ میں مَخفی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔
(حوالہ جات: آلِ عمران-109، سورة البقرة-156)

کشش اور گریز کے ان رخوں میں الگ الگ خدوخال ہیں۔ یہ خدوخال کبھی انوار سے مرکب ہوتے ہیں کبھی روشنیوں سے اور کبھی مٹی کے جسم میں نظر آتے ہیں۔
مٹی کے جسم میں گریز اور کشش کا رخ ’’نَسمہ مرکّب‘‘ ہے۔
روشنیوں کے خدوخال اور روشنی کے Dimensionسے بننے والا وُجود نَسمہ مُفرِد اور نَسمہ مُفرِد کی دنیا ہے اور انہی خدوخال میں جب نور جلوہ افروز ہوتا ہے تو نَسمہ مَطلَق ہے۔
• نَسمہ مرکّب کی دنیا میں انسان حیوانات نباتات کا شمار ہے اور
• نَسمہ مُفرِد میں جنات، ملائکہ اَرضی، ملائکہ سماوی، جنّت اور آسمانوں کا شمار ہے …. مَلاءِ اعلیٰ میں گروہِ جبرائیل، گروہِ میکائیل، گروہِ اسرافیل شامل ہیں ….
• بیتُ المعمور سے اوپر کے مقامات …. حجابِ عظمت، حجابِ کبریاء، حجابِ مَحمود ہیں …. یہ مقامات نَسمہ مَطلَق کی تجلّی ہیں

مَوجودات کے تینوں رخ ہر انسان میں موجود ہیں۔
• ہم جب عالمِ تَخلیط کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہماری مراد ’’روحِ حیوانی‘‘ ہے۔
• ہم جب جنات کی دنیا…. اَعراف کی دنیا، آسمانوں یا فرشتوں کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہماری مراد ’’روحِ انسانی‘‘ ہے …. اور
• جب ہم عالم نور کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہماری مراد ’’روحِ اعظم‘‘ ہے۔

مفہوم یہ ہوا کہ کوئی انسان جب روحِ حیوانی سے وقوف حاصل کر لیتا ہے تو وہ نَسمہ مرکّب (مکانیت کے عالمین) سے واقف ہو جاتا ہے…. اور
جب کوئی انسان روحِ انسانی سے وقوف حاصل کر لیتا ہے تو جنات، فرشتے، برزخ، اَعراف، حشر و نشر، جنّت دوزخ اور ساتوں آسمان سے واقف ہو جاتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 224 تا 231

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)