کثرت اولاد سے پریشانی
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=29809
سوال: میرا مسئلہ جداگانہ قسم کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ مسئلہ کثرت اولاد ہے۔ شوہر معمولی تنخواہ پاتے ہیں، چار بچے ہیں دو لڑکے اور دو لڑکیاں۔ اب پانچویں بار پھر امید سے ہوں۔ شادی کو تقریباً چھ سال پورے ہوں گے تو میں پانچ بچوں کی ماں بن چکی ہوں گی۔ فیملی پلاننگ کی ہدایت کے مطابق کافی احتیاط بھی کرتی ہوں اس کے باوجود بچوں کی پیدائش کا یہ عالم ہے کہ پریشان ہوں۔ معمولی تنخواہ ، کمر توڑ مہنگائی ، اس پر بچوں کی افراط، ایک لمحہ بھی سکون نصیب نہیں ہوتا۔ نہ اچھی خوراک ہے نہ معاشی آسودگی، ذہن پراگندہ رہتا ہے۔ عظیمی صاحب آپ سے نہایت عاجزی سے التماس ہے کہ بس آپ اتنا بتا دیں کہ میری قسمت میں کتنی اولاد ہے اور یہ اولاد کی پیدائش کا سلسلہ کب تک چلے گا تا کہ میں سکون کا سانس لے سکوں۔ مہنگائی اور معاشرہ کا بگڑتا وطیرہ دیکھ کر ہول آتا ہے کہ خدایا ان بچوں کی پرورش کس طرح ہو گی اور جو ذمہ داری تو نے ان کی پرورش کی میرے کاندھوں پر ڈال دی ہے وہ میں پوری بھی کر سکوں گی یا نہیں۔
جواب: قسمت یا تقدیر دو ہوتی ہیں۔ مبرم اور معلق۔ تقدیر معلق میں انسان اپنے اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ تقدیر مبرم، میں ذاتی اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے۔ شادی اور اولاد کا تعلق تقدیر معلق سے ہے۔
پیدائش اور موت کا تعلق تقدیر مبرم سے ہے۔ آپ کو یہ بات عجیب معلوم ہو گی کہ جب پیدائش تقدیر مبرم ہے تو پھر اولاد کا ہونا، تقدیر معلق کس طرح ہوا؟
پیدا ہونا، تقدیر مبرم ہے لیکن کس کے بطن سے پیدا ہوا، یہ بات تقدیر معلق ہے۔ قدرت کلیتاً خود مختار ہے۔ وہ جس بطن سے چاہے پیدائش کر سکتی ہے۔ قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ انفرادی طور پر عورت اور مرد کو نہیں دیکھتی، اس کی نظر میں سب انسان ایک ہیں۔ ھوالذی خلقکم من نفس واحدہ وہ ذات جس نے تمہیں’’ایک نفس‘‘ سے پیدا کیا۔ اصل ایک ہے اور باقی سب تصویریں اس اصل کے فوٹو پرنٹ ہیں۔
پیدائش کے سلسلہ میں والدین اپنے اختیارات استعمال کر سکتے ہیں اور جس قدر چاہیں وقفہ بڑھ سکتا ہے۔
آپ ایک سوال یہ کر سکتی ہیں کہ بہت سے لوگ دل و جان سے چاہتے ہیں کہ وہ صاحب اولاد ہو جائیں۔ لیکن ہر قسم کی کوشش کے بعد ان کے یہاں اولاد نہیں ہوتی۔ والدین جب اپنے اختیارات اولاد کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کا تعلق تقدیر معلق سے ہے تو یہ اولاد سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور ہر چیز تخلیق کرتا ہے، جوڑے دوہرے۔ ’’جوڑے دوہرے‘‘ بہت زیادہ فکر طلب ہے۔
ہر یونٹ کے دو رخ ہوتے ہیں ایک ظاہر اور دوسرا باطن۔ عورت ایک یونٹ ہے اس کا ظاہری رخ عورت اور باطن مرد ہے۔ مرد کا ظاہری رخ مرد اور چھپا ہوا رخ عورت ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب دو باطن رخ (روشنیاں) ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں تو ان روشنیوں کے استجذاب سے ایک تیسرا یونٹ وجود میں آتا ہے۔ اور اس کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو غالب ہوتا ہے وہی صنف قرار پاتی ہے۔ مثلاً اگر مرد کا رخ غالب ہے تو بچہ مذکر ہے اور اگر عورت کا رخ غالب ہے تو بچہ مونث ہے۔
جن لوگوں کے چاہنے کے باوجود اولاد نہیں ہوتی۔ ان کے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ یا تو ان کے اندر کوئی کمزوری ہوتی ہے جو گرفت میں نہیں آتی یا پھر زن و شوہر کے باطن رخ ایک دوسرے کے متضاد ہوتے ہیں۔ اس کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ مرد کے اندر عورت اور عورت کے اندر مرد کی روشنیاں اتنی طاقتور نہیں ہوتیں کہ ایک دوسرے میں پوری طرح جذب ہو جائیں کیونکہ عام آدمی اس بات کو نہیں جانتا اس لئے اس کی نظر اس طرف جاتی ہی نہیں ہے اور جب یہ بات زیر بحث نہیں آتی تو اس کا تدارک بھی نہیں ہوتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 245 تا 247
روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔