سکون

مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=29456

سوال: اس دنیا میں ہر انسان زندگی کو بہترین بنانے کے لئے ہر طرح سے کوششیں اور جدوجہد کرتا ہے۔ مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر کسی کو ہر طرح کی دنیوی آسائشیں میسر آ جائیں تب بھی وہ بے اطمینانی اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتا ہے جو کہ عموماً بے اختیاری ہو تا ہے۔ ہم اس بے سکونی، بے اطمینانی، پریشان خیالی اور عدم تحفظ کی کیفیت کو کس طرح ختم کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں کیا مذہب انسان کی مدد کر سکتا ہے؟کیونکہ مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت کو جب ہم دیکھتے ہیں تو بے سکونی اور عدم اطمینان کا اتنا ہی احساس انہیں بھی رہتا ہے جتنا دوسرے لوگوں کو ہوتا ہے۔

جواب: کائنات میں بے شمار نوعیں ہیں۔ ہر نوع اور نوع کا ہر فرد نوعی اور انفرادی حیثیت سے خیالات کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل پیہم ربط ہی افراد کائنات کے درمیان تعارف کا سبب ہے۔ خیالات کی یہ لہریں دراصل انفرادی اور اجتماعی اطلاعات ہیں جو ہر لمحہ اور ہر آن کائنات کے افراد کو زندگی سے قریب کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی خیالات کے دوش پر سفر کر رہی ہے اور خیالات کی کارفرمائی یقین اور شک پر قائم ہے۔ یہی نقطہ آغاز مذہب کی بنیاد ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔ آدمی جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کر سکے۔ چنانچہ وہ عقیدہ یقین کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ محض فریب ہے اس کی بڑی وجہ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ آدمی جو کچھ خود کو ظاہر کرتا ہے حقیقتاً وہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے۔

اس قسم کی زندگی گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے۔ اب قدم قدم پر اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہو جائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہو گا۔ بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہو رہی ہے اور اگر تلف نہیں ہو رہی ہے تو سخت خطرے میں ہے اور یہ سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔

جب آدمی کی زندگی وہ نہیں ہے جسے وہ گزار رہا ہے یا جسے وہ پیش کر رہا ہے تو جس پر اس کا عمل ہے اس عمل سے وہ نتائج مرتب کرنا چاہتا ہے جو اس کے حسب خواہ ہوں لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور رد و بدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں کو بدلتی رہتی ہے اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے یا ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ آدمی کے دماغ کی ساخت دراصل اس کے اختیار میں ہے۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ، اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہوتا ہے۔ یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے لیکن جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہو گی اسی قدر آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی اور جس مناسبت سے شک اور بے یقینی کی زیادتی ہو گی زندگی ناکامیوں میں بسر ہو گی ۔ ارادہ یا یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے ۔ جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پابند ہیں کیونکہ کوئی خیال یقین کی روشنیاں حاصل کر کے مظہر بنتا ہے۔ مذہب ہمیں یقین کے اس پیٹرن(Pattern) میں داخل کر دیتا ہے جہاں شک و شبہات اور وسوسے ختم ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنی باطنی نگاہ سے غیب کی دنیا کے مشاہدات سے بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک ایسا تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ خالق کی صفات کو اپنے اندر محیط دیکھتا ہے۔ روحانی نقطہ نگاہ سے اگر کسی بندے کے اندر باطنی نگاہ متحرک نہیں ہوتی وہ ایمان کے دائرہ میں داخل نہیں ہوتا۔ جب کوئی بندہ ایمان کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر میں سے تخریب اور شیطنت نکل جاتی ہے اور اگر بندے کے اوپر یقین(غیب کی دنیا) منکشف نہیں ہے تو ایسا بندہ ہر وقت تخریب اور شیطنت کے جال میں گرفتاررہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ایجادات اور لامتناہی آرام و آسائش کے باوجود ہر شخص بے سکون پریشان اور عدم تحفظ کا شکا رہے۔ سائنس چونکہ مادہ(Matter) پر یقین رکھتی ہے اور مادہ عارضی اور فکشن ہے اس لئے سائنس کی ہر ترقی، ہر ایجاد اور آرام و آسائش کے تمام وسائل عارضی اور فنا ہو جانے والے ہیں جس شئے کی بنیاد ہی ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہو اس سے کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ مذہب کے وہ پیروکار یا علماء جو عبادات کی رسوم کی حد تک پابندی کرتے ہیں اور ظاہری اعمال کو ہی اہم سمجھتے ہیں۔ وہ ایمان یعنی غیب کی دنیا کے مشاہدات سے محروم رہتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی زندگی بھی بے سکونی،بے اطمینانی اور عدم تحفظ سے دوچار رہتی ہے۔ مذہبی اور لامذہبیت میں یہی بنیادی فرق ہے کہ لامذہبیت انسان کے اندر شکوک و شبہات ، وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو جنم دیتی ہے جبکہ مذہب تمام احساسات ، خیالات، تصورات اور زندگی کے اعمال و حرکات کو ایک قائم بالذات اور مستقل ہستی سے وابستہ کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان پر سے بے سکونی، بے اطمینانی اور عدم تحفظ کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ اور وہ پر سکون زندگی گزارتا ہے۔ خوش رہتا ہے، اس کے خوش رہنے سے ماحول میں بھی سکون اورمسرت کی لہریں دور کرتی رہتی ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 204 تا 207

روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :

انتساب ترتیب و پیشکش 1 - اولاد نہیں ہوتی 2 - الرجی کا علاج 3 - ایک سو پچاس چھینکیں 4 - اداسی 5 - انگلیاں کشش کا ذریعہ 6 - اولاد نرینہ 7 - اولاد نہیں ہوئی 8 - اندرونی بخار 9 - احساس کمتری 10 - استغناء اور کیلوریز 11 - انسانی وولٹیج 12 - ایک لاکھ خواہشات 13 - ایب نارمل زندگی 14 - اجمیر شریف کی حاضری 15 - آوارہ لڑکا 16 - آنکھوں کے سامنے نقطے 17 - آنکھ میں آنسو 18 - آدھے جسم میں درد 19 - آسمان 20 - آنتیں 21 - آپریشن 22 - آٹھ علاج 23 - انا للہ و انا الیہ راجعون 24 - اسلامی لباس کا تصور 25 - آرزو 26 - اندھی محبت 27 - استخارہ 28 - ایک عجیب بیماری 29 - اجتماعی خود کشی 30 - اجتماعی سکون 31 - اُم الصبیان 32 - آوازیں آتی ہیں 33 - اندرونی مریض 34 - ایمان کی روشنی 35 - اقتدار کی جنگ 36 - اولاد 37 - برص کا علاج 38 - برے خیالات 39 - بجلی کے جھٹکے 40 - بیوہ عورت 41 - بچپن کا خواب 42 - بیٹی نہیں بیٹا 43 - بے وفا شوہر 44 - بہرے پن کا علاج 45 - بخار 46 - بچوں کی نفسیات 47 - بدعقیدہ 48 - بھوت 49 - بیہوشی 50 - بزدلی کی تصویر 51 - برقی رو کا ہجوم 52 - بارونق چہرہ 53 - بھینگا پن 54 - بڑا سر 55 - بسم اللہ کی زکوٰۃ 56 - بے جوڑ شادی 57 - بال خورے کا علاج 58 - پراگندہ ذہنی 59 - پریشانیوں کا حل 60 - پرانی پیچش 61 - پولیو کا علاج 62 - پڑھنے میں دل نہ لگنا 63 - پر اسرار بیماری 64 - پیٹ کی تکلیف 65 - پسینہ آنا 66 - پیدائشی دماغی معذور 67 - پسند کی شادی 68 - پیلیا 69 - پرانی پیچش 70 - پیر صاحب 71 - پیر وہ نہیں ہوتا جو مرید بنا دیتے ہیں 72 - پرابلم 73 - پرکشش چہرہ 74 - پیر سو جاتے ہیں 75 - پچہتر ہزار روپیہ 76 - ترقی نہیں ہوتی 77 - تقدیر 78 - تیسری آنکھ 79 - تصور شیخ 80 - تخلیقی فارمولے 81 - تنہائی کا احساس 82 - ٹائی فائیڈ کے اثرات 83 - ٹیڑھا منہ 84 - ٹانگیں کپکپاتی ہیں 85 - ٹیلی پیتھی 86 - ٹیوشن 87 - ٹانگیں کمزور ہیں 88 - ٹونسلز 89 - ٹرانس پیرنٹ 90 - جادو کا توڑ(۱) 91 - جوڑوں کادرد 92 - جسم میں کرنٹ لگنا 93 - جادو کا توڑ(۲) 94 - جسم چھوٹا سر بڑا 95 - جلد بازی 96 - جسم میں آگ 97 - جنسی مسائل 98 - جادو ختم کرنے کیلئے 99 - جگر کا متاثر ہونا 100 - جسم اچھل اچھل جاتا ہے 101 - جن 102 - جھنجلاہٹ کیسے دور ہو 103 - جہیز کا مسئلہ 104 - چوکور کاغذ 105 - چمگاڈر 106 - چاند گرہن 107 - چہرے پر دانے 108 - چہرے پر چھائیاں 109 - چھپکلی کا خوف 110 - چھوٹی بیگم 111 - چہرے پر بال 112 - حضرت خضرؑ سے ملاقات 113 - حسد کی عادت 114 - حروف مقطعات 115 - حالات کی ستم ظریفی 116 - حسد 117 - حسب منشاء شادی کیلئے 118 - حقیقت آگاہی 119 - خوف 120 - خود سے باتیں کرنا 121 - خون کی بوند 122 - خوفناک شکلیں نظر آتی ہیں 123 - خیالی پلاؤ 124 - خون میں کمزوری 125 - خود ترغیبی 126 - خود غرضی 127 - خون کی کلیاں(۱) 128 - خالہ کی روح 129 - خلفشار 130 - خون کی الٹیاں(۲) 131 - خشکی کا علاج 132 - خشک خارش 133 - خواب اور ہماری زندگی 134 - دماغی خلئے اور پیدائش 135 - دل میں سوراخ 136 - دنیا بیزاری 137 - دماغی امراض 138 - دماغ کے اوپر خول چڑھ گیا ہے 139 - دستخط کیجئے اور مسئلہ حل 140 - دوپٹہ میں جوئیں 141 - دل میں درد 142 - دمہ 143 - دریا اور سبزہ زار 144 - دواؤں کا ری ایکشن 145 - دوائیں 146 - دماغ کے اعصاب 147 - دانت پیسنا 148 - دوسری شادی 149 - دماغی توازن 150 - دکھی لڑکی 151 - درخت بولتے ہیں 152 - دھوکہ 153 - ڈراؤنے خواب 154 - ذہنی سکون 155 - ذہنی مریضہ 156 - ذہنی الجھنیں 157 - ذہنی مریض 158 - روح سے ملاقات 159 - رنگ و نور کا شہر 160 - روح کا الارم 161 - روحانی غذا 162 - رشتہ کی تلاش 163 - روشن مستقبل 164 - روح اور اسلام 165 - رات بھر روتی ہوں 166 - زنانی آواز 167 - زندگی کا ساتھی 168 - زبان ساتھ نہیں دیتی 169 - زبان کھل جائے گی 170 - سکون کی تلاش 171 - سر اور معدہ 172 - سوتے میں پیشاب نکل جاتا ہے 173 - سایہ 174 - سیپ کی پوٹلی 175 - سر کے بال گر رہے ہیں 176 - سانس کی بیماری 177 - سینے میں درد 178 - سانس رک جاتا ہے 179 - سانولا رنگ 180 - سردی میں پسینہ 181 - سوچ میں ڈوبے رہنا 182 - سیاہ رنگ چہرہ 183 - سائیکالوجی 184 - سیلاب اور سیمنٹ 185 - سکون 186 - سیرت طیبہؐ 187 - شادی کے مسائل 188 - شادی 189 - شوہر لندن میں ہیں 190 - شباب آمیز کہانیاں 191 - شوہر شکل نہیں دیکھتا 192 - شفا ء دینا اللہ کا کام ہے 193 - شیطانی وسوسے 194 - شادی اور شرم 195 - شوہر کا مزاج 196 - شوہر نے آنکھیں بدل لیں 197 - شکی شوہر 198 - شادی روکنے کیلئے 199 - شوہر کی محبت 200 - شریعت اور طریقت 201 - شجر ممنوعہ کی روحانی تفسیر 202 - شکوہ 203 - ضدی بچہ 204 - طلبہ متوجہ ہوں 205 - طلسمی سانپ 206 - عقیدہ کی خرابی 207 - عشق کا سمندر 208 - علوم اور صلاحیت 209 - علاج کی ضرورت نہیں ہے 210 - عملیات کا شوق 211 - غلطی کا اعتراف 212 - فریج میں رکھا ہوا کھانا 213 - فحش خیالات 214 - فالج 215 - قلب کی سیاہی 216 - قوت ارادی 217 - قبض اور گیس 218 - قرض 219 - کر بھلا ہو بھلا 220 - کنجوس سسرال 221 - کرایہ دار 222 - کلر تھراپی 223 - کشف القبور 224 - کثرت اولاد سے پریشانی 225 - کانوں میں سیٹیاں 226 - گھر کا فساد 227 - گوشت 228 - گردوں میں پتھری 229 - گیس کا مرض 230 - لانبے بال 231 - لکنت 232 - لنگڑی کا درد 233 - ملازمت میں ترقی 234 - مستقل خارش 235 - مالی پریشانیاں 236 - مردے نظر آنا 237 - موت کے خوف سے نجات 238 - مراقبہ کی شرائط 239 - مرض کا علاج شادی 240 - منگیتر کی نفرت 241 - موت کا خیال 242 - نیند میں جھٹکے لگنا 243 - نفسیاتی بیماری 244 - نماز پڑھنے کو دل نہیں چاہتا 245 - نعمت یا زحمت 246 - نیند نہیں آتی 247 - وظیفہ کی رجعت 248 - وٹّہ سٹّہ کی شادی 249 - ہرجائی شوہر 250 - ہڈیوں کی بیماری 251 - ہمزاد اور جنات 252 - ہاتھ لگائے کھجلی ہوتی ہے 253 - ہیروئن 254 - ہڈیوں کا پنجر 255 - ہمنوا دل 256 - ہونٹوں پر داغ 257 - یہ مست اور ملنگ بندے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)