تصور شیخ

مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد اوّل)

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=24503

سوال: تصوف میں تصور شیخ کو بڑی اہمیت ہے کیا آپ اس سلسلہ میں کچھ بتانا پسند کریں گے کہ روحانی سیکھنے کے لئے تصور شیخ کیوں ضروری ہے کیا روحانیت تصور شیخ کے مراقبہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔

جواب: انسان کا ذہن اور طرز فکر ماحول سے بنتا ہے جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اس ہی طرز کے نقوش دروبست یا کم و بیش ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش گہرے یا ہلکے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرز فکر یقین بن جاتی ہے۔ اگر کوئی بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے۔ جہاں والدین اور اس کے ارد گرد ماحول کے لوگ ذہنی پیچیدگی، بددیانتی اور تمام ایسے اعمال کے عادی ہوں جو دوسروں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ ہیں ۔ تو بچہ لازمی طور پر وہی طرز قبول کر لیتا ہے اسی طرح اگر کسی بچہ کا ماحول پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہو گا۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو ماں باپ بولتے ہیں۔ وہی عادات و اطوار اختیار کرتا ہے جو اس کے والدین سے ورثہ میں اسے منتقل ہوتے ہیں۔ بچہ کا ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے اور آدھا ماحول کے زیر اثر بنتا ہے۔ یہ مثال صرف بچوں کے لئے مخصوص نہیں۔ افراد اور قوموں پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ ابتدائے آفرینش سے تاایندم جو کچھ ہو چکا ہے۔ ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب کا سب نوع انسانی کا ورثہ ہے اور یہی ورثہ قوموں اور افراد میں منتقل ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

قانون: بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شعوری اعتبار سے بالکل گورا ہوتا ہے لیکن اس کے اندر شعور کی داغ بیل پڑ چکی ہوتی ہے۔ شعور کی یہ داغ بیل ماں باپ کے شعور سے بنتی ہے یعنی ماں کا شعور(+)باپ کا شعور(=)بچے کا شعور، یہی شعور بتدریج زندگی کے تقاضوں اور حالات کے رد و بدل کے ساتھ ضرب ہوتا رہتا ہے۔

  1. بچہ کا شعور(+) ماحول کا ورثہ(=) فرد کا شعور
  2. تاریخی حالات و واقعات کا شعور(+) اسلاف کا شعور(=)قوم کا شعور
  3. تاریخی حالات و واقعات کا شعور (+) آدم کا شعور (=) اسلاف کا شعور

بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارے شعور میں آدم کا شعور شامل ہے اور یہ جمع در جمع ہو کر ارتقائی شکل و صورت اختیار کر رہا ہے۔ دو چیزیں جب ایک دوسرے میں باہم دگر مل کر جذب ہو جاتی ہیں تو نتیجے میں تیسری چیز وجود میں آ جاتی ہے۔ جیسے پانی میں شکر ملانے سے شربت بن جاتا ہے۔ پانی میں اتنی حرارت شامل کر دی جائے جو آگ کے قریب ترین ہو تو پانی کی وہی صفات ہو جائیں گی جو آگ کی ہوتی ہیں اور اگر پانی میں اتنی سردی شامل کر دی جائے جو برف کی ہے تو پانی کی وہی خصوصیات ہو جائیں گی جو برف کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب ماں اور باپ کا شعور ایک دوسرے میں جذب ہوتا ہے تو نتیجہ میں تیسرا شعور وجود میں آتا ہے جس کو ہم بچہ کہتے ہیں۔

ابھی ہم نے انسانی ارتقاء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ارتقاء شعوری حواس پر قائم ہے اس ارتقاء میں ہر آن اور ہر لمحہ تبدیلی ہو رہی ہے باالفاظ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ آن اور لمحات کی تبدیلی کا نام ارتقاء ہے۔

فطرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ البتہ جبلت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے اندر فطرت اور جبلت دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ بچہ کے اوپر جبلت کے مقابلے میں فطرت کا غلبہ ہوتا ہے جیسے جیسے والدین کے شعور کا حاصل شعور، ماحول کے شعور سے ضرب ہوتا ہے۔ اصل شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جیسے جیسے زمانہ گزرتا ہے بچہ کے اوپر جبلت غالب آ جاتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو جبلت کا غلبہ فطرت کے لئے پردہ بن جاتا ہے اور جوں جوں یہ پردہ دبیز ہوتا ہے آدمی فطرت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں جن انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس پر معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی غور کرے تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ ان پیغمبران کرام کا سلسلہ ایک ہی خاندان سے وابستہ ہے(تذکرہ ان پیغمبروں کا ہو رہا ہے جن کا تذکرہ قرآن پاک میں کڑی در کڑی کیا گیا ہے) قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق عرب کی سرزمین پر جتنے پیغمبر مبعوث ہوئے وہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنا دیا ہے۔ اس لئے قدرت اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق زمین کے ہر حصے میں پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں۔ روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے۔ لیکن سرزمین عرب پر جو پیغمبر مبعوث ہوئے اور جن کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے وہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ اس بات کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرز فکر ان کی اولاد کو منتقل  ہوتی رہی۔

ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ انسانی ارتقاء مسلسل اور متواتر شعور کی منتقلی کا نام ہے ایک ز مانہ تھا کہ لوگ غاروں میں رہتے تھے۔ پھر لوگ پتھر کے زمانے میں آ گئے اور ضروریات زندگی کا سامان دوسری دھاتوں میں منتقل ہوتا چلا گیا۔

علی ہذا القیاس نوع انسانی اسی ورثہ پر چل رہی ہے جو اس کو آدم سے منتقل ہوا ہے۔ آدم نے نافرمانی کی، اولاد کو نافرمانی کا ورثہ بھی منتقل ہو گیا۔ آدم نے عجز و انکسارکے ساتھ عفو و درگزر کی درخواست کی۔ یہ طرز فکر بھی آدم کی اولاد میں منتقل ہو گئی۔ ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ آدم کی اولاد کو وہی ورثہ ملتا ہے جس ماحول میں وہ پرورش پاتا ہے۔

طرز فکر دو ہیں۔ ایک طرز فکر بندے کو اپنے خالق سے دور کرتی اور دوسری طرز فکر بندے کو خالق سے قریب کرتی ہے ۔ ہم جب کسی ایسے انعام یافتہ شخص سے قربت حاصل کرتے ہیں جس کو وہ طرز فکر حاصل ہے۔ جو خالق سے قریب کرتی ہے تو قانون قدرت کے مطابق ہمارے اندر وہی طرز فکر کام کرنے لگتی ہے اور ہم جس حد تک اس انعام یافتہ شخص سے قریب ہو جاتے ہیں اتنا ہی ہم اس کی طرز فکر سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ اور انتہا یہ ہے کہ دونوں کی طرز فکر ایک بن جاتی ہے۔

لوح محفوظ کے قانون کے مطابق دیکھنے کی طرزیں دو ہیں۔ ایک دیکھنا براہ راست ہوتا ہے اور ایک دیکھنا بالواسطہ، براہ راست دیکھنے سے منشاء یہ ہے کہ جو چیز براہ راست دیکھی جا رہی ہے وہ کسی میڈیم کے بغیر دیکھی جا رہی ہے۔ بالواسطہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز ہمارے سامنے ہے وہ ہم کسی پردے میں، کسی ذریعہ سے یا کسی واسطے سے دیکھ رہے ہیں۔

اب ہم نظر کے اس قانون کو دوسری طرح بیان کرتے ہیں۔ کائنات میں جو کچھ ہے جو کچھ تھا جو کچھ ہو رہا ہے۔ یا آئندہ ہونے والا ہے وہ سب کا سب لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بذات خود اور انسانی تمام حواس بھی لوح محفوظ پر نقش ہیں۔ لوح محفوظ پر نقش ہونا یہ ہے کہ انسان اور انسانی تقاضے جس طرح لوح محفوظ پر نقش ہیں اس میں ان تقاضوں کی کنہ موجود ہے۔ کنہ یعنی ایسی بنیاد جس میں چوں چرا، نفی اثبات اور اینچ پیچ نہیں ہے بس جو کچھ ہے وہ ہے۔

لوح محفوظ پر اگر بھوک پیاس کے حواس موجود ہیں تو صرف بھوک و پیاس کے حواس موجود ہیں۔ جب یہ حواس لوح محفوظ سے نزول کر کے لوح دوئم میں آتے ہیں تو ان میں معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی پیاس پانی سے بجھتی ہے اور بھوک کا مداوا  غذا سے ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ براہ راست نظر کے قانون میں صرف بھوک پیاس کا تقاضا آتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ بھوک پیاس کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
بھوک اور پیاس کو کس طرح رفع کیا جائے ، یہ بالواسطہ نظر کے قانون میں آتا ہے یعنی ایک اطلاع ہے اور جب تک وہ محض ایک اطلاع ہے ، یہ براہ راست طرز فکر ہے اور جب اس اطلاع میں معانی شامل کر لئے جاتے ہیں تو یہ بالواسطہ طرز فکر بن جاتی ہے۔ اس کی مثال بہت سادہ اور آسان ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 98 تا 101

روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین :

انتساب ترتیب و پیشکش 1 - اولاد نہیں ہوتی 2 - الرجی کا علاج 3 - ایک سو پچاس چھینکیں 4 - اداسی 5 - انگلیاں کشش کا ذریعہ 6 - اولاد نرینہ 7 - اولاد نہیں ہوئی 8 - اندرونی بخار 9 - احساس کمتری 10 - استغناء اور کیلوریز 11 - انسانی وولٹیج 12 - ایک لاکھ خواہشات 13 - ایب نارمل زندگی 14 - اجمیر شریف کی حاضری 15 - آوارہ لڑکا 16 - آنکھوں کے سامنے نقطے 17 - آنکھ میں آنسو 18 - آدھے جسم میں درد 19 - آسمان 20 - آنتیں 21 - آپریشن 22 - آٹھ علاج 23 - انا للہ و انا الیہ راجعون 24 - اسلامی لباس کا تصور 25 - آرزو 26 - اندھی محبت 27 - استخارہ 28 - ایک عجیب بیماری 29 - اجتماعی خود کشی 30 - اجتماعی سکون 31 - اُم الصبیان 32 - آوازیں آتی ہیں 33 - اندرونی مریض 34 - ایمان کی روشنی 35 - اقتدار کی جنگ 36 - اولاد 37 - برص کا علاج 38 - برے خیالات 39 - بجلی کے جھٹکے 40 - بیوہ عورت 41 - بچپن کا خواب 42 - بیٹی نہیں بیٹا 43 - بے وفا شوہر 44 - بہرے پن کا علاج 45 - بخار 46 - بچوں کی نفسیات 47 - بدعقیدہ 48 - بھوت 49 - بیہوشی 50 - بزدلی کی تصویر 51 - برقی رو کا ہجوم 52 - بارونق چہرہ 53 - بھینگا پن 54 - بڑا سر 55 - بسم اللہ کی زکوٰۃ 56 - بے جوڑ شادی 57 - بال خورے کا علاج 58 - پراگندہ ذہنی 59 - پریشانیوں کا حل 60 - پرانی پیچش 61 - پولیو کا علاج 62 - پڑھنے میں دل نہ لگنا 63 - پر اسرار بیماری 64 - پیٹ کی تکلیف 65 - پسینہ آنا 66 - پیدائشی دماغی معذور 67 - پسند کی شادی 68 - پیلیا 69 - پرانی پیچش 70 - پیر صاحب 71 - پیر وہ نہیں ہوتا جو مرید بنا دیتے ہیں 72 - پرابلم 73 - پرکشش چہرہ 74 - پیر سو جاتے ہیں 75 - پچہتر ہزار روپیہ 76 - ترقی نہیں ہوتی 77 - تقدیر 78 - تیسری آنکھ 79 - تصور شیخ 80 - تخلیقی فارمولے 81 - تنہائی کا احساس 82 - ٹائی فائیڈ کے اثرات 83 - ٹیڑھا منہ 84 - ٹانگیں کپکپاتی ہیں 85 - ٹیلی پیتھی 86 - ٹیوشن 87 - ٹانگیں کمزور ہیں 88 - ٹونسلز 89 - ٹرانس پیرنٹ 90 - جادو کا توڑ(۱) 91 - جوڑوں کادرد 92 - جسم میں کرنٹ لگنا 93 - جادو کا توڑ(۲) 94 - جسم چھوٹا سر بڑا 95 - جلد بازی 96 - جسم میں آگ 97 - جنسی مسائل 98 - جادو ختم کرنے کیلئے 99 - جگر کا متاثر ہونا 100 - جسم اچھل اچھل جاتا ہے 101 - جن 102 - جھنجلاہٹ کیسے دور ہو 103 - جہیز کا مسئلہ 104 - چوکور کاغذ 105 - چمگاڈر 106 - چاند گرہن 107 - چہرے پر دانے 108 - چہرے پر چھائیاں 109 - چھپکلی کا خوف 110 - چھوٹی بیگم 111 - چہرے پر بال 112 - حضرت خضرؑ سے ملاقات 113 - حسد کی عادت 114 - حروف مقطعات 115 - حالات کی ستم ظریفی 116 - حسد 117 - حسب منشاء شادی کیلئے 118 - حقیقت آگاہی 119 - خوف 120 - خود سے باتیں کرنا 121 - خون کی بوند 122 - خوفناک شکلیں نظر آتی ہیں 123 - خیالی پلاؤ 124 - خون میں کمزوری 125 - خود ترغیبی 126 - خود غرضی 127 - خون کی کلیاں(۱) 128 - خالہ کی روح 129 - خلفشار 130 - خون کی الٹیاں(۲) 131 - خشکی کا علاج 132 - خشک خارش 133 - خواب اور ہماری زندگی 134 - دماغی خلئے اور پیدائش 135 - دل میں سوراخ 136 - دنیا بیزاری 137 - دماغی امراض 138 - دماغ کے اوپر خول چڑھ گیا ہے 139 - دستخط کیجئے اور مسئلہ حل 140 - دوپٹہ میں جوئیں 141 - دل میں درد 142 - دمہ 143 - دریا اور سبزہ زار 144 - دواؤں کا ری ایکشن 145 - دوائیں 146 - دماغ کے اعصاب 147 - دانت پیسنا 148 - دوسری شادی 149 - دماغی توازن 150 - دکھی لڑکی 151 - درخت بولتے ہیں 152 - دھوکہ 153 - ڈراؤنے خواب 154 - ذہنی سکون 155 - ذہنی مریضہ 156 - ذہنی الجھنیں 157 - ذہنی مریض 158 - روح سے ملاقات 159 - رنگ و نور کا شہر 160 - روح کا الارم 161 - روحانی غذا 162 - رشتہ کی تلاش 163 - روشن مستقبل 164 - روح اور اسلام 165 - رات بھر روتی ہوں 166 - زنانی آواز 167 - زندگی کا ساتھی 168 - زبان ساتھ نہیں دیتی 169 - زبان کھل جائے گی 170 - سکون کی تلاش 171 - سر اور معدہ 172 - سوتے میں پیشاب نکل جاتا ہے 173 - سایہ 174 - سیپ کی پوٹلی 175 - سر کے بال گر رہے ہیں 176 - سانس کی بیماری 177 - سینے میں درد 178 - سانس رک جاتا ہے 179 - سانولا رنگ 180 - سردی میں پسینہ 181 - سوچ میں ڈوبے رہنا 182 - سیاہ رنگ چہرہ 183 - سائیکالوجی 184 - سیلاب اور سیمنٹ 185 - سکون 186 - سیرت طیبہؐ 187 - شادی کے مسائل 188 - شادی 189 - شوہر لندن میں ہیں 190 - شباب آمیز کہانیاں 191 - شوہر شکل نہیں دیکھتا 192 - شفا ء دینا اللہ کا کام ہے 193 - شیطانی وسوسے 194 - شادی اور شرم 195 - شوہر کا مزاج 196 - شوہر نے آنکھیں بدل لیں 197 - شکی شوہر 198 - شادی روکنے کیلئے 199 - شوہر کی محبت 200 - شریعت اور طریقت 201 - شجر ممنوعہ کی روحانی تفسیر 202 - شکوہ 203 - ضدی بچہ 204 - طلبہ متوجہ ہوں 205 - طلسمی سانپ 206 - عقیدہ کی خرابی 207 - عشق کا سمندر 208 - علوم اور صلاحیت 209 - علاج کی ضرورت نہیں ہے 210 - عملیات کا شوق 211 - غلطی کا اعتراف 212 - فریج میں رکھا ہوا کھانا 213 - فحش خیالات 214 - فالج 215 - قلب کی سیاہی 216 - قوت ارادی 217 - قبض اور گیس 218 - قرض 219 - کر بھلا ہو بھلا 220 - کنجوس سسرال 221 - کرایہ دار 222 - کلر تھراپی 223 - کشف القبور 224 - کثرت اولاد سے پریشانی 225 - کانوں میں سیٹیاں 226 - گھر کا فساد 227 - گوشت 228 - گردوں میں پتھری 229 - گیس کا مرض 230 - لانبے بال 231 - لکنت 232 - لنگڑی کا درد 233 - ملازمت میں ترقی 234 - مستقل خارش 235 - مالی پریشانیاں 236 - مردے نظر آنا 237 - موت کے خوف سے نجات 238 - مراقبہ کی شرائط 239 - مرض کا علاج شادی 240 - منگیتر کی نفرت 241 - موت کا خیال 242 - نیند میں جھٹکے لگنا 243 - نفسیاتی بیماری 244 - نماز پڑھنے کو دل نہیں چاہتا 245 - نعمت یا زحمت 246 - نیند نہیں آتی 247 - وظیفہ کی رجعت 248 - وٹّہ سٹّہ کی شادی 249 - ہرجائی شوہر 250 - ہڈیوں کی بیماری 251 - ہمزاد اور جنات 252 - ہاتھ لگائے کھجلی ہوتی ہے 253 - ہیروئن 254 - ہڈیوں کا پنجر 255 - ہمنوا دل 256 - ہونٹوں پر داغ 257 - یہ مست اور ملنگ بندے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)