دُعا

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2419

سائنس کا یہ نظریہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ ابتدائی کلاسوں کے طالب علم کسی بچہ سے بھی اگر استفسار کیا جائے تو وہ برملا کہے گا:

ہر بات، ہر عمل، ہر کردار، انتہا یہ ہے کہ ہماری آواز ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ فضا میں لہروں کے دوش پر محو پرواز رہتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح آواز کے قطر کو سولہ سو قطر(Wave Length) سے زیادہ یا چار سو قطر سے کم کرنے پر قادر ہو جائیں تو ہم ہزاروں لاکھوں سال پہلے گزرے ہوئے اپنے اسلاف کی آوازیں سن سکتے ہیں اوران تک اپنی آرزوئیں اور تمنائیں پہنچا سکتے ہیں۔

دعا بھی ایک آرزو اور تمنا ہے۔ اس کا منتہا وہ ذات اقدس و اکبر ہے جس کے احاطہ قدرت میں ہر چیز ہے۔ وہ قادر مطلق ہے جب چاہے جس طرح چاہے کائنات کے جاری و ساری نظام میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ اب سے چودہ سو سال پیشتر مسلمانوں کے کردار کی عظمت کا غلغلہ تھا، دنیائے کفرواستبداد پر اسلام کے شیدائیوں کی حاکمیت قائم ہوتی چلی گئی۔ ہیبت و جبروت کا عالم یہ تھا کہ بیت المقدس کے محافظین نے اللہ کے پاک گھر کی کنجیاں بدست خود پیش کر دی تھیں۔ پھرایک ایسا دورآیا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط قوم فرقوں میں بٹ گئی۔ مسلمانوں میں کردار کی پاکیزگی گہنا گئی اور مسلمان سمٹتا چلا گیا۔ اتنا سمٹا اتنا کمزور ہوا کہ اس کا شیرازہ بکھر گیا۔

جب سے ہوش و حواس کا پہلا قدم زندگی کی منزل پر رکھا  ہے ایک ہی بات کانوں سے سنی، آنکھوں نے دیکھی کہ مساجد میں سجی محفلوں میں، منمبروں پر لاکھوں کے مجمع میں دعا کی جا رہی ہے کہ یا اللہ ہمیں دشمنوں پر فتح عطا کر۔ دوسری بات جو بچپن سے سننے میں آئی وہ یہ ہے کہ اسرائیلی مغضوب ہیں اور ان کی حکومت کبھی قائم نہیں ہو گی کہ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کی یہی تفسیر پیش کی جاتی ہے۔

یارو! یہ کیسا غضب ہے کہ اغیار ہمارے تشخص کو بربریئت اور ظلم و تشدد سے مسلسل پائمال کر رہے ہیں اور ہم روز افزون پستی کی طرف گامزن ہو کر ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ کی زندہ تصویر بن گئے ہیں۔ عمل سے کوسوں دور صرف دعا پر اکتفا اور تکیہ کئے یٹھے ہیں۔

جس طرح آوازیں فضا میں گشت کرتی رہتی ہیں، دعاؤں کے ساتھ عمل نہ ہو، کردار نہ ہو، اخلاص نہ ہو تو یہ دعا ئیں بھی زمین کے کناروں سے باہرنہیں نکلتیں۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق وہ دعائیں مقبول بارگاہ ہوتی ہیں جن کے ساتھ مسلسل اور پیہم عمل ہو۔ سیدنا حضور علیہ الصلوۃٰ والسلام کی مقدس اور اطہر زندگی ہمارے سامنے ہے۔ حاصل کائنات اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے محض زبانی جمع خرچ کا درس نہیں دیا ۔ مسلسل حرکت اور جد و جہد سے تعبیر زندگی کا اعلیٰ و ارفع نمونہ پیش کیا ہے۔ ہم زبانی دعویٰ تو بہت کرتے ہیں مگر عمل کے میدان میں ہماری حیثیت برگ و بار کی نہیں کانٹوں کی ہے۔ کون نہیں جانتآجھوٹ، اقربا نوازی، ذخیرہ اندوزی، غیبت، آپس میں پھوٹ ڈالنا، دوسروں کو کمتر جاننا، زندگی کے بلند معیار کے افسوں میں خود کو گرفتار کر لینا کربناک عذاب ہے۔ ہم دوزخ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ہانفِ غیبی آوازیں دے رہا ہے کہ جدھر کا رُخ ہے وہ صعوبت کی راہ ہے مگر افسوس سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہم نے اپنی زندگی کو عقوبت خانہ بنا لیا ہے۔

ہادی برحق ، سرتاج انبیاء، مجسم رحمت، محسن انسانیت ﷺ نےایک ایسے شخص کا ذکر فرمایآجو لمبی مسافت طے کر کے مقدس مقامات پر حاضری دیتا ہے۔ غبار میں اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے،

اے میرے رب! اے میرے رب!

حالاں کہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام ہی سے اس کے جسم کی نشوونما ہوئی ہے۔ تو ایسے شخص کی دعا بھلا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔

آج کے معاشرے میں ہماری روزی، ہمارا رہن سہن، ہمارا معیارِ زندگی، ہمارا قول و فعل رسولؐ اللہ، کی زندگی سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 34 تا 36

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)