پَرواز

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6208

اے آدم زاد! اپنے حافظے کی اسکرین پر پڑے ہوئے پردوں کو چاک کر دے اور اندرجھانک۔ کیا تجھ کو وہ سہانہ زمانہ یاد نہیں آتآجب تو آزاد فضاؤں میں سانس لیتا تھا، بھوک پیاس کی تکلیف تھی نہ دھوپ جھے ستاتی تھی، نہ کوئی ڈر تھا نہ پریشانی، ملال کیا ہوتا ہے تو اس سے واقف نہ تھا۔ جہاں سے دل چاہے خوش ہو کرکھا تا تھا۔ زمانی و مکانی فاصلے تیرے پیر کی زنجیر نہ تھے۔ خوشی سے سرشار پنچھی کی طرح لامکانی وسعتوں میں تیری پرواز زبان زدِ ملائکہ تھی۔
اے میرے بھائی! ذہن پر ذرا زور تو ڈال۔ کیا تجھے کچھ یاد نہیں، تو نے کیوں اُن سنہری دنوں کی یاد کو فراموش کر دیا ہے؟ ماضی کے تہ خانے میں دفن یہ یادیں کیا تجھے بے چین و بے قرار نہیں کرتیں؟ کسی پُرفضا مقام پر گزارے ہوئے دن یا کسی یا کسی صحبت میں بیتے ہوئے چند خوبصورت لمحات کو تو ساری عُمر یاد رکھتا ہے۔ لیکن یہ عظیم لمحات کیا تیرے شعور کے دروازے پر کبھی دستک نہیں دیتے؟
اگر تجھے کچھ یاد نہیں آتا، تو سن، تو نے کفرانِ عظیم کیا ۔ تو نے جان بوجھ کر خود کو تکلیف و رنج کے حوالے کر دیا ، آزادی کی نعمت کو ٹھکرا کر غلامی کا طوق اپنے گلے میں پہن لیا، پابندیوں کو اپنے پیروں کی بیڑیاں بنا لیا۔ ایک سوئی کی جگہ شک اور انتشار کو اپنے اندر جگہ دے دی، آزاد پنچھی ہو کر صیّاد کو خود دعوت دی کہ آ، مجھے قید کر لے۔ تو نے اپنی لامتناہی صلایتوں کو تناہیت کے اندھیرے غاروں میں دھکیل دیا ۔ تیری ان حرکتوں سے آسمان رو دیا ۔ اور فرشتوں نے ندامت سے سر جُھکا لیا۔
اے آدم و حوا کے سپوت! سنبھل، تجزیہ کر اور اپنی حال کو دیکھ، پابندویوں کے جال نے تجھے اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اب تیرا باہر نکلنآجوئے شیر لانا ہے۔ تجھ پرمصائب کی ایسی یلغار ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ پیٹ کی آگ بُجھانے کے لیئے تو در بدر مارا مارا پھرتا ہے۔ مستقبل کا خوف تجھے ہر وقت لرزاں رکھتا ہے۔ تو خوشی اور راحت کی ضمانت چاہتا ہے لیکن کہیں سے نہیں ملتی۔
اور دیکھ ! تو نے آزادی اور مسرت کی حقیقی قدروں کو سمجھنے کے بجائے جو فرضی قدریں اپنے اوپر مسلط کر لی ہیں ان کے نتائج اس قدر ہو لناک ہیں کہ چند لقموں کے لیئے اپنے بھائی کی گردن کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ترقی کے خوشنما لبادوں میں محجوب دھرتی کو تو نے سرخ خون سے رنگین کر دیا ہے۔ مصائب کے اندھیرے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ روشنی کی کرنیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ تیرے اوپر خود فراموشی کا اتنا غلبہ ہے کہ تو نے اپنی عظمت کو گہنا دیا ہے۔ تو اللہ کا نائب ہے لیکن مادّیت اور کثافت نے تجھے لطافت اور پاکیزگی سے محروم کر دیا ہے۔
آدم کے بیٹے ! تو نے اپنی ابدی اور لافانی زندگی کو تہ در تہ پردوں کے پیچھے چھپا تو لیا ہے اور اسے اپنے اندر دفن بھی کر دیا ہے لیکن میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔
تجھے جھنجھوڑتا رہوں گا۔ چاہے تو متوجہ ہو یا نہ ہو۔
قدرت کی فیاضی شاہد ہے کہ اس نے مادّی خدوخال سے مرکب اپنے پیغامبر تیرے پاس بھیجے اور تجھے بار بار تیرے وطنِ مالوف کی طرف لو ٹنے کی تلقین کی لیکن تو نے ہمیشہ ناشکری کی۔
اے آدم زاد ! میری بات پر دھیان دے۔ میں جو تیرا ضمیر ہوں، تیرے اندر کی آواز ہوں__________ تیرے با طن کی پکار ہوں۔ دیکھ، میرا گلا نہ گھونٹ، میری طرف متوجہ ہو ورنہ اسی طرح مصائب کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا۔ اور اندھوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔

اے فرزند آدم ! اپنے گلے میں پڑے ہوئے غلامی کے طوق کو اتار پھینک۔ زمان و مکان کی مفروضہ پابندیوں کے جال کو کاٹ دے ۔ غم و آلام کے بجائے خوشی اور مسرت کا لبا دہ اوڑھ لے۔ یہ جو تونے ہزاروں بُت سجا رکھے ہیں ان کی بندگی میں مصروف ہے کہ کوئی دولت کا خدا ہے کوئی عزت و شہرت کا تو کوئی جھوٹی خواہشات کا خدا ہے۔
آگے بڑھ اور ابراہیمی گُرز سے انہیں پاش پاش کر دے اور آزادی کا مزہ چکھ لے۔ جو تو اپنی غلطی سے کھو بیٹھا ہے۔ اس تیرہ و تاریک عالم سے نظریں ہٹا کر اس روشن دنیا کو بھی دیکھ جہاں ایک آزاد فضا تیری منتظرہے۔ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے “اے آدم ! تو اور تیری بیوی بیوی (دونوں) جنت میں سکون کے ساتھ رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کرکھا ؤ۔”

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 77

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)