نورا نی چہرے

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6235

قلندر شعور بیدار ہوا تو ۔۔۔۔۔۔
عالمِ غیب و شہود میں ایک دانائے راز سے ملا قات ہوئی گو کہ دانائے راز گوشت پوست اور ہڈیّوں کے پنجرے پر گوشت پوست کے تانے بانے سے مرکب نہیں تھا لیکن اس ماورائی جسم میں ٹھوس نظر آیا اور گوشت پوست کے ہاتھوں نے جب اس کے گوشت پوست سے آزاد ماورائی ہاتھوں سے مصافحہ کیا تو لمس میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ ماورائی ٹھوس جسم سے جب ذہنی ہم آہنگی ہوئی تو شعور اس دانائے رازِ ہستی سے مانوس ہو گیا۔
سوال کیا : اللہ تعالےٰ کون ہیں، کیسے ہیں، کیا کرتے ہیں اور کہا ں رہتے ہیں ؟
دانائے راز کی نیم کھلی، مخمور آنکھوں پر پلکوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ، چہرے پر عرفان و آگہی کا تاثر گہرہ ہو گیا۔ میرے سوال کے جواب میں اس مردِ آگاہ نے سوال کیا ۔ “اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کرنے کے بعد ان میں توازن قائم کیا — سوال یہ ہے کہ کیا تم خود کو جانتے ہو ؟”
ظاہر ہے کہ اس سوال کآجواب میرے پاس کچھ نہ تھا۔
دانائے راز ہستی نے کہا ۔ “آسمانی رفعتوں سے زمین کی طرف دیکھو۔۔۔! ”
میں نے دیکھا کہ زمین میں ایک ننھا سا بیج ڈالا گیا ہے۔ زمین نے مامتا کے جذبات سے بے تاب ہو کر اس بیج کو اپنے پیٹ میں محفوظ کر لیا اور اپنی تخلیقی صلاحیتیں اس بیج میں منتقل کر دیں۔ دیکھا کہ زمین سے ایک ننھا سا پودا پھوٹا یا یوں کہیں کہ بیج کے دو پرت نہایت نرم و نازک دو پتے بن کرنمودار ہوئے۔ جڑ اس قدر کمزور ہے کہ براہِ راست زمین سے غذا حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ ننّھا سا پودا بیج سے نکلے ہوئے دو پتوں سے اپنی غذا حاصل کر رہا ہے۔ رفتہ رفتہ جڑ ذرا مضبوط ہوئی اور اس کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو گئی کہ وہ براہ راست زمین سے غذا حاصل کر سکے۔ جیسے ہی یہ صلاحیت بیدار ہوئی بیج کے دونوں پرت جھڑ گئے۔ اب پودے نے زمین سے براہ راست غذا حاصل کرنی شروع کر دی۔ شب و روز اور ماہ و سال کے اس عمل نے اس ننھی سی جڑ کو ایک تناور درخت بنا دیا ۔ ایسا درخت جو زمین سے بھی غذا حاصل کرتا ہے اور فضا سے بھی روشنیوں کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔
آدم زاد جب ماں کے پیٹ میں منتقل ہوا تو اس کی پیدائش میں بھی یہی تخلیقی عوامل نظر آئے۔ ماں کے پیٹ میں آدم زاد کے لیئے گہیوں کی روٹی تھی اور نہ کسی قسم کا پھل تھا اور نہ ہی وہاں با ورچی خانہ کا کوئی انتظام تھا۔ آلاتِ ہضم اتنے کمزور اور نجیف تھے کہ آدم زاد ان غذاؤں کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ماں کے اندر تخلیقی صلاحیت نے ماں کے سینے کو دودھ جیسی صاف، زود ہضم اور لطیف غذا سے بھر دیا اور جب بچہ نمودار ہوا تو دودھ کے دو (۲) چشمے ابل پڑے اور جب اس چشمے کی ضرورت باقی نہیں رہی تو یہ چشمے سوکھ گئے۔
یہ ایک ایسا نظام ہے جو ازل سے جاری ہے۔ اور ابد تک قائم رہے گا۔ مردِ دانائے راز نے اپنی مخمور اور غزالی آنکھیں میرے اوپر مرکوز کر دیں۔ مجھے نظر آیا کہ اس کی آنکھوں کے اندر سے لہریں نکل کر میرے دماغ میں جذب ہو رہی ہیں۔ جب جذب ہوتی ہوئی لہروں کے ذخیرے سے دماغ معمور (OVER FLOW) ہو گیا تو یہ لہریں باہر نکلنے لگیں۔ یہ لہریں ایک سیّال چیز نظر آئیں۔ تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ لہریں پانی ہیں۔ دانائےِ راز نے سیدھے ہاتھ کی انگشتِ شہادت دونوں نتھنوں کے بیچ میں ناک کی جڑ پر رکھی۔ یہ دیکھ کر حیرت کی انتہاء نہیں رہی کہ موجودات میں ہر چیز کی بنا (BASE) پانی ہے۔ جو ایک پائپ کے ذریعے صعود اور نزول میں رواں دواں ہے۔ ماں کے پیٹ میں یہی پانی شکل بدل کر ایک پائپ کے ذریعے بچّے کی غذا بنتا ہے۔ پھر یہی پانی دودھ بن جاتا ہے، آم کے درخت میں آم، بیر کے درخت میں بیر، سیب کے درخت میں سیب اور کیلے کے درخت میں کیلا بنتا رہتا ہے۔ یعنی میٹر یا مادّہ ایک ہے اور مختلف درختوں میں جا کر مختلف صورت میں جلوہ گر ہو رہا ہے۔ یہی پانی کبھی ایک رنگ پھول بن جاتا ہے اور کبھی ایک پھول میں بے شمار رنگ بن جاتا ہے۔
قرآن میں ہے:
اور وہی ذات بابرکت ہے جو آسمان سے پانی نازل کرتی ہے اور پانی سے قسم قسم کے پھل اور طرح طرح کی نوعوں کو وجود میں لاتی ہے۔
یہی پانی کسی خول کو خدوخال کے ساتھ خوبصورت بنا تا ہے اور یہی پانی کسی خول کو بدصورت بنا دیتا ہے۔ پانی کی یہ کارفرمائی اتنی گہری اور عمیق ہے کہ اس کو سمجھنا دراصل نظامِ کائنات کاعر فان حاصل کر لینا ہے۔
تخلیق کے اس نظام پر غور کرنے والے لوگ یہ جان لیتے ہیں کہ کائناتی تخلیقی پروگرام ایک رشتہ میں منسلک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ موجودات میں دو نوعیں انسان اور جن اس نظام کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ باقی نوعیں اس نظام کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ یہ نوعیں اس نظامِ کائنات کو سمجھنے کی اہل اس لیئے نہیں ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالےٰ کی پیش کردہ امانت کو قبول نہیں کیا ۔ اور آدم زاد اس پرپیچ نظام کو اس لیئے سمجھنے کی قدرت رکھتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ امانت کو قبول کر لیا۔ اس بات کو قرآن یوں بیان کرتا ہے۔
“اور ہم نے اپنی امانت پیش کی سماوات کو، زمین کو، پہا ڑوں کو لیکن سب نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہم اس امانت کے متحمّل نہیں ہو سکتے اور انسان نے بغیر سوچے سمجھے اس امانت کو قبول کر لیا۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔”
ظلم اور جہالت یہ ہے کہ آدم کے پاس اللہ تعالیٰ کی وہ امانت موجود ہے جس امانت سے کائنات کی ساری مخلوق محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ آلِ عمران میں فرماتے ہیں:
“وہ دن آکر رہے گآجب بعض چہرے نورانی ہو جائیں گے اور بعض تا ریک۔ سیاہ رُو لوگوں سے کہوکہ تم نے اللہ کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے احکام سے انحراف کیا ، اب اس بد کاری کی سزا بھگتو اور باقی وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی امانت قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہر چیز سے زیادہ مقدّم رکھا ، ان کے چہرے نورانی ہوں گے۔ اور ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی دائمی رحمت نازل ہوتی رہے گی۔”

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 167 تا 169

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)