اڑن کھٹولے

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6256

زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات، واردات و کیفیات، تصوّرات و خیالات اور زندگی سے متعلق تمام دل چسپیاں اس وقت تک قائم ہیں جب تک سانس کی آمد و رفت جاری ہے۔ زندگی کا دار و مدار سانس کے اوپر قائم ہے۔ سانس کی طرزوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذی رُوح میں سانس کا نظام قائم و دائم ہے لیکن ہر نوع میں سانس کے وقفے متعیّن ہیں مثلاً یہ کہ آدمی کے اندر سانس کے ذریعے دل کی حرکت متعینہ وقت میں ۷۲ ہے تو بکری میں اس سے مختلف ہو گی۔ چیونٹی میں اس سے بالکل مختلف ہو گی۔
کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیا جائے کہ جس سے درخت کے سانس کی پیما ئش ہو سکے تو اس کی سانس کی دھڑکن بولنے والی مخلوق سے مختلف ہو گی اور اگر ہم ایسا آلہ ایجاد کر لیں جس سے پہاڑ کی نبض کی حرکت ریکارڈ کریں تو وہ درخت کے اندر کام کرنے والی نبض کی حرکت سے مختلف ہو گی۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایک سانس آتا ہے، ایک سانس جاتا ہے یعنی ایک سانس ہم اندر لیتے ہیں اور ایک سانس باہر نکالتے ہیں۔ یہ بات بھی ہم سب کے سامنے ہے کہ پُرسکون حالت میں سانس میں ایک خاص قسم کا توازن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پریشانی، غم یا اضطراب میں سانس کی کیفیت مختلف ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی ڈر جائے تو اس کے دل کی حرکت تیز اور بہت تیز ہوجاتی ہے۔ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ دل کی حرکت کے ساتھ سانس کی حرکت بھی تیز ہو جاتی ہے۔ سانس کے دو (۲) رُخ ہیں ایک رُخ یہ ہے کہ ہم سانس اندر لیتے ہیں یعنی سانس کے ذریعے آکسیجن جذب کرتے ہیں اور دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائید خارج کرتے ہیں۔
یہاں پر بہت غورطلب نکتہ یہ ہے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو کوئی چیز اندر جا کر جلتی ہے یعنی فضا میں جو آکسیجن پھیلی ہوئی ہے وہ سانس کے ذریعے اندر جا کر جلتی ہے جیسے گاڑی کے اندر پٹرول جلتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جلا ہوا فضلہ باہر نکل جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پیدائش سے موت تک برقرار رہتا ہے۔ اب ہم اس کو رُوحانیت کی طرز پر بیان کرتے ہیں۔
اللہ تعالےٰ کے ارشاد کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ ہم جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رُخ باطن (INNER) کی طرف ہوتا ہے۔ ہم جب سانس باہر نکالتے ہیں تو ہماری تمام دلچسپیاں دنیا، دنیا میں پھیلی ہوئی چیزوں اور اپنے گوشت پوست کے حواس کے ساتھ قائم رہتی ہیں۔ حواس کے دو (۲) رُخ ہیں ایک رُخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان (TIME AND SPACE) میں قید کرتا ہے۔ دوسرا رُخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان سے آزاد کرتا ہے۔ نیند کی حالت میں ہمارے اوپر غالب رہتا ہے یعنی جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارے شعوری حواس کی نفی ہو جاتی ہے اور ہمارے اوپر سے زمان و مکان (TIME AND SPACE) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو (TIME AND SPACE) سے آزاد حواس عارضی طور پر ہم سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق خواب اور بیداری دو رُخ ہیں۔ یعنی انسان کی زندگی دو (۲) رُخ یا دو حواس سے مرکّب ہے۔ ایک کا نام دن یا بیداری ہے اور دوسرے کا نام خواب یا رات ہے۔ رات کے حواس میں ہر ذی رُوح مخلوق TIME AND SPACE سے آزاد ہو جاتی ہے۔ دن کے حواس میں ہر ذی رُوح مخلوق TIME AND SPACE کے حواس میں قید ہو جاتی ہے۔ زندگی کا قیام سانس کے اُوپر ہے اور سانس کے دو (۲) رُخ ہیں۔ ایک رُخ یہ کہ سانس ہم اندر لیتے ہیں اور دوسرا رُخ یہ کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں۔ سانس کا اندر جانا ہمیں ہماری رُوح سے قریب کر دیتا ہے اور سانس کا باہر آنا ہمیں اس حواس سے قریب کرتا ہے جو حواس ہمیں رُوح کی معرفت سے دور کرتے ہیں۔ جب ہم آنکھیں بند کر کے یا کھلی آنکھوں سے کسی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تو ساننس اندر لینے کا وقفہ زیادہ ہو جاتا ہے یعنی ہماری شعوری توجہ رُوح کی طرف ہو جاتی ہے۔
تصوف کے اوپر اب تک جتنی رُوحانی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں رُوحانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا ہے لیکن اس علم کو ایک اور ایک دو، دو اور دو چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سے رموز و نکات بیان کئے گئے پھر بھی رموز و نکات پردے میں اس لیئے ہیں کہ ان رموز و نکات کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں۔ یا جو حضرات راہِ سلوک میں سفر کر چکے ہیں۔
ہمارے اسلاف نے یہ بھی فرمایا کہ رُوحانی علوم چوں کہ منتقل ہوتے ہیں، اس لیئے ان کو محفوظ رہنا چاہیے اور ان کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم کا نام علم سینہ رکھ دیا گیا۔ اسلاف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ رُوحانی علوم حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج (مافوق الفطرت باتوں) کو چھپا لینا چاہیئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی نہیں تھی جتنی صلاحیت آج موجود ہے۔ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج سائنس دانوں نے آواز کا طول موج (WAVELENGTH) دریافت کر لیا ہے۔ خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا بھی کرامت (مافوق الفطرت) بیان کیا جاتا تھا۔
آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر پوری کی پوری تصویر منتقل ہو جاتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں صرف پچاس سال پہلے لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اُڑاتے تھے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آدمی لہروں سے مرکّب ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مرکّب ہے، وہ آدمی کی ایک جگہ سے گزرنے کے بعد بھی تصویر لے لیتے ہیں۔
پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو اڑان کھٹولوں کے قصے سنایا کرتی تھیں کہ ایک اڑان کھٹولا تھا۔ اس پر ایک شہزادی اور شہزادہ بیٹھے اور اُڑ گئے۔ دادی اور نانی کے وہی اڑن کھٹولے آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ ہم اس میں بیٹھ کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سفر بھی کرتے ہیں۔
ان تمام مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سائنس کی ترقی سے پہلے نوعِ انسانی کی صلاحیت اتنی نہیں تھی کہ رُوحانی رموز و نکات اس کی سمجھ میں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دئیے۔ لیکن آج کے دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور سکت، فہم اور تفکر اتنا زیادہ طاقت ور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں آج وہی چیزیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہیں۔ جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھتی گئی، شعور طاقت ور ہوگیا۔ ذہانت میں اضافہ ہوا۔ گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی۔
سائنس کی ترقی سے یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔
یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دُور ہو گیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا مطمع نظر زیادہ تر دنیاوی آرام و آسائش کا حصول ہے۔ چوں کہ دنیا خود بے یقینی کا سمبل (SYMBOL) اور فکشن (FICTION) ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لیئے یہ ترقی بھی ہمارے لیئے عذاب بن گئی۔ اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود سائنسی علوم کے پھیلاؤ سے بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذوق پیدا ہوا جو ہمیں رُوحانیت سے قریب کرتے ہیں۔
اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیز پچاس پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھی اب وہی چیز ارادے کے اندر یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جاتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 245 تا 249

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)