ماضی اور مستقبل

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6244

جب ہم زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک ہی حقیقت آتی ہے کہ آدم کا ہر بیٹا اور حوّا کی ہر بیٹی خوش ہر کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن زندگی کا مادّی نظریہ ہر قدم پر انہیں مایوس کرتا ہے۔ اس لیئے کہ ہماری زندگی کا ہر ہر لمحہ فانی اور متغیّرہے۔ مادّی اعتبار سے ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ سچّی خوشی کیا ہوتی ہے اور کس طرح حاصل کی جاتی ہے۔ حقیقی مسرّت سے واقف ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ ہم اپنی اصل بنیاد (BASE) کو تلاش کریں۔
جب ہم کچھ نہیں تھے تو کچھ نہ کچھ ضرور تھے، اس لیئے کہ کچھ نہ ہونا ہمارے وجود کی نفی کرتا ہے۔ ہماری مادّی زندگی ماں کے پیٹ سے شروع ہوتی ہے اور یہ مادہ جب ایک پروسیس (PROCESS) سے گزر کر اپنی انتہاء کو پہنچتا ہے تو ایک جیتی جاگتی تصویر عدم سے وجود میں آجاتی ہے۔ ماحول سے اس تصویر کو ایسی تربیت ملتی ہے کہ اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ سچی خوشی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور کس طرح یہ سچی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
حقیقی مسرّت سے ہم آغوش ہونے کے لیئے انسان کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ زندگی کا دارومدار صرف جسم پر ہی نہیں ہے بلکہ اس حقیقت پر ہے جس حقیقت نے خود اپنے لیئے جسم کو لباس بنا لیا ہے۔ پیدائش کے بعد زندگی کا دوسرا مرحلہ ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ ہمارا ہر ہر لمحہ مرتا رہتا ہے اور ہر لمحے کی موت دوسرے لمحے کی پیدائش کا ذریعہ بن رہی ہے۔ یہی لمحہ کبھی بچپن، کبھی لڑکپن، کبھی جوانی اور کبھی بڑھاپے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ہم اس حقیقت تک رسائی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم یہ جان لیں کہ جیتی جاگتی تصویر ایک جسم نہیں بلکہ ایک شعورہے۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اسے باکل شعور بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ شعور ہماری پہچان کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے اوپر ساری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جسم کے ختم ہونے پر مادّی کثافت اور آلودگی ختم ہو جاتی ہے لیکن یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جسم کے ختم ہونے کے بعد شعور فنا نہیں ہوتا بلکہ شعور کسی دوسرے عالم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں۔ ان سب میں ایک ہی بات کا بار بار تزکرہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی صرف مادّی جسم نہیں بلکہ ایک شعورہے۔ ہم جب پیدائش سے موت تک کی زندگی کا تزکرہ کرتے ہیں تو یہ جان لیتے ہیں کہ جس شعور کی بنیاد ماں کے پیٹ میں پڑی تھی وہ شعور ایک طرف گھٹتا رہتا ہے اور دوسری طرف بڑھتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے شعور گھٹتا ہے آدمی ماضی میں جاتا رہتا ہے اور جیسے جیسے شعور بڑھتا ہے آدمی مستقبل میں قدم رکھتا ہے۔ شعور کا گھٹنا بڑھنا عمر کا تعیّن کرتا ہے۔ شعور کے ایک زمانے کو”بچپن” کہتے ہیں، شعور کے دوسرے زمانے کو “جوانی” اور شعور کے تیسرے زمانے کو “بڑھاپا” کہتے ہیں۔ بالآخر جو شعور اس مادّی زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے اور جس شعور پر یہ جسم ارتقائی منازل طے کر رہا ہے وہ قائم رہتا ہے۔
ہم جب اپنے آپ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک محدود اور فنا ہونے والآجسم ہے اور یہی ہماری زندگی کی پہچان ہے۔ اور یہ جسم جو ہمیں نظر آتا ہے اس کے اجزائے ترکیبی کثافت، گندگی، تعفن اور سڑاند ہیں۔ اس سڑاند کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں مادّہ ہوں اور میں اس مادّی دنیا کی پیدائش ہوں۔ یہ محدود نظریہ ہر آدمی کو کسی مقام میں محدود کر دیتا ہے۔ اور ہر آدمی ایک محدودیت کے تانے بانے میں خود کو گرفتار کر لیتا ہے اور اس طرح محدود اور پابند نظریے کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ زمین پر بسنے والا ہر آدمی جب اپنا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے میں مسلمان ہوں، میں ہندو ہوں، میں پارسی ہوں، میں عیسائی ہوں حالانکہ رُوح کا کوئی نام نہیں رکھا جا سکتا۔ روشنی ہر جگہ روشنی ہے چاہے وہ عرب میں ہو، عجم میں ہو یا یورپ میں ہو یا ایشیا کے کسی حصّے میں۔
اللہ کا نظام کچھ اس طرح قائم ہے کہ اس دنیا میں جو اللہ کا پیغام آیا وہ اپنے الفاظ کے ساتھ قائم ہے۔ عیسائیوں کے لیئے بائبل کے الفاظ مذہب کا درجہ رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے لیئے قرآن مذہب کا پیش رَو ہے۔ ہندو بھگوت گیتا کے الفاظ کی عبادت کرتے ہیں۔
سب آسمانی کتابیں دراصل خدا کے برگزیدہ بندوں کی وہ آوازیں ہیں جو روشنی بن کر تمام عالم میں پھیل گئی ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 201 تا 203

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)