چڑیاگھر
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6222
کراچی کے چڑیا گھر میں شیرنی کے نومولود بچّوں کودیکھنے کے لیئے ایک ہجوم جمع ہے۔ ننّھے منّے بچّے رنگ رنگ لباس پہنے ہوئے شیرنی کے پنجرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ اور شیرنی کے بچوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ شیرنی مامتا کے ساتھ اپنے بچّوں کے قریب بیٹھی ہوئی اپنے بچّوں کی طرح آدم کے بچّوں کو بھی شفقت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ کبھی کبھی اپنے بچّوں کی شرارت کو نا پسندیدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور انہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں منع کرتی ہے۔ لیکن بچّے ہیں کہ شررات سے باز نہیں آتے۔ اور شیر کے بچّوں کی شرارت، اچھل کود سامنے کھڑے ہوئے آدم زاد بچّوں کے لیئے تفریح کا سامان فراہم کر رہی ہے۔ ذرا دور، شیر بھی باوقار انداز میں ٹہل رہا ہے۔ وہ بھی بُردبادی کے ساتھ اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش توہو رہا ہے لیکن چہرے سے کوئی خا ص تاثر قائم نہیں ہونے دیتا۔ ویسے نگرانی پوری اور سخت ہے۔۔۔۔۔
میری اچٹتی ہوئی نظر جنگل کے بادشاہ شیر پر پڑی تو میں اس کی آنکھوں میں سحر اور چمک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شیر کی آنکھوں سے میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے محسوس ہوا کہ شیر کے دماغ میں خیالات بننے والی لہریں آنکھوں کے ذریعے شیر کی آنکھوں کے اندرونی عضلات (MUSCLES) سے ٹکرا رہی ہیں اور پھر یہ لہریں میرے دماغ کی اسکر ین پر منعکس ہو کر کوئی پیغام دے رہی ہیں۔
اس صورتِ حال سے میں پہلے تو گھبرا گیا کہ کہیں شیر بھی کوئی پیغام دے سکتا ہے۔ یہ بے زبان درندہ مجھ جیسے اشرف المخلو قات سے کیا کہہ سکتا ہے؟
جیسے ہی ذہن میں یہ خیال آیا کہ شیر درندہ ہے شیر کی مخمور آنکھوں میں خمار کے طوفان اٹھ کھڑے ہوئے اور نشریات کا دبا ؤ اتنا زیادہ ہو گیا کہ میں شیر کی گفتگو سننے پر مجبور ہو گیا۔ شیر مجھ سے ٹیلی پیتھی کے طریقے پر گفتگو کر رہا تھا۔ اس نے طنز بھرے لہجے میں کہا :۔
اے آدم زاد ! تو مجھے درندہ کہتا ہے۔ درندگی کی تعریف یہی تو ہے کہ میں اپنے سے کمزور جانوروں کا شکار کر کے اپنا پیٹ بھرتا ہوں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ شیر گوشت کھائے تو وہ درندہ ہے اور آدمی جو اپنا شوق پورا کرنے کے لیئے چھوٹی سے چھوٹی چڑیا کو بندوق سے شکار کرتا ہے اور گوشت کھاتا ہے۔ درندہ نہیں ہے۔
شیر کی یہ بات سن کر میرا شعور لزرنے لگا۔ میں نے بہت چاہا کہ تاویل میں شیر سے کچھ کہوں مگر میرا سارا علم اور اشرف المخلوقا ت ہونے کا سارا غرور سر کے بَل آرہا۔ اب میں شیر کی آنکھوں میں سے نکلنے والی لہروں سے راہ فرار اختیار کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ میرے اوپر شیر کے بچّوں کی ماں نے اپنی نظریں گاڑ دیں اور یوں گویا ہوئی:۔
اے آدم زاد !
تو کس برتے پر اکڑتا ہے؟ دیکھ، میری طرف دیکھ ! مجھ سے آنکھیں نہ چُرا، میں مؤنث ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے اوپر جنس مسلّط نہیں رہتی۔ ہم اس کو تفریح طبع کے لیئے استعمال نہیں کرتے بلکہ قانونِ قدرت کے تخلیقی نظام میں اپنا کردار پورا کرنے کے لیئے یہ عمل انجام دیتے ہیں۔
اے اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرنے والے !
ذرا سن ۔۔۔۔۔۔ یہاں کچھ دنوں پہلے تیری نوع کا ایک آدمی آیا تھا۔ یہ جو میرا شوہر ہے نا، یہ ذرا فلسفی اور منطقی مزاج رکھتا ہے۔ بیٹھے بٹھائے اُسے کیا سوجھی کہ اُس آدم زاد سے اُلجھ پڑا اور کہنے لگا کہ میں تجھ سے زیادہ زور آور ہوں۔
آدمی نے کہا ! “نہیں میں تجھ سے زیادہ زور آور ہوں۔”
میرے شوہر نے ا س کی دلیل مانگی توآدمی نے اپنی جیب سے ایک فوٹو نکال کر اسے دکھایا۔ اس تصویر میں آدمی شیر کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔
شیر نے کچھ دیر غور کیا ۔ پھراس آدمی سے پوچھا ۔”یہ تصویر کس نے بنائی ہے؟”
آدم زاد نے جواب دیا ۔ “یہ تصویر آدمی نے بنائی ہے۔”
شیر نے ایک زور دار قہقہہ لگایآجس سے سارا چڑیاگھر زیر و زبر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ پھر شیر نے کہا ۔ “اے آدم زاد ! تو کتنا بے وقوف اور جاہل ہے کہ اتنی سی بات بھی تیرے شعور میں نہیں آئی ۔۔۔۔۔ ! اگر یہ تصویر کسی شیر نے بنائی ہوتی تو شیر اوپر ہوتا اور آدمی نیچے ہوتا ۔”
بچوں کی اُچھل کُود اور آس پاس کے شور و شغب نے شیرنی سے میرا رابطہ توڑ دیا اور کچھ نہ سوچنے کے ارادے کے باوجود بہت کچھ سوچتے ہوئے چڑیاگھر سے واپس آگیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 126 تا 128
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔