پیو ند کا ری

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6223

ہوا یوں کہ رات کے وقت سوتے سوتے اچانک آنکھ کھلی تو تجربے میں یہ بات آئی کہ سو کر اٹھنے کے بعد دماغ خالی خالی رہتا ہے۔ جب تک پلکوں کی جنبش بار بار آنکھ کے ڈیلوں کو مضروب نہ کرے دماغ میں کوئی خیال نہیں آتا۔ کیوں کہ آنکھ اچانک کھلی تھی، اس لیئے پلکوں کی جنبش میں کچھ تاخیر ہوئی۔ جتنی تاخیر ہوئی اسی مناسبت سے دماغ خالی رہا۔ شعوری طور پر دماغ خالی تھا لیکن لاشعور کی جھلک دماغ کی اسکرین (SCREEN) پر کچھ اس طرح پڑی کہ پہلے ایک چکا چوند سی ہوئی پھر اس چکا چوند میں ایک رال کا گولہ سا پھٹا۔ یہ رال کا گولا کیا ہے؟ اس کا مشاہدہ میں نے ۶۵ء ؁ اور ۷۱ء ؁ کی جنگ میں کیا تھا۔ جب ریڈار (RADAR) کے اوپر تصویر منعکس ہوتی ہے کہ ہوائی جہاز حملہ کرنے والے ہیں تو آسمان کے اوپر آسمان کو روشن کرنے کے لیئے گولے پھینکے جاتے ہیں اور یہ گولے نہایت سفید روشنی سے فضا کو روشن اور منوّر کر دیتے ہیں۔ یہ گولے دراصل رال کے ہوتے ہیں ۔
مرکری ( MURCURY) روشنی جب دماغ سے پھوٹی تو اندر کی آنکھ نے یہ دیکھا کہ تخلیق ڈائیوں (DYES) میں ہو رہی ہے۔ یعنی کائنات میں موجود جتنی اشیاء ہیں، ان سب کے لیئے ایک ایک ڈائی (DYE) مخصوص ہے۔ جس طرح چڑیا کی ڈائی میں پلاسٹک ڈال کر چڑیا بنا لی جاتی ہے اور کبوتر کی ڈائی میں یہی پلاسٹک ڈال کر کبوتر بنا لیآ جاتا ہے۔ اسی طرح قدرت کی بنائی ہوئی ڈائیوں میں مصالحہ (MATTER) ایک خاص طریقہ کار (PROCESS) سے منتقل ہوتا رہتا ہے اور نئی نئی صورتیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔
تخلیق کرنے والی ایک واحد ہستی ہے جس نے ایک دوسری ہستی کو تلاش کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ نا قابلِ تردید ہے کہ یہ جو دوسری ہستی ہے، تخلیق میں وہی چیزیں یا وہی عناصر یا وہی موجود MATTER استعمال کرنے پر مجبور ہے جو پہلی واحد اور یکتا ہستی نے بنا دی ہیں۔
اس دوسری ہستی کا نام انسان ہے۔ انسان جب بھی کوئی نئی چیز وجود میں لاتا ہے یا تخلیق کرتا ہے تو اس ذیلی تخلیق میں کسی نہ کسی صورت اللہ کی بنائی ہوئی اشیاء کا دخل ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کی تخلیق سے ذیلی تخلیقات عمل میں آتی ہیں۔ جب وہ تخلیقات آپس میں ایک دوسرے کے اندر جذب ہوتی ہیں یآجذب کر دی جاتی ہیں تو نتیجے میں تیسری شئے وجود میں آجاتی ہے۔ مثلاً تخلیق کا ایک مظہر پانی ہے اور تخلیق کا دوسرا مظہر مٹھاس ہے۔ مٹھاس اور پانی کو دیگر باہم دِگر ملا دیا جائے تو شربت بن جاتا ہے۔
دو تخلیقات میں پیوند کاری کر کے تیسری چیز بھی بنائی جاتی ہے۔ جانوروں میں پیوند کاری سے خچر کا وجود سامنے آتا ہے۔ آم کے درختوں میں پوند کاری ہوتی ہے تو آم کی بے شمار قسمیں بن جاتی ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس اس قسم کی پیوند کاری کا ایک نظام ہے جو دنیا میں جاری وساری ہے۔ اس پیوند کاری کے شعبے پر نظر ڈالی جائے تو دیکھا یہ جاتا ہے پیوند کاری کی صلاحیت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق، انسان کے اندر نمایاں طور پر موجود ہے۔ کسی انسان اور درخت یا کسی انسان اور جانور میں یہ حدّ ِ فاصل قائم ہے کہ انسان پیوند کاری کر سکتا ہے لیکن درخت پیوند کاری نہیں کر سکتے۔
جو لوگ نظر کے قانون سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں جب رُوح کی آنکھ وا ہوتی ہے تو فاصلے معدُوم ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں سال کا وقفہ سیکنڈوں میں سمٹ جاتا ہے۔ آدم سے لے کر موجودہ سائنسی دَور تک تمام ارتقائی مراحل فلم کی طرح سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ غاروں، پتھروں اور دھات کے دَور سے نکل کر نظر نے موجودہ سائنسی زمانہ کا احاطہ کیا تو یہ دیکھ کر اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی کہ انسان نے جن ارتقائی مراحل کا نام ترقی رکھا ہے وہ دراصل ترقی نہیں ہے۔ ترقی کا محور انسانی فلاح و بہبود نہیں بلکہ ہلاکت ہے۔ اس ہلاکت خیز ترقی کے پس منظر میں کوئی معقول جواز بھی نہیں ہے۔ صرف دولت کے انبار جمع کرنا ہے اور جب نظر یہاں ٹھہری کہ انسان انسان کی پیوند کاری (TEST TUBE BABY) میں بھی مصروف ہیں تو ظلم و جہالت کی گھٹائیں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ تحت الشعور نے بتایا کہ نا شکرے انسان نے اپنی حیثیت کم کر کے خود کو درختوں کی صفت میں شامل کر لیا ہے۔
درخت قدرت کی ایسی تخلیق ہیں جو ایندھن بنتے ہیں۔ مطلب یہ نکلا کہ زمین کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ انسان کو ایندھن کے طور پر استعمال کرے۔ ۔چوں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پابند کر دیا کہ وہ انسان کے حکم کی تعمیل کرے، اس لیئے کرۂ ارض مسلسل اور متواتر آتش فشاں بنتآجا رہا ہے ۔ یقیناً انسان نے اگر اپنی حالت نہ بدلی تو عنقریب زمین اس کی نوع کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔
فاعتبرو ویا اولی الابصار

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 129 تا 131

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)