پیاسی زمین

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6251

اگر ہم عقائد کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب کا مدار ایمان بالغیب پر ہے یعنی اس یقین پر کہ غیب میں حقائق ہمیں نظر نہیں آتے لیکن اس کے باوجود ہماری فلاح اسی میں ہے کہ ہم اَن دیکھی حقیقتوں پر ایمان لائیں اور اپنے ذہن و عمل کا تعلق غیب کی دُنیا سے قائم رکھیں۔
مذہب اور ان کے معبود جن کی لوگ پوجا کرتے ہیں، محض تصوّراتی دنیا ہے۔ محسوس طرزوں میں ان معبودوں کو نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ موجود اور محسوس مذہبی چیزوں کے علاوہ مذہب کے اندر اور بھی تصوّرات ہوتے ہیں جو انسانی زندگی اور اس کے اعمال و افعال پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
آج کی جگ مگ کرتی ترقی یافتہ روشن دنیا میں بھی ایک مکتبۂ فکر کہتا ہے کہ کائنات کی ماہیت، رُوح اور موت کے بعد کی زندگی جیسے موضوعات میں سے کوئی چیز ہمارے لیئے علمی کوشش اور فکر کا موضوع نہیں بن سکتی کیوں کہ ہمارے تصّورات اور ہمارے شعوری محسوس علم کے لیئے ضروری ہے کہ ان میں محسوسیت اور متشکل شکلیں داخل ہوں۔ مذہبی موضوعات اور عقائد میں چوں کہ معین محسوسات نہیں ہیں، اس لیئے یہ شعبہ علمی لحاظ سے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انسان کی زندگی کا یہ عجیب مظہر ہے کہ انسان پوری قوت کے ساتھ ایسی چیزوں کے وجود کا یقین رکھتا ہے جس کی نسبت وہ صیحح معنوں میں تصوّر بھی قائم نہیں کرسکتا۔
کم و بیش یہی صورتِ حال چودہ سو سال پہلے بھی تھی۔ لوگوں نے محسوس طرزوں کی بنیاد پر نئے نئے بُت تراش لیئے تھے۔ ہر طرف گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ یونان، روما اور بحیرۂ روم کے گرد و پیش آسمانی مذاہب اپنی توانائی کھو چکے تھے۔ سلطنت کی پرستش رومتہ الکبریٰ کامذہب تھا اور شاہ پرستی لوگوں کا ایمان و دھرم تھا۔
یونان، روم، مصر و شام اور ہندوستان کے تہذیب و تمدن ظاہری عروج پر ہونے کے باوجود اخلاقی پستی میں گرے ہوئے تھے۔ جہالت اور بت پرستی کا دَور دورہ تھا۔ فسق و فجور، عیش کوشی، توہم پرستی، بدکاری اور بے حیائی نے انسانی معاشرے پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ آدم زاد برادری میں جس کے ہاتھ میں طاقت تھی وہ خدا بن بیٹھا تھا۔ یہ بھی تمیز نہیں رہی تھی کہ ہمارے ہی جیسا ایک بندہ جو ہماری طرح بھوک اور پیاس کا محتاج ہے، بول و براز سے مستثنی نہیں ہے کیسے خدا ہو سکتا ہے۔ کوئی قانونی حد متعین نہیں تھی۔ کوئی کسی ضابطہ کا پابند نہیں تھا۔ انتہاء یہ ہے کہ اپنے ہی وجود میں سے پیدا ہونے والے وجود کو قتل کرنا روا تھا۔ دختر کُشی، قمار بازی، مے نوشی اور بد اخلا قی عام تھی۔ یہی وہ تاریک دور تھا جب سوکھی اور پیاسی زمین نے اور زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور آسمانوں سے اس پار عرش پر مکین اس ہستی کوجو سب کا خالق ہے اور جس نے محبّت کے ساتھ پیدا کیا ہے، زمین کے اوپر رحم آ گیا۔ اور اس نے اپنے نور کا ایک حصّہ زمین پر اتار دیا تا کہ تاریکی روشنی میں بدل جائے، پیاسی زمین سیراب ہو جائے اور اندھوں کو آنکھیں، گونگوں کو زبان اور بہروں کو کان مل جائیں۔ انسانیت کا بھرم جو بکھر چکا ہے دوبارہ قائم ہو جائے۔
انسانی تاریخ کے بھیانک، دہشت ناک اور نفسا نفسی کے اس گھٹن دور میں ایک عظیم انسان پیدا ہوا، ایسا عظیم انسان جو سراپا رحمت تھا اور رحمت ہے۔ آپؐ ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو سر تا سر ظلم و جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اندھیرے میں یہ روشن مینار جلوہ نما ہوا تو دشمنوں نے بھی آپ کے صادق اور امین ہونے کا اعتراف کیا ۔ مکّہ کے بوڑھے، بچّے، جوان مرد و زن آپؐ کے اوپر اعتماد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اہل مکہ کو جمع کر کے کہا۔
“اگر میں کہوں پہاڑ کے دوسری جانب ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو تم مان لو گے؟”
سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ “بے شک ہم یقین کریں گے کیوں کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔”
لیکن جب اس ذاتِ صادق ذاتِ با برکت نے اوہام پرستی اور اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش سے منع کیا اور خدا کا پیغام سنایا تو وہ سب آپؐ کے دشمن بن گئے۔ آپ کو گالیاں دی، پتھر مارے، راستے میں کانٹے بچھائے، گلے میں پھندا ڈال کر آپ کو گھسیٹا، نماز میں بحالت سجدہ آپؐ کے اوپر گندگی پھینکی، راستہ گزرتے آپؐ کے اوپر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا۔ یہ سب کیوں ہوا، اہل قریش کی یہ دشمنی اور عناد کیوں تھا؟ اس لیئے کہ ہادیِ برحقؐ نے تاریک دنیا میں نور کی شمع جلا دی تھی۔ نوعِ انسان کے قافلہ کو ہلاکت سے بچانے کے لیئے سیدھی راہ دکھا دی تھی۔ اللہ کے اس محبُوب بندے کو چند قدسی نفس حضرات کی ایک جمعیت مل گئی تو ظالموں نے آپؐ کے پیروکاروں کو بھی نہیں بخشا۔ ان کو گرم ریت پر لٹایا، ان کے ہاتھوں پر کیلیں گاڑیں، ہاتھ اور پیر باندھ کر جھلستی ہوئی دھوُپ میں ریگستان کی تپتی ہوئی ریت پر ان کے جسموں کو گھسیٹا، آپ ﷺ سب کچھ دیکھتے رہے۔ صبر کرتے رہے، کیوں؟ اس لیئے کہ آپ کو ربّ العالمین نے رحمتہ للّعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ یہ سزا کس جرم کی پاداش میں تھی، یہ ظلم و بربریت کیوں تھی؟ اس لیئے کہ رحمتہ للّعالمین اپنی آغوش رحمت میں لے کر لوگوں کو عذاب اور دردناک زندگی سے بچانا چاہتے تھے۔ خالقِ کائنات کا یہ محبوبؐ لوگوں کو ابدی آسائش سے رُوشناس کرانا چاہتا تھا۔ یہ کیسی حرماں نصیبی تھی کہ چاہنے والوں کو دھتکارا جا رہا تھا۔ محبت کرنے والے کے ساتھ نفرت و غصّہ کا اظہارکیا جا رہا تھا۔ آپؐ کے صبر و تحمل کا یہ عالم تھا کہ آپؐ اہلِ طائف کو اللہ کا پیغام سناتے، لوگ آپؐ کو پاگل دیوانہ کہتے اور جب غصّہ دور نہیں ہوتا تو پتھر مار مار کر آپؐ کو لہو لہان کر دیتے۔ جب خون بہتا ہوا دیکھ کر آپؐ کے دوست (صحابہ)عرض کرتے ۔۔۔۔
“یا رسول اللہ ﷺ، ان کے لیئے بدعا کریں” تو آپؐ فرماتے —– میں لوگوں کے لیئے زحمت بن کرنہیں آیا، رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔”
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جب اللہ کا وعدہ پورا ہوا تو لوگوں نے خدا کو محسوس طرزوں میں دیکھا۔ محسوس طرزوں میں خدا کی آواز سنی اور محسوس طرزوں میں اس کی قربت کو پا لیا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 227 تا 230

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)