پرندے
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6202
ماحول میں اپنے جانکار لوگوں کی طرز فکر کا مشاہدہ کیا جائے توایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی عنوان سے پریشان ہے۔ پریشانی اور خود بیزاری اس کے اوپر مسلط ہے۔ زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ ماہ و سال کی گردش ایک ثانیہ بن گئی ہے۔ آسائش و آرام کی طلب نے آدمی کے تشخص کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔
دماغ کے اندر دو کھرب خلیئے اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ ہر ہر قدم پر متوجہ کرتے ہیں کہ ملمع شدہ دنیا نہ صرف یہ کہ ایک فرد کے لیئے بلکہ پوری نوعِ انسانی کیلیئے زہر ہلاہل ہے مگر آدم و حوا کے وجود کا تیسرا رُخ آدم زاد دماغ کی فریاد پر کان نہیں دھرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ دلوں پر اور کانوں پر مہر لگ گئی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ یہ سب کیوں ہے اور نوع انسانی اپنے اوپر عذاب کیوں مسلط کئے ہوئے ہے؟ اس کآجواب بجز اس کے کچھ نہیں ہے کہ
۔۔۔ ہم نے سو نے چاندی کے ذخیروں کو زندگی کی معراج بنا لیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ آدم زاد کی طرح چوپائے اور پرندے بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کے اندر بھی احتیاج ہے۔ انہیں بھی بھوک پیاس لگتی ہے۔ اے آدم زاد! کبھی تو نے سوچا کہ روزی رساں اتنی بڑی مخلوق کو کس طرح روزی فراہم کرتا ہے۔
کسان جب کھیتی کو سمیٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سکیر لیتا ہے۔ اس کی کو شش ہوتی ہے کہ زمین پرایک دانہ بھی نہ رہے۔ لیکن اربوں کھربوں کی تعداد میں اللہ کی مخلوق اپنا پیٹ بھرتی ہے اور تمام غذائی ضرورت پوری کرتی ہے۔
اللہ کی شان کریمی ہے کہ جب آسمان پر پرندوں کا غول دانہ چگنے کے لیئے اپنے پنجوں اور گردن کو کشش ثقل کے تابع کرتے ہوئے زمین کی طرف آتا ہے تو اس سے پہلے کے زمین پر اتریں وہاں ان کی غذائی ضروریات تخلیق ہو چکی ہوتی ہیں۔ اربوں کھربوں پرندے آدمی کی طرح وسائل کےمحتاج نہیں ہیں۔
زمین پر اترنے سے پہلے پرندوں کی غذائی ضروریات کیسے تخلیق ہو جاتی ہیں؟ یہ ایک راز ہے مگر ایک ایسی حقیقت ہے نوع انسانی کے افراد جس کا ہر وقت مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اسرار و رموز کے عارف اللہ کے دوست حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا ایک دوہا کیا خوب ہے! بابا تاج الدین ناگپوریؒ داس ملو کا تخلص کرتے تھے۔
اجگر کریں نہ چاکری، پنچھی کریں نہ کام
داس ملو کا کہہ گئے سب کے داتا رام
بابا صاجبؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ چوپائے ملازمت نہیں کرتے،اور پرندے کاروبار نہیں کرتے لیکن اللہ تعالیٰ سب کو روزی فراہم کر تا ہے۔
جب دلوں پر اور کانوں پرمہر لگ جاتی ہے تو کوئی بات اثر نہیں کرتی، مگر کیا کیا جائے!۔ ۔۔
مجھے ہے حکم اذاں۔ ۔۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
ایک دیوانگی یہ ہے کہ معاشرتی اقدار کو پامال کر کے آدمی سونے چاندی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ باکل اس کے متوازی (PARALLEL) دوسری دیوانگی یہ ہے۔
۔۔۔۔ اس کے باوجود کہ کوئی نہیں سسنتا، ہم سنائے جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔
حضرت عیسیٰ ؑ تبلیغی سفرمیں تھےایک یہودی ملاّ نے عرض کیا ۔ “میں بھی آپ کے ساتھ شریک سفر ہونا چاہتا ہو ں۔”
حضرت عیسیٰ ؑ نے یہ درخواست منظور فرما لی۔ چلتے چلتے جب سورج کی تمازت بڑھی اور زمین تانبا بن گئی تو یہ دونوں صاحبان ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ طے پایا کہ کھانا کھا لیاجائے۔ دونوں صاحبان نے اپنے اپنے دسترخوان کھولے۔ یہودی ملّا کے دستر خوان میں تین روٹیاں تھیں اور حضرت عیسیٰ ؑ کٰے پاس دو۔ یہودی نے جب یہ دیکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس دو روٹیاں ہیں تو اس نے فورا اپنا کھانا چھپا لیا۔ اور کہا “اے پیغمبر! میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں، آپ کے مقابلے میں میرے اعصاب کمزور ہیں کھانے کے لیئے پانی کی ضرورت پیش آئے گی۔ آپ زحمت کر کے پانی لے آئیں۔”
حضرت عیسٰیؑ پانی لینے کے لیے گئے تو ملّا نےایک روٹی کھا لی۔ دونوں جب کھانے کے لیئے یٹھے تو حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا کہ تمہارے پاس تین روٹیاں تھیں؟ ملا نے کہا آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ حضرت عیسٰیؑ خاموش ہو گئے۔ کھانا کھانے کے بعد دونوں صاحبان لیٹ گئے۔ ملا سو گیا۔ حضرت عیسٰیؑ نے ریت کی تین ڈھیریاں بنائیں اور ان کے اوپر پھونک ماری پوری تینوں ڈھیریاں سونا بن گئیں۔ ملآجب بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ سونے کے تین ڈھیر پڑے ہیں۔ حیرت و استعجاب اور خوشی کے عالم میں اس نے چھا۔ “اے پیغمبر! یہ سونے کے ڈھیر کس کے ہیں؟”
حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا “ایک میرا ہے، ایک تیرا ہے اور تیسرا اس کا ہے جس نے تیسری روٹی کھا ئی”۔
ملا فوراً بول اٹھا کہ وہ روٹی اسی نے کھائی ہے۔ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا کہ اگر وہ روٹی تو نے کھائی ہے تو سونے کے دو حصے تیرے ہیں اور ایک حصہ میرا ہے۔ ملا گویا ہوا۔ “آپ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ پیغمبر ہیں، آپ سونے کا کیا کریں گے! یہ بھی مجھے ہی بخش دیجئے۔” حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا۔ “اگر تو میرے ساتھ شریک سفر نہ رہے تو تیسرا حصہ بھی تیرا ہے” اور حضرت عیسٰیؑ وہاں سے اٹھ کر چل دئیے۔ عیسٰیؑ ابھی ملّا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آ موجود ہوئے اور یہودی کو پکڑ کر مارنا شروع کردیا ۔ یہودی ملا نے بہت احتجاج کیا مگر ان تینوں آدمیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ تینوں آدمی ڈاکو تھے جو قانون سے چھپتے پھر رہے تھے۔
بہت بحث و محیص کے بعد آخر یہ طے ہوا کہ سونے کے دو ڈھیر وہ تین آدمی لے لیں اورایک ڈھیر یہودی لے لے۔ ساتھ ہی ڈاکوؤں نے یہ شرط رکھی کہ ملّا بازارسے کھانا لا کر دے۔ اس لیئے کہ سونے کے لالچ میں مخبری نہیں کرے گا۔ قصہ کوتاہ ملّا کھانا لینے کے لیئے شہرکی طرف چل پڑا۔ و غصے میں یچ و تاب کھاتا ہوا سوچتا رہا کہ خواہ مخواہ یہ تین آدمی میری دولت کے حق دار بن گئے۔ بے شک یہ لوگ ظالم اور جابر ہیں۔ ان کو معاف کرنا بجائے خود نانصافی اور ظلم ہے۔ بازار سے کھانا لینے کے بعد ملّا نے اس میں زہر ملا دیا ۔ ادھر ان تین آدمیوں نے یہ سازش کی کہ جیسے ہی ملا کھانا لے کر آئے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس لیئے کہ ملّاکباب میں ہڈی بن گیا ہے۔ سونے کی تین ڈھیریاں ہیں اور ہم تین آدمی اس کے صحیح وارث اور حق دار ہیں۔ اگر یہودی کو بیچ سے ہٹا دیا جائے تو تقسیم صحیح طور پر عمل میں آجائے گی۔
جیسے ہی ملّا زہر آمیز کھانا لے کر آیا۔ اُن تین میں سے ایک نے اسے قتل کردیا اور تینوں آدمی کھانا کھانے بیٹھ گئے ابھی کھانے کے چند لقمے ہی پیٹ میں نہ اترے تھے کہ تینوں کی رُوح پرواز کر گئی۔
یہ بات بہت زیادہ محل نظرہے:
یہودی کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے۔ انجیل کے اس بیان میں طرزِ فکر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہودی ملّا سے مراد دنیا پرست اور لالچی بندہ ہے خواہ وہ کسی بھی معاشرے کا فرد ہو۔
دولت پرستی کی چھاپ ہمارے اوپر اتنی گہری اور نمایاں ہے کہ ہم لالچی ملّا کی زندہ تصویر بن گئے ہیں۔ ہر شخص دنیا کی حرص اور لالچ میں مبتلا ہے۔ حرص و ہوس کآجو نتیجہ مرتب ہوتا ہے واقعہ مذکور میں اس کی پوری فلم موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ہے جو عبرت حاصل کرے!
فَاعْتَبِرُوا يَا أُوْلِي الأَبْصَارِ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 54 تا 58
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔