وراثت
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6227
قانون قدرت کی رو سے ہر شئے کا ایک تشخص ہے۔ خواہ ہم اُسے غیر مرئی سمجھیں اور کوئی اہمیت نہ دیں ۔
اس دنیا میں انسان کی خواہشات اور تمنائیں اس کے اعمال و افعال کا محور بنتی ہیں اور عموماً یہ اس کے گوشت پوست کے جسم تک محدود رہتی ہیں۔ قانون کے تحت یہ خواہشات اور تمنائیں بھی تشخص کی حامل ہیں۔ دولت ، عزّت اور وقار کی خوا ہش بھی ایک تشخص ہے۔ شہرت، ناموری اور بالادستی کی آرزو بھی تشخص رکھتی ہے۔ صلہ اور معاوضہ کی تمنّا بھی بے تشخص نہیں۔ واضح رہے کہ تقاضوں کی تکمیل اور خواہش اور تمنّا کے حصول میں بڑا فرق ہے۔
جب انسان کسی خواہش کی تکمیل کو اپنا نصبُ العین بنا لیتا ہے تو درحقیقت وہ اس کے تشخص کو اپنے اوپر مسلّط کر لیتا ہے۔ اگر انسان کا مطمع نظر ذاتی مفاد ہے تو وہ جسم خاکی میں مقیّد ہو جاتا ہے۔ جہاں تنگی ہے، گھٹن ہے، اندھیرا ہے۔ وہ اس تشخص کے طول و عرض میں بند رہتا ہے۔ باہر نہیں نکل سکتا۔ تیرہ و تاریک قید خانہ میں بند قیدی کی طرح اس کا رابطہ وسیع و عریض رنگین دنیا سے با قی نہیں رہتا۔
فعل و عمل میں اپنی ذات کو اوّلیت دینے سے جو خول وجود میں آتا ہے وہ انسان کا رشتہ لازمانیت اور لامکانیت سے منقطع کر دیتا ہے۔ وہ ایک محدود دائرے کے اندر سوچتا، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس کی مثال ریشم کے کیڑے سے دی جا سکتی ہے۔ جس کا دائرہ کار ریشم کے خول تک محدود رہتا ہے اور وہ بیرُونی دنیا سے لا تعلق ایشم کے تار و پود کو مستحکم کرنے میں مصرُوف رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نحیف و ناتواں جسم ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
انبیاء کرامؑ نے اس بات کو سمجھا کہ یہ کائنات ایک ماوراء الماورا اور لا محدوُد تشخص کی بنا پر قائم ہے۔ انہوں نے اپنے اعمال و افعال کا مرکز و منتہا اس ذات کو بنا لیا اور اپنی ذا ت سے دست بردار ہو کر خود کو اس لا محدود ہستی کے حوالے کر دیا ۔ انہوں نے ہر چیز کو اس ذاتِ عظیم کے واسطے (REFERENCE) سے پہچا نا، خود کو درمیان سے ہٹا دیا ۔
نتیجہ میں اُن کی ہستی اور ان کے ارادے کی نفی ہو گئی۔ اور وہ خالق اکبر کے ارادے کے مظہر بن گئے۔ جب مٹی کا پتلا اور خواہشات کا خول محلِ توجہ نہیں رہا تو پُتلے کے اندر موجود رُوح الٰہی آشکار ہوئی اور نظر اس کے جلال و جمال سے خیرہ ہو گئی۔ خفی جلی ہو گیا اور غیب شہود بن گیا۔ محدوُدیت لا محدوُدیت سے مغلوب ہو گئی اور خوف و حُزن کی جگہ خوشی، سرشاری اور اطمینان قلب نے لے لی۔
صاحب مقام محمود نبیّ آخر الزّماں علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے بعد بھی ایسے قدسی نفس حضرات ہر زمانے میں موجود رہے جنہوں نے عشق نبیؐ میں اپنی ہستیوں کی نفی کی اور اطاعت رسول میں خودی کو مٹا دیا ۔ ا ن حضرات پر مقام نبیؐ منکشف ہوا اور پھر ذاتِ اکبر سے تعارف حاصل ہوا۔
جب یہ حضرات مخلوق خدا میں ظاہر ہوئے تو لوگ ان کی جانب پروانہ وار کھنچے حالانکہ ان کے پاس نہ مال و زر تھا اور نہ کوئی اور ترغیب کا ذریعہ۔ ان حضرات نے بے صلہ اور بے غرض جس طرح مناسب سمجھا خلقِ خدا کی خدمت کی اور ان کے سامنے حق کی شمع بن کر فروزاں رہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے سامانِ دنیا اپنے گرد اکٹھا کیا ، چند روز اُسے سینے سے لگانے کے بعد دوسرے لوگوں کے لیے وراثت میں چھوڑ گئے۔ ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے نام بھی فراموش کر دئیے۔
دوسری طرف وہ پاکیزہ نفس لوگ ہیں جن کے ذکر پر آج بھی پیشانیاں عقیدت و محبّت کے جذبات سے جھک جاتی ہیں۔ جب تک یہ لوگ عوام میں موجود تھے، پریشان قلوب اور سکون کے طلب گار اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جب پسِ پردہ چلے گئے تب بھی ان کا تشخص لوگوں کے سامنے موجود رہا۔ اس لیئے کہ انہوں نے ذاتی اغراض و مقاصد اور خود پسندی کو بالائے طاق رکھ دیا ، مایآجال ان کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکا ۔ان سعید رُوحوں نے یہ راز جان لیا تھا کہ خود سے گزرے بغیر خدا نہیں مل سکتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 140 تا 142
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔