ننھی منی مخلوق
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6213
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں ابھی شعور کی اس منزل پر نہیں پہنچا تھآجہاں عقل کی بھٹی میں تپ کر آدمی انسان بن جا تا ہے۔ لیکن یہ سوچ میرے اعصاب کو ہلکان کر رہی تھی کہ زندگی کا مقصد کیا ہے ۔ تفکر کے ڈانڈے زندگی، بندگی سے ہم آغوش ہو تے تھے تو یہ حقیقت سامنے آتی تھی کہ زمین پر پھیلی ہو ئی صناعی (مخلوق) کائناتی نظام میں ایک قدرِ مشترک رکھتی ہے۔ بھوک پیاس کا تقاضے جس طرح آدمی کے اندر رواں دواں ہیں بالکل اسی طرح دوسری مخلوق بھی ان تقاضوں کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔ ۔پیدائش کا عمل چیونٹی کی نوع میں بھی قائم ہے اور آدمی میں بھی۔ بچوں کی نگہداشت اور پرورش اہتمام ایک بلیّ بھی کرتی ہے، ایک چوہا بھی کرتا ہے اور ایک آدمی بھی۔ جہاں تک تربیت کا تعلق ہے ہر نوع ایک مخصوص طرز فکر (THOUGHT) میں خود کو پابند کئے ہوئے ہے ۔۔۔۔ حصول معاش میں صبح دَم چڑیا بھی مصروف عمل ہو جاتی ہے۔ اور ہاتھی بھی۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک گائے کا بچہ مر گیا اور گا ئے تین دن تک اپنی بڑی بڑی سُرمئی آنکھوں سے آنسو بہاتی رہی۔ یہ منظر بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا کہ ایک گائے تخلیقی عمل کے وقت شدید “دردِ زہ” میں مبتلا ہے اور ولادت ایک مرحلہ بنا ہوا ہے۔ ایک ہندو عورت نے جو مامتا کے جذبات سے سرشار تھی، اعلان کیا :
“گائے کو کمرے میں بند کر کے دروازہ باہر سے بند کر دیا جا ئے۔”
کچھ دیر کے بعد کمرہ کھولا گیا تو گائے انتہائی شفقت سے اپنے بچّہ کو چاٹ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ممتا کی ایسی چمک تھی جو میں نے اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔ عقدہ یہ کُھلا کہ گائے میں بھی شرم و حیا کا تصّور موجود ہے۔
کسی صاحب نے آدمیت کا مظاہرہ کر کے کہ ایک کوّے کو گولی کا نشانہ بنا دیا تو نہیں معلوم کہا ں سے سینکڑوں کوّے آموجود ہوئے پھر جو انہوں نے بین کرنا شروع کیا تو کان پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی تھی۔ اور اظہارِ غم کا یہ طریقہ سوئم تک جاری رہا۔
روئی کے رنگ رنگ گالوں کی طرح خوبصورت بچّوں کے ساتھ مرغی بڑی شان اور پُروقار انداز میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی کہ چیل کی آواز نے فضا کا سکون درہم برہم کر دیا ۔ بچوں کی ماں، مرغی نے خطرہ محسوص کیا اور اپنی زبان میں بچوں سے کہا ۔” آؤ آؤ ! چُھپ جاؤ کہ ماں کی آغوش ہی تمہاری جائے پناہ ہے۔”
پھول جیسے من موہنی صورت والے معصوم بچّے خوف زدہ ہو کر دوڑے، مرغی نے اپنے پر پھُلا دیئے اور انہیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔
چڑیا سے بھی ایک بہت چھوٹے پرندے پر نظر پڑی۔ اس کا گھر بھی دیکھا۔ گھر کیا تھا، ایک گنبد نما محفوظ محل تھا ۔۔۔۔ الگ الگ کمروں میں بیڈ روم (BED ROOM)، بیڈ روم میں روشنی کا انتظام ۔۔۔ جی ہاں، اس گھر میں جھُولا بھی ہے کہ بچوں کے لیئے گہوارہ بھی ضروری ہے۔ مضبوط اتنا کہ آندھی طوفان اس کے سامنے بے بس، اندر سے ائیر کنڈیشنڈ (AIR CONDITIONED)۔ معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ یہ گھر “بیا” کا ہے اور پرندوں میں اس کا مقام سول انجینئر کا ہے۔ چھوٹا سا پرندہ، جسمانی ساخت میں چڑیا کی طرح ، قد و قامت میں چڑیا سے چھوٹا، مگر دماغ ہاتھی سے زیادہ طا قت ور۔ فنون لطیفہ کے ماہراس پرندہ کے اندر عقل و شعور کا عالم یہ ہے کہ ہلاکت خیز ایجاد، ایٹم بم کا مُوجد انسان برسوں میں ریاضت کرے تو اس قسم کا مکان تعمیر نہیں کر سکتا۔
یہ اور اس قسم کے بے شمار حقائق پر مبنی مشاہدات نے عقل کو مہمیز دی اور نتیجہ یہ مرتّب ہوا کہ عقل کا تعلق ڈیل ڈول سے نہیں ہے اور نہ ہی عقل صرف آدم ذاد کہ میراث ہے۔
سوچ کے دھارے سمندر بن گئے تو یہ خیال دامن گیر ہُوا کہ آدمی اور حیوان میں “حد امتیاز” کیا ہے؟ اگر آدمی کا شرف یہ ہے کہ وہ ایجادات کرتا ہے تو ایجاد کا عمل چھوٹے بڑے جا نوروں سے بھی سرزد ہوتا ہے۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ ایجاد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن نوعِ انسانی اس سے صَرف نظر نہیں کر سکتی کہ حیوانات کی ایجاد میں ہمیں تخریب کا پہلو نہیں ملتا، جب کہ آدمی کی ایجادات میں تخریب کا عنصر غالب رہتا ہے۔
یہ ایک خبر متواتر ہے کہ آدمی اشرف المخلوقات ہے مگر شرف اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرندہ بغیر وسائل کے پرواز کرتا ہے اور آدمی پرواز کرنے کے لیئے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود وسائل کا محتاج ہے ۔ ترقی و ایجادات کے جتنے شگوفے کھلتے ہیں، اُسی مناسبت سے دکھ اور درد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ انتظامی امور پر نظر ڈالیئے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ شہد کی مکھی کا نظم و ضبط انسانی زندگی کے نظم و ضبط سے بہت زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے۔ پھر وہ کون سا شرف ہے جس پر آدم زاد ِکبر و نخوّت کی بھٹی میں سلگ رہا ہے۔ وہ کون سا اعزاز ہے جس نے آدم زاد کو شدّاد ، نمرود اور فرعون کے روپ میں پیش کیا ہے؟
آج کا دور ترقی کی معراج کا دور کہا جاتا ہے۔ اس معراج کا تجزیہ کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ترقی کے معانی ظلم و ستم کا ختم نہ ہونے والا لامتناہی سلسلہ ہے۔ ترقی یہ ہے کہ بھوکے ننگے انسانوں کو ترقی کا فریب دے کر ان کے اوپر علمی برتری کی دہشت بٹھا دی جائے۔ دھرتی ماتا اپنے بچوں کے لیئے جن وسائل کو جنم دیتی ہے انہیں ہڑپ کر کے ہلاکت خیز ہتھیار بنائے جائیں، بھوکے اور افلاس زدہ لوگوں سے کھربوں ڈالر چھین کر ایسا ایٹم بنایآجائے جو لاکھوں آدمیوں کو ایک لمحہ میں لقمۂ اجل بنا کر نگل لے۔ اور پھر اس درندگی کی تشہیر کر کے اللہ کی مخلوق کو اس قابل بھی نہ رہنے دیا جائے کہ وہ اپنی بقا کے لیئے کچھ سو چ سکے، اپنی نسل کی حفاظت کے لیئے کچھ کر سکے۔ بربریت کا یہ عالم ہے کہ خود کو سپر پا ور (SUPER-POWER) ثابت کرنے کے لیئے ہتھیاروں کا انبار جمع کر لیآ جاتا ہے اور پھر انبار کے اس آتش فشاں سے ایک ماں ایک باپ (آدم و حوّا) کی اولاد، دو (۲) بھائیوں کو آپس میں لڑا دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ دو (۲) بھائی یگانگت اور محبت سے رہیں گے تو سپر پاور بننے کا عمل خواب بن جائے گا۔ کتنا ذہین اور عقلِ کُل ہے دانش ور (SCIENTIST) کہ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو چیز وجود میں آجاتی ہے اس کا استعمال لازمی ہو جاتا ہے۔ کبھی ہم نے یہ بھی سوچاہے کہ جنّت نظیر دنیا کے باغات، ہنستے بستے شہروں اور ہرے بھرے کھلیانوں کو سپر پاور کیوں نیست و نابود کر دینا چا ہتی ہے، اس لیئے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ حاکمیت صرف اللہ کی ذات کے لیئے مخصوص ہے اور ہم فکر و آلا م اور عدم تحفظ کی چکیّ ہے اس لیئے اس پِس رہے ہیں کہ ہم نے زر پرست اور متعصب لوگوں کو اپنا اَن داتا سمجھ لیا ہے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم زیادہ نہیں تو کم سے کم اللہ کی ننھّی منیّ مخلوق کی طرح ہی عقل و شعور سے کام لیں اور اپنے خداوند اللہ کے اس حکم کی پیروی کریں :۔
“اور اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔”
قیامت گزر جانے سے پہلے ہم نے اگر فطری عقل سے کام نہیں لیا تو صفحہ ہستی سے ہمارا وجود حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا۔
قرآن پاک ببانگ دُہل یہ اعلان کر رہا ہے :
“جو قومیں خود اپنی تبدیلی نہیں چا ہتیں، زمین پر ان کا وجود خس و خاشاک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا”۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 92 تا 96
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔