نماز اور مراقبہ

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17879

عالم رنگ و بو میں جتنی اشیاء موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے تانے بانے پر نقش ہیں اور اس نقش کی مثال یہ ہے  جیسے کپڑے پر کوئی پرنٹ اور قالین میں کوئی  تصویر بنی ہوتی ہے جس طرح کسی کپڑے کو دیکھنے کے بعد اس کے اوپر رنگ اور نقش و نگار ہمیں نظر آتےہیں اور تانے بانے کے جن تاریک تاروں سے کپڑا بنا ہوا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتا، اسی طرح انسان بھی مختلف رنگوں اور روشنیوں سے بنا ہوا ہے۔ مادے سے بنا ہوا گوشت پوست ہمارے سامنے ہے مگر یہ گوشت پوست کس بساط پر قائم ہے یہ ہماری ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اگر مادہ کی شکست و ریخت کو انتہائی حدود تک پہنچا دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ تمام مخلوقات اور موجودات کی مادی زندگی ایسے ہی کیمیائی عمل پر قائم ہے۔ فی الحقیقت لہروں کی مخصوص مقداروں کے ایک جگہ جمع ہو جانے سے  مختلف مراحل میں مختلف نوعیں بنتی ہیں۔ اس فارمولے کو بیان کرنے سے منشاء یہ ہے کہ آدمی کی اصل مادہ نہیں ہے بلکہ آدمی کی اصل لہروں کے تانے سے بنی ہوئی ایک بساط ہے۔ ایک طرف یہ لہریں انسانی جسم کو مادی جسم میں پیش کرتی ہیں اور دوسری طرف یہ لہریں انسان کو روشنیوں کے جسم سے متعارف کراتی ہیں۔ جب تک کوئی آدمی مادے کے اندر قید رہتا ہے اس وقت تک وہ قید و بند اور صعوبت کی زندگی گزارتا ہے اور جب وہ اپنی اصل یعنی روشنی کےجسم سے واقف ہو جاتا ہے تو قید و بند، آلام و مصائب، پیچیدہ و لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اصلی آدمی یعنی روشنیوں کے آدمی سے واقفیت زمان و مکان سے آزاد ہونے کی علامت ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جہاں غیبی علوم منکشف ہوتے ہیں اور قدم قدم اللہ کے عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت اور اپنا عرفان حاصل کرنے کے لیے قوانین اور ضابطے بنائے ہیں جو لوگ قوانین اور ضابطوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلاشبہ وہ لوگ اللہ کےدوست ہیں۔ اللہ کی دوستی حاصل کرنے کےلیے قرآن مجید نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا ہے اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔”  قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ “۔ قرآنی پروگرام کے یہ دونوں اجزء نماز اور زکوٰۃ روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سےمراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کوقائم رکھنے کے لیے لازم ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ” جب تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو یا یہ محسوس کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے”۔ اس ارشاد کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نماز میں وظیفہ اعضاء کی حرکت کےساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہیے۔ ذہن کا اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے ۔اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ ہے۔ قیام صلوٰۃ کے ذریعے کوئی بندہ اس بات کا عادی ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہنے کا عمل جاری و ساری رہے۔ اس کتابچہ میں سوال و جواب کے آسان طریقے پر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا عرفان کس طرح حاصل کرسکتے ہیں۔

سوال:  ایسی نماز جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کےارشاد کے مطابق حضورِی قلب حاصل ہو اور خواہشات، منکرات سے روک دے- کس طرح ادا کی جائے؟

جواب: نماز کی فرضیت ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے منتقل ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حضور پاک ﷺ پر نماز کب فرض ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو نبوت سے پہلے ہی ایسا ذہن عطا فرمایا تھا جس کا رُخ نورانی دنیا کی طرف تھا اور نورانی دنیا کی طرف متوجہ ہونے کے لیے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام  ﷺ نے وہ تمام اعمال و اشغال ترک فرما دئیے تھے جن سے ذہن کثیف دنیا کی طرف زیادہ مائل رہتا تھا۔ حضور پاک صلى اللّٰه عليه وآله وسلمﷺکی مقدس زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی خیانت نہیں کی۔ آپﷺ سےکبھی  کوئی ایسا عمل سرزد نہیں ہوا جو بے حیائی کے زمرے میں آتا ہو۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ بے کسوں کی دستگیری کی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گوشہ نشین ہو کر اور ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور آپ ﷺ نے اپنی توجہ سے اللہ طرف کی اتنی زیادہ مرکوز فرمائی کہ قربت سے سرفراز ہوئے اور معراج میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں “ہم نے بندے سے جو دل چاہا باتیں کیں اور جو کچھ دل نے دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا”۔

نماز میں حضورِ قلب کے لیے ضروری ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اسوہ حسنہ پر عمل کیا جائے۔ جس حد تک حضورپاک علیہ الصلوٰۃ و السلام  ﷺ کے اسوہ حسنہ پر کسی امتی کا عمل ہو گا اسی مناسبت سے نماز میں حضوری قلب نصیب ہو جائے گی۔ قلب میں جلا پیدا کرنے کے لیے ان چیزوں سے دوری پیدا کرنی ہو گی جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں۔ ہمیں اس دماغ کو رد کرنا ہو گا جو ہمارے اندر نافرمانی کا دماغ ہے۔ اس دماغ آشنائی حاصل کرنا ہو گی جو جنت کا دماغ ہے۔ جس میں تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ یہ دماغ روح کا دماغ ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہنا چاہیے جب تک کوئی بندہ اپنی روح سے وقوف حاصل نہیں کر لیتا اس وقت تک نماز میں حضورِی قلب نصیب نہیں ہو گی۔

سوالروح کا عرفان کیسے حاصل کیا جائے۔۔۔؟

جواب: حضور پاک علیہ الصلوٰۃ و السلامﷺ نے نبوت کے اعلان سے پہلے دنیاوی دلچسپیوں سے عارضی طور پر تعلقِ خاطر ختم کر کے بستی سے باہر بہت دور ویرانے میں گوشہ نشینی  اختیار کر کے غارِ حِرا میں اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر مرکوز فرمایا ۔

قانونروح سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے دنیاوی دلچسپیاں کم کر کے زیادہ سے زیادہ وقت ذہن کو اللہ کی طرف متوجہ رکھا جائے۔ روحانیت میں ایک نقطہ پر توجہ کو مرکوز کرنے کا نام مراقبہ ہے یعنی خود آگاہی اور روح سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مراقبہ کرنا ضروری ہے۔ مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرف سے توجہ ہٹا کر ایک ذاتِ اقدس و اکبر سے ذہنی رابطہ قائم کر لیا جائے۔

جب کسی بندے کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے تووہ مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ مراقبہ ایسے عمل کا نام ہے جس میں کوئی بندہ بیداری کی حالت میں رہ کر بھی اس عالم میں سفر کرتا ہے جس کو ہم روحانی دنیا کہتے ہیں۔ روحانی دنیا میں داخل ہونے کے بعد بندہ اس خصوصی تعلق سے واقف ہو جاتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان بحثییت خالق و مخلوق ہر لمحہ اور ہر آن موجود ہے۔

سوالمخلوق کو کیوں پیدا کیا گیا۔؟

جواب: اللہ تعالیٰ ایک چھپا ہوا خزانہ تھا ۔ اُس کا دل چاہا کہ پہچانا جائے ، سو اس نے محبتِ خاص سے مخلوق کو پیدا کیا۔ (حدیثِ قدسی)۔

سوالاللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے۔؟

جواب: پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو پہچانیں اور ہمیں یہ بات معلوم ہو کہ ہم مخلوق ہیں اور ہمارا پیدا کرنے والا  اللہ ہےاور جو آدمی پیدا ہوتا ہے باالآخر مر جاتا ہے۔ جب مر جاتا ہے تو گوشت پوست کے جسم کی حیثیت کچھ نہیں رہتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود کو پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ گوشت پوست کا جسم فکشن اور مفروضہ ہے۔ گوشت پوست کے آدمی کا دماغ دو حصوں سے مرکب ہے۔ ایک دماغ سیدھی طرف اور دوسرا الٹی طرف۔ سیدھی طرف کے دماغ کا نام لاشعور اور الٹی طرف کے دماغ کا نام شعور ہے۔ سیدھی طرف کے دماغ میں وہ علوم محفوظ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سیکھائےاور الٹی طرف کے دماغ میں وہ علوم محفوظ ہیں جو نافرمانی کے ارتکاب سے وجود میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں  زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتےہیں جو فساد پھیلائے اور خون بہائے، حالانکہ ہم تیری حمد کےساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے، اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے، پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ، پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ انہوں نے کہا تو پاک ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایا ہے، بے شک تو بڑا علم والا ، حکمت والا ہے۔ فرمایا اے آدم! ان کو ان چیزوں کے نام بتا دو۔ جب آدم نے ان کے نام انہیں بتائے ، فرمایا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں۔ اور جو تم ظاہر کرتے اور جوچھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہوں”۔ (آیت 30 تا 33 البقرہ)

آیتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو وہ علوم سکھا دیئے جو فرشتے نہیں جانتے، اس علم کی اگر درجہ بندی کی جائے تو چھ عنوان بنتے ہیں اور ہر عنوان ایک دائرہ ہے، اس طرح یہ علم چھ دائروں پر محیط ہے

سوالچھ دائرے کیا ہیں۔۔؟

جواب: جس طرح کسی مکان کے لیے بنیاد ، کرسی کے چار ٹانگوں اور گاڑی کے لیے پہیوں کا ہونا ضروری ہے اسی طرح روح کے اندر تین رُخ یا تین پرت کام کر رہے ہیں۔

سوالتین پرت سے کیا مراد ہے۔۔؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے آدم کو علم الاسماء سکھا دئیے۔جس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسماء سکھائے اس وقت آدم کے سامنے تین چیزیں تھیں۔ ایک خود آگاہی، دوسری فرشتہ اور تیسری وہ ذاتِ حق جس نے علم سکھایا۔ مفہوم یہ ہے کہ جب آدم کو علم الاسماء سکھایا گیا تو اسے تین علوم منتقل ہو گئے اور ہر علم دو رُخ سے مرکب ہے۔ اس طرح یہ علم چھ رُخ یا چھ دائروں پر محیط ہے۔ ان چھ رُ خوں یا چھ نقطوں یا چھ دائروں کو روحانیت میں لطائفِ ستہ (Six Generators)  کہا جاتا ہے۔ ان چھ جنریٹرز کے نام یہ ہیں:۔

پہلا ۔۔۔۔۔۔۔جنریٹر نفس

دوسرا۔۔۔۔۔۔جنریٹر قلب

تیسرا۔۔۔۔۔۔۔جنریٹر روح

چوتھا۔۔۔۔۔۔۔جنریٹر سر

پانچواں۔۔۔۔۔۔جنریٹر خفی

چھٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنریٹر اخفا

پہلے دو دائروں  (Generators) نفس اور قلب کو روحِ حیوانی کہتے ہیں۔ دوسرے دو دائروں  روح اور سِر کا نام روحِ انسانی ہے۔ تیسرے دو دائرے خفی اور اخفیٰ روحِ اعظم ہیں۔

روحِ حیوانی ان خیالات و احساسات کامجموعہ ہے جس کو بیداری کہا جاتا ہے۔ آدمی اس آب و گل کی دنیا میں خود کو ہر قدم پر کششِ ثقل (Force of Gravitation) میں پابند محسوس کرتاہے۔ کششِ ثقل کی زندگی میں  کھانا پینا، سونا جاگنا، شادی بیاہ اور دنیاوی سارے کام روحِ حیوانی کرتی ہے۔

روحِ انسانی ان احساسات و کیفیات کا مجموعہ ہے جو زندگی گزارنے کے تقاضے فراہم کرتی ہے اور ہمیں اس بات کی اطلاع فراہم کرتی ہے کہ اب ہمیں غذا کی ضرورت ہے اور اب ہمیں پانی کی ضرورت ہے۔ ہم تقاضوں کا نام بھوک پیاس وغیرہ وغیرہ رکھتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش کا تعلق روحِ حیوانی سے ہے لیکن ماں کےدل میں بچوں کی محبت ، بچوں کی پرورش اور اچھی سے اچھی تربیت کا رجحان روحِ انسانی کے تقاضے ہیں۔ روحِ انسانی کے تحت احساسات و کیفیات کو ہم خواب کے نام سے بھی جانتے اور پہچانتے ہیں۔ جب ہم سوتےہیں تو روحِ حیوانی کے اوپر نیند طاری ہو جاتی ہے اور روحِ انسانی بیدار ہو جاتی ہے۔ روحِ انسانی کےلیے Time and Space  رکاوٹ نہیں بنتے یعنی جب ہم روحِ انسانی میں زندگی گزارتےہیں تو ہمارے لیے ہزاروں میل کا سفر کرنا اور دیوار میں سے پار ہو جانا یا ہزاروں میل کے فاصلے پر کوئی چیز دیکھ لینا، دوسروں تک اپنے خیالات پہنچا دینا، مخاطب کے خیالات پڑھ لینا، جنات اور فرشتوں سے ملاقات کرنا اور مرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے ملاقات کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

روحِ حیوانی کے اندر رہتے ہوئے ہم ہر قدم پر مجبور ہیں، پابند ہیں ، لیکن روحِ انسانی ہمارے اوپر آزادی کا دروازہ کھول دیتی ہے، ایسا دروازہ جس میں ہمارے اوپر سےکششِ ثقل ختم ہو جاتی ہے۔ روحِ حیوانی کے حواس میں ہم دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے بلکہ حواس اتنے کمزور ہوتےہیں کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے کوئی  باریک کاغذ بھی رکھ دیا جائے تو ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کاغذ کی دوسری طرف کیا ہے۔

اس کے برعکس روحِ انسانی میں  ہمارے حواس اتنے طاقتور ہوتےہیں کہ ہم زمین کی حدود سے باہر دیکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرحمان میں فرمایا ہے کہ ” اے گروہِ جنات اور   گروہِ انسان! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے”۔ تصوف میں سلطان کا ترجمہ روحِ انسانی ہے یعنی انسان کے اندر جب روحِ انسانی کے حواس کام کرنے لگتے ہیں تو وہ زمین اور آسمان کےکناروں سے نکل جاتا ہے۔

سوالروحِ انسانی سے آشنا ہونے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہم جب پوری توجہ کے ساتھ کسی طرف متوجہ ہو جاتےہیں تو باقی دوسری باتیں عالمِ بے خیالی میں چلی جاتی ہیں۔ کسی ایک بات پر ہماری توجہ مستقل مرکوز رہے تو وہ بات پوری ہو جاتی ہے مثلاً جب ہم کسی دوست یا رشتے دار کے بارےمیں سوچتے ہیں اور اس طرح سوچتےہیں کہ ہمارا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر اس کی شخصیت میں جذب ہو جائے تو ہمارے سامنے آ موجود ہوتا ہے۔

روحِ اعظم  میں وہ علوم مخفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تجلی، مشیت  اور حکمت سے متعلق ہیں۔ اس دائرے سے متعارف بندہ اللہ  تعالیٰ کی ذات کا عارف ہوتا ہے یعنی برگزیدہ بندہ ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” میرا بندہ اپنی اطاعتوں سے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں یہاں تک کہ میں  وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جسکے ذریعے وہ  پکڑتا ہے”۔ اللہ تعالیٰ سے قربت  غیب  کی دنیا میں داخل ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ غیب کے عالم میں داخل ہونا یا زمان و مکان سے ماوراء کسی چیز کو دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی زمان و مکان سے آزاد ہونے کے طریقے سے واقف ہو۔ آئیں تلاش کریں کہ آدمی کے حواس زمان و مکان کی گرفت سے کیسے آزاد ہوتے ہیں۔

مثال:   ہم کسی ایسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں جو اتنی دلچسپ ہے کہ ہم ماحول  سے  بے خبر ہو جاتے ہیں۔ کتاب ختم کرنے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کئی گھنٹے گزر گئے ہیں اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا، تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اتنا طویل وقت کیسے گزر گیا۔ اسی طرح جب ہم نیند کی آغوش میں چلےجاتےہیں تو وقت کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ قرآنِ پاک کے مطابق نیند رات ہے، بیداری دن ہے۔

ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔ (القرآن)

دوسری جگہ ارشاد ہے ” ہم نکالتے ہیں رات کو دن میں سے اور دن کو رات میں سے”۔ (القرآن)

تیسری جگہ ارشاد ہے ” ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو اور دن پر سے رات کو”۔(القرآن)

 

اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آ تی ہے کہ رات اور دن  دو حواس ہیں یعنی ہماری زندگی دو حواسوں میں مقیم ہے یا ہماری زندگی دو حواسوں میں سفر کرتی ہے۔ ایک کا نام دن ہے اور دوسرے کا نام رات ہے۔ دن کے حواس میں ہمارے اوپر زمان و مکان کی جھکڑ بندیاں مسلط ہیں اور رات کے حواس میں ہم زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔

قانون یہ بنا کہ اگر کوئی انسان اپنے اوپر رات اور دن کےوقفے میں رات کے حواس غالب کر لے تو وہ زمان اور مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور زمان و مکان سے آزادی  دراصل غیبی انکشافات کا ذریعہ ہے۔

قرآن پاک نے اس پروگرام اور اس عمل کا نام ” قیام الصلوٰۃ” رکھا ہے جس کے ذریعے دن کے حواس سے آزادی حاصل کر کے رات کے حواس میں سفر کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ نماز قائم کرنے کا لازمی نتیجہ دن کے حواس کی نفی اور رات کے حواس میں مرکزیت حاصل ہونا ہے۔ نماز کے ساتھ لفظ قائم کرنا اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی نماز اپنی اس بنیادی شرط کو پورا نہیں کرتی کہ وہ کسی شخص کو رات کے حواس سے متعارف کرا دے تو وہ حقیقی نما ز نہیں ہے۔ آدمی جب مراقبہ کرتا ہے تو اس کے اوپر دن کے حواس کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ  بیدار رہتے ہوئے بھی ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد حواس (رات کے حواس) میں چلا جاتا ہے۔ جو دراصل غیبی انکشافات کا ذریعہ ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور واقعہ سامنے لانا بھی نماز کی تشریح اور وضاحت میں معاون ثابت ہو گا۔ کسی جنگ میں دشمن کا ایک تیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پنڈلی میں پیوست ہو گیا جب اس تیر کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تکالیف محسوس کی اور فرمایا  “میں نماز  قائم کرتا ہوں”۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نیت باندھی اور لوگوں نے تیر کھینچ پر مرحم پٹی کر دی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ تیز نکال کر مرحم پٹی کر دی گئی ہے۔

اس واقعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قیامِ الصلوٰۃ میں ان حواس کی نفی ہو جاتی ہے جن میں تکلیف ، جراحت اور پابندی موجود ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب نماز کی نیت باندھی تو وہ دن کے حواس سے نکل کر رات کے ان حواس  میں پہنچ گئے جو انسان کو غیب کی دنیا میں لے جاتےہیں۔

روحانیت کی بنیاد اس حقیقت پر قائم ہے  کہ انسان کے اندر دو حواس دو دماغ اور دو زندگیاں سرگرمِ عمل ہیں، جیسے ایک ورق کے دو صفحات ہوتےہیں اور صفحے الگ الگ ہونے کے باوجود ورق کی اپنی حیثیت ایک ہی رہتی ہے۔ دو حواس یا دو زندگیوں میں  سے ایک کا نام پابندی ہے اور دوسری کا نام آزادی ہے۔ پابند زندگی دن ، بیداری اور شعور ہے اور آزاد زندگی راحت، سکون، اطمینانِ قلب اور لاشعور ہے۔ راحت و سکون اور غیب کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اندر اس دنیا میں موجودگی کا یقین ہو۔ یقین ہونا اس لیے ضروری ہے کہ بغیر یقین کے ہم کسی چیز سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ پانی پینے سے پیاس اس لیے بجھ جاتی ہے  کہ ہمارے یقین کے اندر یہ بات راسخ ہے کہ پانی پیاس بجھا دیتا ہے۔ ہم زندہ اس لیے ہیں کہ  ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہے  کہ ہم زندہ ہیں۔ جس وقت جس لمحے اور جس آن زندگی سے متعلق یقین ٹوٹ جاتا ہے، آدمی مر جاتا ہے۔ کسی آدمی کے ذہن میں یہ بات آ جائے اور یقین کا درجہ حاصل کر لے کہ اگر میں گھر سے باہر قدم نکالوں گا تو میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا تو وہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔ اسی طرح  اگر کسی آدمی کے اندر یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لے کہ کھانا کھانے کے بعد وہ بیمار ہو جائے گا تو وہ کھانا نہیں کھائے گا۔ زندگی کا محاسبہ کیا جائے تو زندگی کے کسی بھی عمل میں ہم اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور ربوبیت کا انکار نہیں کر سکتے۔ اس یقین کو مشاہدہ بنانے کے لیے قرآن نے قیامِ الصلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔ مقامِ تفکر ہے کہ غارِ حرا میں یکسوئی کے ساتھ  عبادت و ریاضت مراقبہ) میں مشغول رہنے کے بعد نماز فرض ہوئی)۔ اس سے پہلے امتِ محمدیہ پر نماز فرض نہیں تھی۔ حضورپاک علیہ الصلوٰۃ و السلام ﷺ کے وارث اولیاء اللہ غارِ حِرا کی زندگی سامنے رکھ کر مراقبہ کی تلقین کرتے ہیں۔ مراقبہ اس عمل اور کوشش کا نام ہے جس سے انسان کےاندر یقین کی وہ دنیا روشن ہوتی ہے جس پر غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کا دارومدار ہے۔ مراقبہ وہ پہلی سنت ہے جس کے بعد میں قرآن نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ  پر اپنی نعمتیں پوری فرمائیں۔اللہ کو یکتا اور اللہ کے حبیب ﷺ کو اللہ کا سچا رسول ماننے والا جب کوئی بندہ مراقبہ کی کیفیات میں صلوٰۃ قائم کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب منکشف ہو جاتا ہے۔

سوالمراقبہ کیا ہے؟

جواب: ہم یہ بات بتا چکے ہیں کہ انسان کےاندر دو دماغ کا کرتے ہیں۔ ایک دماغ جنت کا دماغ ہے یعنی اس کے ذریعے کوئی بندہ جنت سے آشنا ہوتا ہے اور جنت کی زندگی گزارتا ہے۔ دوسرا دماغ وہ دماغ ہے جو آدم کی نافرمانی کے بعد وجود میں آیااور آدم نے نافرمانی کے بعد محسوس کیا کہ میں ننگا ہوں۔ ان محسوسات اور نافرمانی کے نتیجے میں جنت نے آدم کو رد کر دیا اور آدم زمین پر پھینک دیا گیا۔ تصوف میں جتنے اسباق اور اوراد و وظائف  اور اعمال و اشغال  اور مشقیں رائج ہیں ان سب کا منشاء یہ ہے کہ آدم زاد اپنا کھویا ہوا وطن واپس حاصل کرے۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان تمام اوراد و وظائف اور اعمال و اشغال اور مشقوں کو نماز میں سمو دیا۔ ہم جب دنیا کی حقیقت اور نماز کے اراکان پر غور کرتےہیں تو ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز میں زندگی کے ہر عمل کو سمو دیا گیا ہے۔ چونکہ قیام الصلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے اس لیے ضروری ہوا کہ کوئی ایسا عمل تجویز کیا جائے جس عمل میں زندگی کی تمام حرکات و سکنات موجود ہوں اور ہر عمل اور ہر حرکت کے ساتھ آدمی کا رابطہ اللہ کے ساتھ قائم ہو۔

مراقبہ کے معنی ہیں کہ تمام طرف سے  ذہن ہٹا کر ایک نقطہ پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنا اور یہ مرکزیت اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے۔ جب تک کہ کوئی بندہ ذہنی مرکزیت کے  قانون سے واقف نہیں ہوتا، وہ اللہ کے ساتھ ربط قائم نہیں کر سکتا۔ ربط و تعلق قائم کرنے کے لیے مراقبہ ضروری ہے۔ مراقبہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام  ﷺ  کی وہ پہلی سنت ہے جس کے بعد  قرآن نازل ہوا۔

سوال: مراقبہ کیسے کیا جائے؟

جواب: حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہر امتی یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام ﷺ نے غارِ حرا میں طویل عرصے تک عبادت و ریاضت کی ہے۔ دنیوی معاملات ، بیوی بچوں کے مسائل، دوست احباب کےتعلقات سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر کے کسی گوشے میں بیٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا مراقبہ ہے۔ صاحبِ مراقبہ کے لیے ضروری ہےکہ جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں شور و شغب نہ ہو، اس جگہ اندھیرہ ہو۔ جتنی دیر اس جگہ گوشے میں بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھے۔ بند آنکھوں سے یہ تصور کرے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔

پرہیز و احتیاط!

  • مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے۔
  • کوشش کی جائے کہ کسی قسم کا نشہ استعمال نہ کیا جائے اور اگر عادت ہے تو کم سے کم استعمال میں آئے۔
  • کھانا آدھا پیٹ کھایا جائے۔
  • ضرورت کے مطابق نیند پوری کی جائے اور زیادہ دیر بیدار رہے۔
  • بولنے میں احتیاط کیجائے ، صرف ضرورت کے مطابق بولا جائے۔
  • عیب جوئی اور غیبت کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔
  • جھوٹ کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کر دیں۔
  • مراقبہ کے وقت کانوں میں روئی رکھیں۔
  • مراقبہ ایسی نشست سے کریں جس میں آرام ملے لیکن ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے، اس طرح سیدھی رہے کہ ریڑھ کی ہڈی میں تناؤ واقع نہ ہو۔
  • مراقبہ کرنے سے پہلے ناک کے دونوں نتھنوں سے آہستہ آہستہ سانس لیا جائے اور سینےمیں روکےبغیر خارج کر دیا جائے۔ سانس کا یہ عمل سکت اور طاقت کے مطابق 5 سے 21 بار تک کرے۔
  • سانس کی مشق شمال رخ بیٹھ کر کی جائے۔
  • پانچ وقت نماز ادا کرنے سے پہلے مراقبہ میں بیٹھکر یہ تصور قائم کیا جائے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔آہستہ آہستہ یہ تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ہر عمل اور ہر حرکت میں یہ دیکھنے لگتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔

مراقبہ کی یہ کیفیت مرتبہ احسان کا ایک درجہ ہے۔ جب کوئی بندہ اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھل جاتےہیں اور وہ بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔ فرشتے اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔

بندہ یہ بھی دیکھتا ہے  کہ رکوع اور سجدہ میں فرشتے اس کے ساتھ ہیں۔ عالمِ خواب اور عالمِ بیداری میں جنت کی خوبصورت وادی، جنت کے خوش نما باغ، وہاں موجود حورو غلماں اس کے سامنے آ جاتےہیں۔نمازا ور مراقبہ کے ذریعے جب کوئی بندہ غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اندر خشوع و خضوع اور گداز اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو عرش کے نیچے اللہ کے سامنے سربسجود دیکھتا ہے۔ یہی وہ یقینی عمل ہے جس کے ذریعے ہمارے اسلاف اولیاء اللہ نے ہادیِ برحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی ہے۔ یہی وہ صلوٰۃ  ( مراقبہ) ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کےارشاد کے مطابق “مومن کی معراج ہے”۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 140 تا 158

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)