ملک الموت

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17661

تہجد کی نماز کے بعد مصلے پر بیٹھے بیٹھے میں نے خود کو ایک کھنڈر میں پایا۔ جگہ کچھ اس قسم کی ہے کہ کھنڈر کی عمارت اونچی ہے اور اس عمارت کے نیچے ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں ہیں زمین پر حدنظر  کاشت ہے ۔ اس کھیت میں چنے کے پودے اُ گے ہوئے ہیں ۔ کھنڈر میں میری بیوی اور تین بچے بھی میرے ساتھ ہیں ۔ میں کھنڈر یا آثار قدیمہ سے پرواز کر کے اس مزرعہ میں داخل ہو جاتا ہوں اس کھیتی کے اوپر پرواز کے دوران جگہ جگہ بکری کی مینگنیاں دیکھتا ہوں۔ کہیں کہیں زمین پر بہت چھوٹے چھوٹے پودے اگے ہوئے ہیں کسی کسی جگہ زمین بالکل چٹیل میدان کی طرح ہے۔ اس پورے علاقے میں  کوئی بڑا درخت نظر نہیں آتا۔ موسم بہت خوشگوار ہے ہلکی ہلکی اور ٹھنڈی ہوا مستی وبے خودی کا پیغام دے رہی ہے آسمان پر ہلکے ہلکے روئی کے گالوں کی طرح بادل متحرک ہیں۔ دھوپ کا کہیں نام و  نشان نہیں ہےایسا محسوس ہوتا تھا کہ صبح کاذب کا وقت ہے لیکن رات کی طرح آسمان پر چاند یا ستارے بھی موجود نہیں ہیں۔ مختصرًا یوں عرض کرونگا کہ میں اس وقت کو نہ دن کہہ سکتا ہوں اور نہ رات، نہ تو صبح صادق سے موسوم کر سکتا ہوں اور نہ ہی سورج غروب ہونے سے قبل شام سے۔

پرواز کرتے کرتے میں نے دیکھا کہ کھیت کے کنارے ایک کچا کوٹھا بنا ہوا ہے۔ کوٹھے کے باہر چار دیواری ہے۔ چار دیواری کے اندر صحن ہے صحن میں ایک گھنا سایہ دار درخت ہے ۔ غالبا یہ درخت نیم کا ہے اس درخت کے نیچے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک عورت کھڑی ہے اور ایک صاحب سے الجھ رہی ہے  اور کہہ رہی ہے کہ تم میرے خاوند کو نہیں لے جاسکتے۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس معاملے میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں وہ جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ عورت نے ہائے کہہ کر زور سے اپنے سینے پر دونوں ہاتھ مارے اور زارو قطار رونے لگی۔

میں آگے بڑھا اور پوچھا کیا بات ہے، آپ اس عورت کو کیوں ہلکان کر رہے ہیں ؟ ان صاحب نے کہا  “کہ مجھے غور سے دیکھو اور پہچانو کہ میں کون ہوں”

میں نے وہی کھڑے کھڑے آنکھیں بند کر لیں جیسے مراقبہ کرتے ہوئے بند کی جاتیں ہیں اور ان صاحب کو دیکھا تو پتا چلا کہ  یہ حضرت ملک الموت ہے۔ میں نے بہت ادب سے سلام کیا اور مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا۔ جس وقت میں نے ان سے ہاتھ ملائے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ مجھے یا د پڑتا ہے کہ جھٹکے بھی لگے۔ جن سے میں کئی فٹ اوپر اچھل اچھل گیا۔ آنکھوں میں سے چنگاریاں نکلتی نظر آئیں۔بہت ڈرتے ڈرتےاور تقریبا التجا کے سے انداز میں، میں نے پوچھا ” اس عورت کے خاوند کا کیا معاملہ ہے؟”

حضرت عزرائیل علیہ السلام نے کہا ” یہ صاحب اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں یہ عورت ان کی بیوی ہے اوریہ بھی اللہ کی برگزیدہ بندی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے پر حکم نازل فرمایا ہے کہ اب تم دنیا چھوڑ دو۔ لیکن مجھے ہدایت ہے کہ اگر ہمارا بندہ خود آنا چاہے توروح قبض کرنا اللہ کا یہ بندہ راضی برضا ہے اور اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے بے قرار ہے لیکن بیوی  صاحبہ کا اسرار ہے کہ میں اپنے شوہر کو نہیں جانے دونگی۔ تاوقت یہ کہ اس کا بدل مجھ کو نہ مل جائے، یا پھر ہم دونوں پر ایک ساتھ موت وارد ہو”

اس احاطہ کے اند ر مٹی اور گھاس پھونس کے بنے ہوئے کمرہ میں ملک الموت میرا ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں ۔ وہاں ایک خضر صورت بزرگ بھورے رنگ کے کمبل پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ یہ کمبل زمین پر بچھا ہوا ہے۔ سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا ہے ۔ کہیں کہیں  سے اس کی سلائی ادھڑی ہوئی ہے ۔ اس میں سے کھجور کے پتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ ان بزرگ کے سر کے نیچے رکھا ہوا ہے۔ داڑھی گول اور چھوٹی ہے ، لمبا قد اور جسم بھرا ہوا ہے۔ پیشانی کھلتی ہوئی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ۔ ایک بات جس کو میں نے خاص طور پر نوٹ کیا ، یہ تھی کہ پیشانی سے سورج کی طرح شعاعیں نکل رہی تھیں جن پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔

حضرت ملک الموت نے کمرہ میں داخل ہو کر کہا ۔ ” یا عبداللہ ۔ السلام علیک۔”

میں نے بھی ملک الموت کی تقلید میں یا عبداللہ السلام علیک کہا۔ بزرگ اٹھے مجھے قریب بلا کر اپنے پاس بٹھایا اور دیر تک میرے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ حضرت عبداللہ ” غالبا ان کا نام عبداللہ ہی ہو گا، نے ملک الموت سے ارشاد فرمایا،” ہمارے خالق کا کیا حکم لائے ہو؟”

ملک الموت نے دست بستہ عرض کیا۔” اللہ تعالےٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے”

حضرت عبداللہ نے فرمایا۔” ہمارے قائم مقام کے بارےمیں  ہمارے خالق کا کیا فرمان ہے؟”

ملک الموت نے عرض کیا ۔” اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظوری ہو گئی ہے۔”

حضرت عبداللہ نے فرمایا۔”تمھارے ساتھ یہ لڑکا ہمارے آقا ۔۔۔ قلندر بابا اولیاءرح کا روحانی وارث ہے ہم بھی اس کو اپنا روحانی ورثہ عطا کرتے ہے۔ حضرت ملک الموت دو زانو ہو کر ان بزرگ کے پاوں کی طرف بیٹھ گئے، میں بھی ان کے پاس ان کے پہلو میں بیٹھ جاتا ہوں۔ اپنا جسم ان کے جسم سے ملا کر سوچتا ہوں کہ یہ فرشتہ ہے اس طرح مل بیٹھنے سے ان کی روشنیاں میرے اندر منتقل ہو جائیں گی۔

ہوتے ہوتے ایسا ہوتا ہے کہ میرے جسم گھٹنے لگتا ہے اور میں ایک نومولود بچے کی طرح اس فرشتہ کی گود میں آ جاتا ہوں۔ یہ فرشتہ یعنی ملک الموت مجھے ہاتھوں میں اٹھا کر ان بزرگ کے پاس لے جاتا ہے۔ اور بزرگ کے سینے پر شہادت کی انگلی سے گلے سے ناف تک ایک خط کھینچتا ہے اس طرح ان بزرگ کا سینہ کھل جاتا ہے اور یہ فرشتہ مجھے ان بزرگ کے سینے میں رکھ کر شگاف کو بند کر دیتا ہے۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں ان بزرگ کے اندر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہوں پھر یہ ہوا کہ میرا سر بزرگ کی گردن میں سما گیا میرے ہاتھ بزرگ کے شانوں میں جذب ہو گئےاور میرے پیر بزرگ کی ٹانگوں کے ابتدائی جوڑوں میں داخل ہو گئے اور پھر میرا جسم بتدریج بڑھتے بڑھتے ان بزرگ کے جسم کے برابر ہو گیا ۔ گردن ،گردن میں سر، سر میں آنکھیں، آنکھوں میں دونوں ہاتھ بزرگ کے دونوں ہاتھوں میں، دونوں ٹانگیں بزرگ کی دونوں ٹانگوں میں اور انتہا یہ ہے کہ ہاتھوں کی انگلیاں تک انگلیوں میں جذب ہو گئیں۔ ایسے ہی پیر کی دسوں انگلیاں الگ الگ دس انگلیوں میں سرایت کر گیئں۔

یہ بزرگ شان جلال سے اٹھ کھڑے ہوئےاور بایاںپیر زور سے زمین پر مارا- پیر کی ضرب سے زمین لرزنے لگی جیسے شدید زلزلہ آگیا ہو۔ اسی عالم میں حضرت ملک الموت پھر آگےبڑھےاور انگشتِ شہادت  سے دایاں پہلو میں شگاف دے دیا۔ اور اس شگاف میں ہاتھ ڈال کر مجھے باہر نکال لیا۔ میں اب پھر نومولود بچے کی طرح تھا۔ حضرت ملک الموت نے مجھے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔  وہ بزرگ نہایت آہستگی سے لیٹ گئے اور جسم نے ایک جھُر جھُری لی اور اس مقدس و برگزیدہ ہستی کی روح پر فتوح اللہ تعالٰے کے حضور پرواز کر گئی۔

حضرت ملک الموت مجھے سینے سے لگائے کمرے سے باہر آئےاور ان بزرگ کی اہلیہ سے فرمایا۔” مجھے تمھارے شوہر کا نعم البدل مل گیا ہے۔ تمھارے پاک طینت اور اللہ کے دوست شوہر اللہ تعالی کے حضور تشریف لے جا چکے ہیں۔ اس مقدس اور پاکیزہ جسم کی تجہزو تکفین کا انتظام کرو۔

اناللہ واناالیہ راجعون۔ میری گود میں یہ بچہ تمھارے شوہر کا نعم البدل ہے۔ تم چاہو تو میں اس کو تمھاری گود میں دے سکتا ہوں”۔

عورت نے میری طرف اور پھر فرشتے کی طرف غور سے دیکھا اور تقریبا دوڑتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔

فرشتہ آسمان میں پرواز کر گیا۔ اتنا اونچا ، اتنا اونچا کہ زمین ایک چمک   دار روشن نقطہ کی طرح نظر آنے لگی۔ پھر نیچے اترا اور سہون شریف میں حضور لعل شہباز قلندر کے روضہ مطہرہ کے گنبد پر قیام کیا۔ گنبد سر پوش کی مانند اوپر اٹھا اور فرشتہ مجھے گود میں لئے ہوئے مزار مبارک میں داخل ہو گیا اور قلندر صاحب کی تربت کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ کچھ وقفہ کے بعد قبر میں حرکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے قبر بیچ میں سے شق ہو گئی۔قبر کے اس شگاف سے دھوئیں کی ایک لاٹ نمودار ہوئی اور پھر یہ دھواں حضور لعل شہباز قلندر کی شکل میں تحلیل ہوگیا۔ اب دیکھا کہ حضور قلند ر صاحب قلندرانی شان سے تشریف رکھتے ہیں۔ ملک الموت نے مجھے حضور قلندر صاحب کے کے قدموں میں ڈال دیا اور الٹے پیروں چند قدم پیچھے ہٹا اور پرواز کر گیا۔

حضور لعل شہباز قلندر صاحب نے انگشت شہادت سے  زمین پر دو دائرے بنائے اور مجھے اس طرح  لٹا   دیا کہ ایک دائرہ میں میرا سر ہے اور دوسرے دائرے میں میرے دونوں پیر ہیں ۔ بایاں ہاتھ میری پیشانی پر رکھا اور دایاں میرے پیٹ پر ۔ کچھ پڑھا جو میری سمجھ میں نہیں آیااور میرے سر کے بیچ میں یا امُّ الدماغ میں ایک پھونک ماری۔ پھر کچھ پڑھا اور دوسری مرتبہ میرے سینے پر  پھونکا۔ پھر کچھ پڑھا اور تیسری پھونک میری ناف کے پاس لگائی۔ ان تین پھونکو ں کے بعد میرا جسم بڑا ہونا شروع ہوا  اور  میں بارہ تیرہ سال کے بچے کے برابر ہو گیا۔ حضور نے میری انگلی  پکڑی اور مجھے قبر کے اندر لے گئے۔ جیسے ہی ہم قبر کے اندر اترے قبر کا شگاف بند ہوگیا۔اب دیکھا کہ قبر ایک بند کوٹھے کی مانند ہے۔ قبر کے بائیں طرف دیوار میں ایک کھڑکی یا چھوٹا دروازہ لگا ہوا ہے۔ حضور قلندر صاحب نے فرمایا۔” جا ؤوہ دروازہ کھول کر اندر سیر کرو۔ جودل چاہے کھاؤ۔ خوب سیر کرو۔ تم بالکل آزاد ہو”۔

میں آگے بڑھا اور دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ یہ ایک باغ تھا۔ اتنا خوبصورت اور دیدہ زیب جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اس باغ میں کیا کچھ نہیں تھا۔ سب ہی کچھ موجود تھا۔ میں نے ایسے پرندے دیکھے کہ جن کے پروں سے روشنی نکل رہی تھی۔ ایسے پھول دیکھے کہ جس  کا تصور نوع انسانی کے شعور سے ماورا ہے۔ پھولوں میں  ایک خاص اور عجیب بات یہ نظر آئی کہ ایک ایک پھول میں کئی سو رنگوں کا امتزاج ہے اور یہ رنگ محض رنگ نہیں ہیں بلکہ ہر رنگ روشنی کا ایک قمقمہ بنا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ جب ہوا چلتی ہے تو یہ رنگ آمیز روشنیوں سے مرکب پھول ایسا سماں پیدا کرتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں روشنیوں کے رنگ برنگے قمقمے درختوں اور پودوں کے جھولوں پر جھول  رہے ہیں۔ درختوں میں ایک خاص بات یہ مشاہدہ کی کہ ہر درخت کاا تنا اور شاخیں، پتّے، پھول، پھل بالکل ایک دائرہ میں تخلیق کئے گئے۔ اس کی مثال سانپ کی چھتری سے دی جا سکتی ہے۔ جس طرح برسات میں سانپ کی چھتری زمین سے اگتی ہے، اسی طرح گول اور بالکل سیدھے تنے کے ساتھ یہاں کے درخت ہیں۔ ہوا جب درختوں اور پتوں سے ٹکراتی ہے تو سا زبجنے لگتے ہیں ۔  ان سازوں میں اتنا کیف ہوتا ہے کہ آدمی کادل   وجدان سے  معمور ہو جا تا ہے۔ میں نے اس باغ میں انگورو ں کی بیلیں بھی دیکھیں۔ انگوروں  کا رنگ گہرا گلابی یا گہرا  نیلا ہے۔ بڑے بڑے گوشوں میں ایک ایک انگور ہماری دنیا کے بڑے سیب کے برابر ہے۔  اس باغ میں آبشار اور صاف شفاف دودھ جیسے پانی کے چشمے بھی تھے۔

بڑے بڑے حوضوں میں سینکڑوں قسم کے کنول کے پھول  گردن اٹھائے کسی کی  آمد کے منتظر نظر آتے ہیں۔ باغ میں ایسا سماں تھا جیسے صبح  صادق کے وقت ہوتا ہے۔ یا بارش تھمنے کے بعد سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے ہوتا ہے۔ میں نے اس باغ میں پرندے، طیور تو ہزاروں قسم کے دیکھے مگر چوپائے مجھے کہیں نظر نہیں آئے۔

بہت ہی خوبصورت درخت پر بیٹھے ہوئے ایک طوطے سے میں نے پوچھا کہ یہ باغ کہاں واقع ہے۔ اس طوطے نے انسانی بولی میں جواب دیا” یہ جنت الخلد ہے۔ یہ اللہ کے دوست لعل شہباز قلندر کا باغ ہے ” اور پھر حمد و ثنا کے ترانے گاتا ہوا اُڑ گیا۔

المختصر میں نے جو کچھ دیکھاوہ میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ انگوروں کا ایک خوشہ توڑکر واپس اسی راستے یا جنت کی کھڑکی سے حضور قلندرصاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔

حضور نے فرمایا۔”ہمارا باغ دیکھا۔ پسند آیا تمہیں؟”

میں نے عرض کیا ۔ ” حضور ایسا باغ تو نہ کسی نے دیکھا اور نہ سنا ہے۔ میں تو اس کی تعریف کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔”

حضور لعل شہباز قلندر نے خوش ہو کر میری کمر تھپکی اور میرے ہاتھ سے انگوروں کا خوشہ لےکر ایک ایک انگور مجھے کھانے کو دیتے رہے۔ مجھے صحیح طرح یاد نہیں ، غالبا میں نے پانچ یا سات انگور کھائے ہیں۔ ان انگوروں کا ذائقہ دنیا کے انگوروں سے قطعا مختلف تھا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 9 تا 16

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)