آسام کی پہاڑیوں میں

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17747

مٹھاس چھوڑے چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ دیکھا ایک جوگی صاحب تشریف لائے۔ فرمایا ” مبارک ہو۔ آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ لے جاوں گا”۔ صبح کے پانچ بجے ہیں جوگی صاحب آئے۔ فرمایا” چلو”

میں کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں ان کے پاس آیا۔  جوگی صاحب نے کہا۔ “آنکھیں بند کرکے میرے کرتے کا دامن پکڑ لو اور ساتھ ساتھ چلے آو”

چند لمحے بعد جوگی صاحب نے فرمایا۔” آنکھیں کھول دو”

آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔۔۔۔ یا مظہرالعجائب ؛ اپنے کو پہاڑ کی تلہٹی{ وادی} میں کھڑا پایا۔ اتنی سردی ہے کہ  دانت بجنے لگا۔جوگی  صاحب نے سر پر ہاتھ دھرا تو سکون آگیا۔ فرمایا کہ یہ آسام کی سب سے اونچی پہاڑی ہے یہی میری جائے قیام ہے۔ دیکھا کہ گنبد نما جھونپڑی بنی ہوئی ہے۔ چھت در۔۔۔ کے پتوں اور تنے کی ہے۔ جھونپڑی کے سامنے مکئی کا کھیت تھا۔ جوگی صاحب نے دو بھٹے توڑے، آگ جلا کر سینکے۔ کہا۔” کھاو” یہ فقیر کا تحفہ ہے”

میں بھٹے کھا رہا تھا کہ وہ جھونپڑی کے اندر سے بانسری اٹھالائے۔ کہا ” تم بھٹے کھاو میں تماشہ دکھاتا ہوں”

بانسری کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی چلی گئی۔ آواز میں ایسی کشش تھی کہ خدا کی پناہ؛ دیکھتے ہی دیکھتے پرندے، چرندے، درندے، سانپ، بچھو اور بن مانس گروہ در گروہ  آنا شروع ہوگئے۔ عجیب و غریب سماں، عجیب و غریب منظر؛ اللہ کی قسم قسم کی مخلوق سب آموجود ہوئی۔ ہیبت کے مارےمیرے ہاتھ سے بھٹا گر گیا اور عجیب عالم بے ہوشی میں اس منظر کو دیکھنے لگا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ بانسری کب تک بجی۔ جوں ہی بانسری کا گیت اور نغمہ بند ہوا یہ سب جانور جس طرح آئےتھے اسی طرح چلے گئے۔ جوگی صاحب نے فرمایا” تم نے دیکھامگر یاد رکھو یہ سب بھان متی کا تماشہ ہے۔ روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔شب میں ساڑھے تین بجے مراقبہ کے عالم میں ایک ایسا شہر دیکھا جو سب کا سب شیشے کا بنا ہوا ہے۔ گھاس، درخت،  مکان کی دیواریں، سڑکیں، سبزہ زار غرض ہر چیز شیشے کی ہے۔ میدان میں گھاس کے اوپر گنبد نما شیشہ لگا ہوا ہے اور اس کے اندر ہوا سے گھاس ہلتی نظر آتی ہے۔ سارا شہر کا سماں اس طرح ہے جیسے سورج نکلنے سے آدھے گھنٹے پہلے ہوتا ہے۔ وہاں انسانوں ہی کی آبادی ہے اور شہر کا انتظام بھی انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔

سانس کی مشق کرتے کرتے غنودگی طاری ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ تاریکی بھی ایک  قسم کی روشنی ہے۔ جس طرح روشنی مشاہدے کا ذریعہ  بنتی ہے بالکل اسی طرح تاریکی میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ روشنی اور تاریکی کی دنیا میں کوئی فرق نہیں۔ تاریکی میں بھی اسی طرح آبادیاں ہیں جس طرح ہم روشنی میں دیکھتےہیں۔ زمیں کے اندر سے اس طرح روشنیاں پھوٹتی نظر آئیں جیسے بھاڑ میں چنے بھنتے وقت اچھلتے ہیں۔ مراقبہ میں اپنے اندر سے نہایت حسین و خوشنما روشنیاں پھوٹتی نظر آئیں۔ ان روشنیوں کا رنگ اس قسم کا تھا کہ ان کی مثال ہماری دنیا میں نہیں مل سکتی۔ صحن میں آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا کہ آسمان پوری بلندی پر نظر آیا۔ خلا بیچ میں سے نکل گیا۔ جو رنگ ہمیں نظر آتا ہے وہ آسمان کا نہیں ہے۔ ہم خلاء (SAPCE)  کو آسمان  سمجھتے ہیں حالانکہ وہ محض خلاء ہے آسمان نہیں ہے۔اصلی آسمان کی مثال بساط کی سی ہے جس پر بے شمار مخلوق چلتی پھرتی ہے، کھاتی پیتی ہے، اور ہنستی بولتی نظر آتی ہے۔ معلوم نہیں یہ کس قسم کی مخلوق ہے۔ البتہ انسان وہاں بھی موجود ہے۔ میں نے چھت کو چھونا چاہا تو میرا ہاتھ چھت سے جا لگا۔ اس عمل کو بار بار دہرایا۔ جب بھی ہاتھ چھت کی  طرف  بڑھاتا تو چھت سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں نیچے آ جاتی تھی جس طرح کہ ربر کی بنی ہوئی ہے۔

میں نے شیخ سے سوال کیا کہ فقیر کس طرح وسیلے کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں؟

حضرت شیخ نے فرمایا کہ سانس اندر لینا صعودی حرکت ہے اور سانس باہر نکالنا نزولی حرکت۔ سانس باہر نکالنے کا عمل {نزولی حرکت}انسان کو زمان اور مکان میں مقید کر دیتا ہے اور صعودی حرکت {سانس اندر کھینچنا} اسے زمان اور مکان (TIME AND SPACE)  کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔ تم اس کا تجربہ کرو۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 69 تا 72

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)