میں نے عرشے معلیٰ دیکھا
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17807
ہائے یہ میں نے کیا کیا دیکھ لیا ۔ اتنے بڑے بڑے گناہ ، اللہ میری توبہ، اللہ میری توبہ۔ ہائے ساری دنیا میں آج کل کیسی کیسی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، دنیا کا کوئی بھی ملک ان برائیوں سے بچا ہوا نہیں ہے۔ زنا، شراب، جوا عام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قبل عربوں کی حالت تھی اب دنیا کی ہے۔ ہائے لوگو،قیامت تمہارے سر پر کھڑی ہے وہ کب آئے گی اس کا صحیح علم صرف خدا ہی کو ہے، میں صرف دیکھ سکتی ہوں ، صرف اتنا جان لو کہ اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ساری دنیا کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔ یاد کرو مراکش کے شہر آغا دیر کا وہ زلزلہ جس میں لاکھوں مسلمانوں کی جان گئی ان تمام لوگوں میں زنا، شراب اور جوا عام تھا۔ اللہ کے غضب کو دعوت نہ دو، لوگو مان جان۔۔۔لوگو سنبھل جاؤ صرف چند دن اور باقی ہیں، اٹھو سجدے کرو، سجدے کرو، اللہ کے آگے گڑگڑاؤ، اپنے گناؤں کی معافی مانگو، برائیوں سے بچو۔
ہائے یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں، آگ ،آگ، آگ۔ لوگو اس آگ سے دور رہو، یہ تو بڑی ہی ظالم آگ ہے۔ اللہ میاں، اللہ میاں ساری دنیا کواس سے محفوظ رکھیے۔ اللہ میاں! مجھ سے یہ منظر دیکھا نہیں جاتا۔ خداوند سب کو بخش دیجئے ۔ آپ کے پاؤں پڑتی ہوں، مجھ اکیلی کو یہ سزا دے دیجئے۔ سجدے کرتی ہوں۔ ہائے میں کتنی کمزور ہوں، کیا میں کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ اللہ میاں آپ کو میری اس محبت کا واسطہ جو آپ کو مجھ سے ہے ، اس آگ کو ٹھنڈا کر دیجئے۔
میں جو کچھ لکھ رہی ہوں یہ اس منظر کا حال ہے جو میں نے ابھی ابھی دیکھا۔ پتا نہیں میں کہاں تھی، شاید آسمانوں پر۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آگ کے شعلوں کے پہاڑ ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی کہیں گنا اونچے۔ ان کی لمبائی کروڑوں میل ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ میں صحیح اندازہ نہیں لگا سکتی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ سب بڑے بڑے گناؤں زنا، جوا، شراب، حرام، غیبت کی سزا ہے اور یہ گناہ آج کل دنیا میں عام ہیں۔میرا سر چکرا رہا ہےمیں بے ہوش ہو کر گرنے والی ہوں۔ اے اللہ مجھ پر رحم کر ، ہائے یہ میں نے کیا کیا دیکھ لیا۔ آسمان کےفرشتوں کے دل بھی ان گناؤں سے لرز اٹھتے ہیں۔ گناہگار لوگوں کے لیے قیامت خدا کا قہر ہے، خدا کا غضب ہے اور وہ سر پر کھڑی ہے۔ سنبھلو، ہوش میں آؤ، پاک صاف رہو، نماز کی پابندی رکھو، قرآن شریف میں وہ تمام ہدایتیں موجود ہیں ان پر عمل کرو۔
غور سے سنو اے بنی آدم ،یہ تمہارے لیے بڑی نصیحت کی باتیں ہیں۔ یہ خدا کا فرمان ہے جو فرشتے مجھ سے لکھوا رہے ہیں، ہر بات کو یہاں تک پڑھو کہ تمہاری عقلوں میں سما جائے۔ ازل خدا کا سر ہے، ابد خدا کے پاؤں۔ ازل اور ابد کے درمیاں خدا کی ہستی کا پھیلاؤ ہے۔ اے بنی آدم سن لے کہ اگر تو اپنی عمر کے ستر ہزار برس صرف گننے میں گزار دے اور پھر اس گنتی کو پھر ستر ہزار سے ضرب دے تب بھی ازل سے ابد تک کا فاصلہ نہ ناپ سکے گا، نہ میلوں میں ، نہ فرلانگوں میں، تو ہے کس کھیت کی مولی۔ خدا نے تمہارے لیے سب کچھ آسان کر دیا۔ ایک ایک بات کھول کر بیان کر رہا ہے، سجدہ کرو، شکر کا سجدہ، ابھی اسی وقت اللہ اکبر کہہ کر تکبیر کرو پھر سجدے میں چلے جاؤ۔ اب سنو اور سمجھو! ازل اور ابد کے اطراف میں اوپر ، نیچے، دائیں، بائیں کچھ بھی نہیں ہر جگہ نور ہی نور ہے۔
جیسا کے آپ جانتے ہیں کہ یہ علم مجھے کچھ تو خوابوں کے ذریعے اور کچھ مراقبہ کی حالت میں دیا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ مانچسٹر میں اور دوسری مرتبہ آپ کے ہاں کراچی میں رمضان کے مہینے میں۔ اللہ تعالیٰ نے میری روح اپنی مٹھی میں لی ہوئی تھی اور پھر جو کچھ مجھے دکھانا چاہتے تھے وہ میری روح کو بتاتے جاتے تھے اور جو جو کام کروانا چاہتے تھے وہ میری روح کو حکم دیتے جاتے تھے جس کی وجہ سے میں ایک مشین کی طرح وہ سب کچھ کرتی رہی۔ لیکن اس وقت کچھ بیان کرنے کے قابل نہ تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے میرے ساتھ کر دئیے ہیں جو مجھ سے لکھواتے جاتے ہیں جو کچھ بھی میں نے دیکھا تھا وہ منظر اب بھی میری نگاہوں میں پھر جاتا ہے اس طرح میں آپ کو آنکھوں دیکھا حال لکھتی جاتی ہوں۔ جو جو باتیں وہ بتاتے ہیں وہ تو اس قدر ہیں کہ میں لکھنے سے قاصر ہوں باقی اللہ نے زندگی دی اور اس کی مرضی ہوئی تو آپ کے قدموں میں بیٹھ کر عرض کروں گی۔ مانچسٹر میں میں نے جو اپنے آپ کو دیکھا تھا کہ میری روح خدا کو سجدے کر رہی ہے اور میں خود ہی شمع پکڑے سفید لمبا سا گاؤن پہنے سیڑی سے اتر رہی ہوں۔ وہ میری عقل تھی جو خدا نے سلب کر کے خود اسی کے ذریعے مجھے یہ سب کچھ دکھایا، اسی لیے اس وقت مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے مجھے کسی نے ہپناٹائز کر دیا ہے۔ مجھے عرش کا مشاہدہ کروایا گیا۔میں نے دیکھا کہ عرش کا فرش زمرد کا ہے جو ہرے رنگ کا ہے ، اس میں مختلف رنگوں کی شعاعیں پھوٹتی ہیں جس کے اوپر چھتر ی کی طرح سائبان ہے۔
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا۔ تمہارا ارادہ بھی جب کسی کام کا ہوتا ہےیعنی جب تمہارا جی جب کسی کام کو چاہتا ہے تو پہلے دل ہی میں خیال ہوتا ہے پھر دماغ کو حکم ہوتا ہے پھر ہاتھ پیر وغیرہ وہ کام کرتے ہیں، اس طرح پہلے اللہ کے دل میں کائنات پیدا کرنے کی خواہش ہوئی تو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خدا کے دل کا نور ہے۔ پھر دماغ کو حکم ہوا جو جبرائیل وجود میں آئے پھر کائنات کی دوسری چیزیں بنیں۔ اللہ ہر چیز کو شکل دینے پر قادر ہے۔ روح جو ہمیں نظر نہیں آتی اس کی بھی شکل ہے۔ پیغمبر اور اولیاء روح کی نظروں سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بعد لوح و قلم بنایا۔ لوح ایک بڑی کتاب ہے اس کتاب میں قیامت تک کی باتیں درج ہیں اور آسمانی کتابیں بھی اسی پر منقوش ہیں۔
اب میں آپ کو اپنا ایک خواب سناتی ہوں۔
مجھے مقامِ ازل دکھایا گیا، یہاں نور کا ایک بڑا چشمہ بہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ جیسے ایک پہاڑ ہے یا کوئی چٹان ہے۔ اس میں گول بڑا سوراخ ہے اس میں نور آبشار کی طرح بہت بڑی مقدار میں پھوٹ رہا ہے۔ نور کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جو بیان نہیں کی جاسکتی، ہاں تو وہ نور بہت ہی بڑی مقدار میں اس سے پھوٹ رہا ہے۔ اس سے آگے کافی فاصلے پر اللہ کی کرسی ہے۔ کرسی کی پُشت اس دھار کی طرف ہے اور اللہ تعالیٰ اس کرسی پر جلوہ افروز ہیں۔
اس وقت صبح کے ساڑھے چار بجے ہیں۔ ابھی ابھی فجر کی نماز پڑھ کر آپ کو خط لکھنے بیٹھی ہوں۔ آج کل یہاں سورج جلدی نکل آتا ہے اس لیے نمازِ فجر جلدی ہو جاتی ہے۔ آج ساری رات مجھے جو کچھ نظر آیا وہ یہ ہے: ۔
میں نے دیکھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں وہ میرے ساتھ ہیں یا کبھی ذرا سے آگے ہو جاتےہیں پھر میں اپنے آپ کو پیچھے مڑ کر دیکھا، اللہ رے میرا حسن، مجھ سے خود اپنا حسن نہ دیکھا گیا۔
یہاں ذرے ذرے پر کلمہ لکھا ہوا ہے۔ ہر طرف نور ہی نور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ تھاما ہوا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ایک لمحہ کو بھی میرا ہاتھ چھوڑ دے تو اس وادی میں میں گم ہو کر نہ رہ جاؤں۔ اس وادی کا حسن مجھ سے بیان نہ ہو سکے گا۔
میں کیسے بیان کروں کہ وادیِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے۔؟ مختصراً یہ کہ وادیِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساتواں آسمان ہے جو سب سے اوپر ہے جو عرش عظیم ہے جو لوحِ محفوظ ہے۔ وادی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ انسان کی زبان کر سکتی نہ میری آنکھ دیکھ کر بھی بتانے کے قابل ہے۔ میں قیامت تک اس کی تعریف بیان کرنے کے قابل نہ ہو سکوں گی۔ یہ سب سے اونچا درجہ ہے۔ یہاں کوئی فرشتہ پر نہیں مار سکتا۔
یہاں سے نیچے چھٹے آسمان کو جانے کے لیے ایک سیڑھی ہے، جو میرے خیال کے مطابق ستر ہزار میل لمبی ہے۔ یہ سیڑھی نہایت ہی برق رفتاری سے خود بخود چلتی ہے۔ ایک حصہ لفٹ کی طرح اوپر جاتا ہے اور ایک حصہ لفٹ کی طرح نیچے آتا ہے۔ (دو حصے ہیں دوہری سیڑھی ہے)۔ اب میں آن کی آن میں نیچے اترتی ہوں، سیڑھی کے نیچے سب سےنچلی سیڑھی پر حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک سونے کا طشت رکھ رہے ہیں۔ اس طشت میں میری دعا ہے۔ وہ یہ طشت رکھ کر نہایت ہی ادب و احترام سے جھک کر پیچھے کو ہٹ گئے۔ اب یہ سیڑھی خود بخود اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے پاس عرشِ عظیم پر پہنچ گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے طشت سے دعا اٹھا لی، یہ دُعا نور کے پھریروں سے پر فرشتوں نے لکھ کر بھیجی تھی۔ اب دُعا قبول ہو گئی۔ اگر دعا قبول نہ ہونے والی ہو تو لکھنے والے فرشتے خود ہی آسمان سےنیچے پھینک دیتےہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 115 تا 121
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔