میٹھی نیند
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6211
صدیوں سے زمین پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ زندگی کے ادوار، زمانہ کے نشیب و فراز اور سائنسی ایجادات زمین کے سینے میں محفوظ ہیں۔ زمین یہ بھی جانتی ہے کہ کتنی تہذیبوں نے اس کی کوکھ سے جنم لیا اور پھر یہ تہذیبیں معدوم ہو گئیں۔
خلا سے اُس پار آسمانوں کی وسعتوں میں جھانک کر دیکھآجائے تو مایوسیوں، ناکامیوں اور ذہنی افلاس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا یوں لگتا ہے کہ زمین کے باسیوں کا اپنی ذات سے فرار اور منفی طرز عمل دیکھ کر نیلے پربت پر جھل مِل کرتے ستارون کی شمع امّید کی لَو مدّھم پڑ گئی ہے۔ وہ انسان جو اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بد تر زندگی گزار رہا ہے۔ جو سکون ایک بکری اور بلیّ کو حاصل ہے اس کا عشرِ عشیر بھی انسان کو میسر نہیں۔
تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے والی ہستی، خود مختار خالق نے اس دھرتی کو ایک قطعۂ زراعت بنا کر آدمی کے حوالے کیا کہ وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر میٹھی نیند سو سکے۔ اس ہی لیئے اس کی تخلیق کا ظاہری جسم اسی مٹی سے بنایا گیا اور اس کے استعمال کی پر چیز مٹی سے بنائی گئی ہے۔ زمین کو قدرت نے اتنا سخت نہیں بنا دیا کہ آدم زاد اس پر چل نہ سکے، اتنا نرم نہیں بنایا کہ آدم زاد کے پَیر زمین میں دھنس جائیں۔ اسے اختیار دیا گیا کہ وہ زمین پر تصرف کر سکے۔ اور زمین کے جسم میں دوڑنے والے خون (RAYS) سے جس طرح چاہے استفادہ کرے۔ لاکھوں کروڑوں سال کے پہلے آدم کی طرح آج بھی آدم زاد زمین کے سینے پر کھیتی کرنے میں مصروف ہے۔ اس کھیتی کا ہر جزو بھی آدم کی طرح مٹی ہے۔ جو کچھ بوتا ہے اس کا بیج بھی مٹی ہے۔ پودا بھی مٹی کی ایک شکل ہے۔ درخت بھی مٹی کے اجزاء سے مرکب ہے۔ اور جو پرشکوہ عمارتیں ہمیں نظر آتی ہیں یہ بھی مٹی کی ہیں۔ بڑی سے بڑی ایجادات کا بنیادی مسالا (RAW MATERIAL) مٹی ہے۔
آدمی جس طرح سرسبز درخت اور ہرے بھرے لہلہا تے کھیت اُگاتا ہے، اُسی طرح عمارتیں، تعمیرات اور دیگر اشیاء بھی اس کی زراعت کی پیداوارہیں۔
آدمی مٹی بوتا ہے اور مٹی سے ہی نتائج حاصل کر تا ہے۔ بوائی اور کٹائی کا یہ عمل متواتر اور مسلسل جاری ہے۔ کیوں کہ وہ اس زراعت کا فعّال رکن ہے اور اسے ارادے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیئے فصل بھی اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ عمل اور ردِ عمل، حرکت اور نتائج کے اس قانون کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ کی بیان فرمایا ہے “دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔”
قول و فعل میں تضاد کا عالم یہ ہے کہ ہر آدمی جانتا اور کہتا ہے کہ زمین پر وقفہِ زندگی محدود ہے لیکن اس کا عمل اس روزمرّہ مشاہدہ کے خلا ف ہے۔ وہ تمام تر زندگی اس خطوط پر گزارتا ہے جو فطرت کے اٹل قانون کے منافی ہیں۔ تخریب کا نام اس نے ترقی رکھا ۔ اور فلاح و بہبود کے طلسمی نام پر مستقبل کی ناخوش گواریوں کو جنم دیتا ہے۔ رو شن نگاہی کا ادعویٰ کر کے جو کچھ کرتا ہے وہ بد ترین درجہ کی کوتاہ اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سبحان اللہ! کیا خوب منظر نگاری ہے۔ ایٹم بم کو ترقی کا نام دے کر انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹآجا رہا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا فلاح و بہبود کے دعویداروں نے ایک ایٹم بم کو لاکھوں قیمتی جانوں پر فضلیت بخشی ہے۔ انسان قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا امین ہے۔ لیکن اس نے ان صلاحیتوں کو حرص و ہوس، خودغرضی، انا پرستی اور خود نمائی جیسے جذبات کی تسکین میں اپنی ذات تک محدود عمل کے نتیجے میں آدمی کی ساری توجہ اس فا نی دنیا میں مرکوز رہتی ہے۔ اور اس کے اعمال کی بنیاد بھی فا نی دنیا کی طرح فنا بن جاتی ہے۔ چنانچہ جب وہ دنیا بوتا ہے تو اسے دنیا ہی کاٹنا پڑتی ہے۔ چوں کہ دنیا فانی ہے، اس لیئے اس کے حصے میں فنا کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا اور وہ بقا کی زندگی سے جس میں سکون ہے، راحت ہے، محروم ہو جا تا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 85 تا 87
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔