مٹی کا شعور
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6210
سوچ کی دو طرزیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ دنیا میں زندہ رہنے کے لیئے ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر وسائل کے انبار میں خود کو قید کر لیتے ہیں۔ اور ہمارے سامنے آسائش و آرام اور روٹی کپڑے کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں آتی اور اسی کو ہم زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔
دوسری طرز یہ ہے کہ اعتدال کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس مادّی دنیا میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا ہے۔ دنیا میں عزت و جاہ کا خوش نما لباس زیب تن کرنے کے لیئے ہم دولت جمع کرتے ہیں۔ اس دولت کی تشہیر کے لیئے عالی شان محلات کھڑے کرتے ہیں۔ گھروں میں تزئین و آرائش کے ایسے ایسے سامان رکھتے ہیں جن سے اس بات کا اظہار ہو کہ ہماری اپنی ایک حیثیت ہے۔
جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزّت و توقیر کے حصول کا تعلق ہے یہ ایک خود فریبی ہے، ایسی خود فریبی جس سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ فراعین مصر کے محلات، قارون کے خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے اور ہر زمانے میں دولت کی حقیقت کو ہمارے اوپر آشکار کرتی رہتی ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کے حالات سے کون واقف نہیں ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ پوری شان و شوکت اور شاہی دبدبہ کے با وجود مادرِ وطن میں قبر کے لیئے جگہ بھی نصیب نہیں ہو ئی۔۔۔۔۔۔
سونے چا ندی کے ذخیروں اور جوہرات کے ڈھیر نے دنیا کے امیر ترین آدمیوں کے ساتھ کتنی وفا کی؟ کیا یہ حقیقت ہمارے لیئے درس عبرت نہیں ہے؟
مٹی صرف خود کو پہچانتی ہے اور اپنے ایک ایک عضو کو اپنی کوکھ سے وابستہ رکھتی ہے۔ مٹی کو اگر ایک فرد مان لیاجائے تو مٹی سے بنی ہوئی ہر چیز مٹی کے اعضاء ہیں۔ تانبا، لوہا، جوہرات، سونا، چا ندی وغیرہ مٹی کے وہ اعضا ہیں جن پر مٹی کا تشخص قائم ہے۔ آدمی کآجسم بھی مٹی سے مرکب ہے لیکن آدمی چوں کہ اللہ کی امانت کا امین ہے اس لیئے مٹی کا شعور آدمی کو دوسرے اعضا کے مقابلے میں اپنا قلب سمجھتا ہے اور جب کسی جسم میں قلب متاثر ہو جا تا ہے تو بالآخر جسم مفلوج اور ناکارہ بن جاتا ہے۔ مفلوج اور ناکارہ جسم کی حیثیت زمین پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
یہ بات کس کے علم میں نہیں ہے؟ آدمی چاہے تو پچاس کمروں کا مکان بنا لے لیکن سوئے گا وہ ایک ہی چارپائی کی جگہ۔ چاہے تو ہوس و زر میں سونے چا ندی (مٹی کے ذرات) سے خزانے بھر لے لیکن پیٹ کے ایندھن کو پورا کرنے کے لیئے اسے دو (۲) ہی روٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماحول کو مصنوعی رو شنیوں اور خوشبوؤں سے کتنا ہی رنگین اور معطر کر لیاجائے آدمی کے اندر کی سڑاند کا یہ نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور صاف ستھرا رکھتی ہے اور جب اولاد تعفن سے نکلنا نہیں چا ہتی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ اور اس اَدبار کی وجہ سے انسان گھناؤنا اور ناسور زدہ ہو جاتا ہے۔ بلا شبہ کسی بندہ کے لیئے اس سے بڑا درد ناک عذاب اور کوئی نہیں ۔ قرآن کہتا ہے:۔
“اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لیئے خرچ نہیں کرتے، ان کے لیئے “عَذَابٍ أَلِيمٍ” کی بشارت ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 82 تا 84
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔