من موہنی صورت
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6206
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولؐ بادشاہ۔
چند دانشور سر جو ڑے بیٹھے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کشش کیا ہے، کیوں ہے اور اس کا منبع اور مخزن کیا ہے؟
کسی نے کچھ کہا ۔ کسی نے اپنی بات کو ثابت کرنے لیئے دلائل پیش کئے۔ ایک صاحب بول پڑے:۔
“زمین میں کشش (GRAVITY) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیب زمین پر گر جاتا ہے۔”
دوسرے صاحب بو لے:۔
“یہ بھی تو روز مرّہ مشاہدے کی بات ہے کہ عارضی طور پر سہی لیکن کششِ ثقل سے آزادی مل جاتی ہے۔ تیز رفتاری بھی کشش ثقل سے آزاد ہونے کا عمل ہے۔”
شہرسے دور، آبادی سے باہر ویرانےمیں لال بجھکڑ رہتے تھے۔ جب مسئلے کا کوئی حتمی حل سامنے نہیں آتا تو لوگ اس لال بجھکڑ کے پاس پہنچے اور درخواست پیش کی:۔
“حضرت! یہ کشش کیا ہے؟”
لال بجھکڑ غور و فکر کے سمندر میں سے گوہر آب دار نکال لائے کہنے لگے:۔
اس وقت ہمارے سامنے جو بھی شئے ہے، وہ خلا ہے۔ بوتل اس لیئے بوتل ہے کہ اس کت اندر خلا ہے۔ زمین میں خلا نہ ہو تو بیج کو نشو ونما نہ ہو گی۔ بیج کو خلا سے آزاد کردیا جائے (یعنی دال بنا دی جائے) تو زندگی در زندگی درخت کا تصوّر بھی قائم نہیں ہوگا۔
آدمی بھی خلا ہے اور اس خلا میں لائف اسٹریم گونجتی (ECHO) رہتی ہے۔ کائنات بھی ایک خلا ہے اور اس خلا کا محور ایک ایسی ذات ہے جو خلا کی رگِ جان ہے۔ جب خلا کے ٹکڑے یک جا ہو جاتے ہیں تو مٹی، لوہا، پتھر سونا چاندی بن جاتے ہیں۔ انہیں تقسیم کر دیا جائے تو ناقابل تقسیم عدد تک تقسیم ہو جاتےہیں۔
لال بجھکڑ نے مٹی کاایک ڈھیلا اٹھایا۔ اسے لوگوں کو دکھایا، “صاحبو! یہ ڈھیلا اگر زور سے مارآجائے تو کیا چوٹ لگے گی؟”
لوگوں نے جواب دیا ۔”جی ہاں، چوٹ لگے گی”
لال بجھکڑ نے مٹی کے ڈھیلے کو پیس کر سُرمہ بنایا اور پھونک مار کر اُسے ہوا میں اڑا دیا ۔ لوگوں سے پوچھا:۔
“مٹی کا ڈھیلا کہا ں ہے؟”
پھر دوسرکنڈے ایک وزن ایک حجم کے اٹھائے دونوں کو ایک ساتھ فضا میں اچھال دیا زمین پر دونوں ایک ساتھ نہیں گرے لال بجھکڑ نے کہا ۔ دوستو! ان دونوں سرکنڈوں کو ایک ساتھ اچھالا گیا تھا۔جس فضا میں اچھالا گیا وہ بھی ایک ہے اور اچھالنے میں جتنی طاقت استعمال ہوئی وہ بھی یکساں ہے۔ پھر یہ سرکنڈے کیوں ایک ساتھ زمین پر نہیں آئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شئے کے اندر خلا کاعمل رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولؐ بادشاہ۔
خلا سے اس پار حاکم، قادرِمطلق ایک شہنشاہ ہے۔ بیٹھے بیٹھے اسے خیال آیا کہ کوئی ایسا نظام قائم کیا جائے کہ لوگ مجھے پہچانیں۔ خیال کا آنا تھا کہ ارادہ تشکیل پا گیا اور ارادہ “کن” بن کر ایسی تصویر بن گیآجس کا ہر ہرعضو ایک مکمل اور مجسم تصویرہے۔
سکرین ہو تو تصویر ڈسپلے (DISPLAY) نہیں ہوگی۔ اور خلا نہ ہو تو سکرین کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ یہ جو ذرّہ ذرّہ خلا ہے، اس لیئے ہے کہ اس میں کوئی بستا ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ، اللہ نے اپنی شان کونمایاں کرنے کے لیئے ہر ذرّہ کو خلا بنا دیا اور اس میں خود براجمان ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے اور ذرّے کے درمیان ایک پردہ ڈال لیا ہے۔ ہر چیز پردے کے پیچھے اس من موہنی صورت کے دیدار کے لیئے بے قرار ہے۔ اور یہی بے قراری کشش ہے اور یہ کشش ہی تو ہے کہ آدمی اس کو پانے کے لیئے باد شاہتیں چھوڑ دیتا ہے۔ اور یہی وہ کشش ہے جس کو زینہ بنا کر آدمی وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں خد و خال (DIMENSIONS) نہیں ہیں۔ یہ کشش ہستیِ مُطلق سے جس قدر قریب ہوتی ہے اسی قدر بندہ اللہ کی بادشاہی میں رُکن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کی سوچ بھی اپنے بادشاہ کی سوچ بن جاتی ہے۔ بادشاہوں کا با دشاہ اللہ خلا، ٹائم،اسپیس کے تانے بانے سے آزاد ہے۔
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولؐ بادشاہ۔
رسول بادشاہؐ نے اللہ کی بادشاہی میں رکن کی حیثیت سے کشش کے اس قانون کو شب معراج میں پورا کر دیا ہے، یہاں تک کہ خود اللہ تعالےٰ نے فرمایا:۔
“ہم نے اپنے بندے سے راز و نیاز کی جو باتیں کیں،کیں۔ دل نے جو دیکھآجھوٹ نہیں دیکھا۔”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 68 تا 70
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔