مرکزی نقطہ
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6250
انسان ایسی زندگی چاہتا ہے جو فنا سے نا آشنا ہو۔ ایسی صحت چاہتا ہے جو بیماریوں سے متاثر نہ ہو۔ ایسی جوانی چاہتا ہے جو بڑھاپے میں تبدیل نہ ہو۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جوانی بڑھاپے میں تندیل ہو جاتی ہے، صحت اور تندرستی کے اوپر بیماریوں کا غلبہ ہوتا رہتا ہے۔ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے کتنا ہی فرار چاہے کامیاب نہیں ہوتا۔ اس لیئے کہ دنیا میں کوئی چیز بے ثباتی سے خالی نہیں۔ فنا اور تخریب کا عمل ہر وقت جاری و ساری ہے۔
انسان کے اوپر جب بے ثباتی کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ تکلیف کے بارے میں زیادہ حسّاس ہو جاتا ہے۔ تکلیف اور غم کے عالم میں ایسے ایسے احساسات نمودار ہوتے ہیں جن سے انسان غمگین اور پریشان خیال بن جاتا ہے۔ زندگی کی ساری چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے اور شان و شوکت افسردہ ہو کر ٹھٹھر جاتی ہے۔
انسان پیدائش کے بعد بڑھاپے تک مسلسل ایک جنگ لڑتا ہے۔ وہ ہر حال میں فتح یاب ہو کر سرخرو ہونا چاہتا ہے لیکن بالآخر جیت بڑھاپے کی ہوتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ موت بڑھاپے کے اوپر چھآجاتی ہے۔ حیات کی ابتدا کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہو، انتہا لازمی طور پر فنا ہے۔ ہر آن اور ہر لمحہ انسان کو موت کی آنکھ گھورتی رہتی ہے۔
ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ انسان کی خوشی اس میں ہے کہ وہ آزادانہ زندگی گزارے لیکن جب ان لوگوں نے زندگی کی فنائیت پر سوچنا شروع کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ انسان کسی بھی حال میں آزاد نہیں ہے۔ اسی فلسفے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہر مسرت کے بعد کسی آفت کا آنا لازمی ہے۔ ہر سکھ اور چین کے بعد کوئی نہ کوئی فتنہ برپا ہوتا ہے۔ ہر خوشی دراصل ایک غم کا پیش خیمہ ہے اور ہر سکون اضطراب اور بے چینی پر ختم ہوتا ہے۔
ہر خوشی اک وقفۂ تیاریِٔ سامانِ غم
ہر سکون مہلت برائے امتحان و اضطراب
عام مشاہدہ یہ ہے کہ سُکھ ہو یا چین، مصیبت ہو یا پریشانی، لڑکپن ہو یآجوانی، ہر چیز پر موت حاوی ہے۔ غور کیا جائے تو زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات میں انسان سب سے زیادہ مظلوم اور مصیبت زدہ ہے۔ موت جب اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے تو انسانی زندگی کی ساری زندگی جد و جہد بے کارِ محض دکھائی دیتی ہے۔ انسان زندہ رہتا ہے اور زندگی میں اتنے دکھ جھیلتا ہے کہ جب دکھ اور سکھ کے اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں تو ساری زندگی دکھوں کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ آدمی برہنہ پیدا ہوتا ہے اور برہنہ چلآ جاتا ہے۔ اور یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہا ں سے آیا، کیوں آیا اور کہا ں چلا گیا۔ خبرِ متواتر ہمیں بتاتی ہے کہ انسان عدم سے وجود میں آیا اور پھر سدم میں چلا گیا۔ یعنی انسان کی تمام جد و جہد، ہر کوشش، زندہ رہنے کی تگ و دَو سب عدم ہے۔ آدم زاد جانوروں کو کھلا پلا کر موٹا تازہ کرتا ہے اور ذبح کر کے کھآ جاتا ہے۔ جس طرح آدم زاد جانوروں کو کھاتا ہے اسی طرح موت آدم زاد کو کھا لیتی ہے۔
زندگی سے مردانہ وار لڑ کر فتح یاب ہونے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان جد و جہد اور کوشش کی حقیقت سے واقف ہو جائے۔ واقفیت یہ ہے کہ زندگی ایک رو ٹین (ROUTINE) میں گزار دی جائے۔ روٹین یہ ہے کہ ہم سانس لیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم سانس لے رہے ہیں۔ پلک جھپکتی رہتی ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ پلک جھپک رہی ہے۔
حقیقی طرزِ فکر یہ ہے کہ کسی سے توقع نہ رکھی جائے اس لیئے کہ جو بندہ کسی سے توقع نہیں رکھتا وہ نا امید بھی نہیں ہوتا۔ امیدیں توازن کے ساتھ کم سے کم رکھنی چاہئیں۔ اور ایسی ہونی چاہئیں جو پوری آسانی کے ساتھ پوری ہوتی رہیں۔
آسمانی کتابوں کے مطابق سکون حاصل کرنے کا مؤثّر طریقہ یہ ہے کہ انسان غصّہ نہ کرے اور کسی بات پر پیچ و تا ب نہ کھا ئے۔ عملی جد و جہد میں کوتاہی نہ برتے اور نتیجہ کے اوپر نظر نہ رکھے۔ زمین پر بسنے والی نوعیں زندگی کے جن اصولوں پر کاربند ہیں ان کا مطالعہ کرتے عارضی (FICTION) زندگی کی اکائیوں کو یک جا کر لیاجائے تو شہادت فراہم ہوتی ہے:۔
قانون فطرت میں کہیں جھول نہیں ہے۔ ہر چیز وقت کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ وقت جس طرح چابی دیتا ہے شئے حرکت میں آجاتی ہے۔ وقت اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے تو چابی کھلونے میں ختم ہو جاتی ہے۔ کل پُرزے سب ہوتے ہیں لیکن قوت (ENERGY) باقی نہیں رہتی۔ وقت (TIME) قوت کا مظاہرہ ہے، قوت ایک توانائی ہے ایک مرکز ہے اور اسی مرکز کو آسمانی کتابیں قدرت کے نام سے متعارف کراتی ہیں۔ قدرت قائم بالذات ہے، ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے جس نقطہ کے ساتھ پوری کائنات کے افراد بندھے ہوئے ہیں۔ وجود اور عدم وجود دونوں اس میں گم ہیں۔
انسان جب اس مرکزی نقطہ سے اپنا رشتہ تلاش کر لیتا ہے تو دنیا (FICTION) سے اس کی ساری توقعات ختم ہو جاتی ہیں اور جب ایسا ہوجاتا ہے تو مسرّتیں اس کے گرد طواف کرتی ہیں —- اور —– موت کی آنکھ اُسے مامتا کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔ اس کے قریب آنے سے پہلے دستک دیتی ہے اور اجازت کی طلب گار ہوتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 223 تا 226
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔