مذہب اور ہماری نسل
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=211
حضرت عمر ؓ کی خدمت میں جب کہ وہ دربارِ خلافت میں تشریف فرما تھے ایک عورت اپنے بچّے کو لے کر آئی اور اس نے کہا ۔
“امیر المٔومنین! میرا بیٹا گُڑ ذیادہ کھاتا ہے۔ گھر میں گُڑ نہیں ہو توضد کرتا ہے۔ اور مجھے پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔”
امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے چند ساعت غور فرمایا اور کہا “اپنے بیٹے کو ایک ہفتے کے بعد لے کر آنا”۔
خاتون ایک ہفتے کے بعد پھر آئی ۔ حضرت عمرؓ نے بچّے کو مخاطب کر کے فرمایا ۔
“بیٹے گڑ کم کھایا کرو اور ضد نہ کیا کرو۔ تمہا رے اس عمل سے تمہا ری ماں پریشان ہوتی ہے”۔ اور بچّے کی ماں سے کہا ۔ “اس کو لیے جاؤ، اب یہ پر یشان نہیں کرے گا۔”
حاضرینِ مجلس نے عرض کیا۔
“امیرالمومنین! اتنی سی بات کہنے کے لیئے آپ نے اس عورت کو ایک ہفتے تک انتظار کی زحمت دی۔ یہ بات آپ پہلے روز بھی فرما سکتے تھے”۔
حضرت عمرؓ نے ار شاد فرمایا “میں خود زیادہ گڑ کھاتا تھا۔ میں نے گڑ کھانا کم سے کم کر دیا۔ اور ایک ہفتے تک اس ترک پر عمل کر کے اس عادت کو پختہ کر لیا۔ پہلے ہی روز اگرمیں بچّے سے یہ کہتا کہ تم گڑ کم کھایا کرو تو اس کے اوپر میری نصیحت کا اثر نہ ہوتا۔ اب اس کے اوپر اثرہو گا اور وہ عمل کرے گا-
بے یقینی، درماندگی، پر یشانی اور عدم تحفظ کے اس دور میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص اپنے چھوٹوں اور اپنے احباب کو برائی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا تو ہمارے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ نصیحت کا اثر اس لیئے نہیں ہوتا کہ ہم خود بے عمل ہیں۔
ہر طرف یہ شور و غوغا برپا ہے کہ موجودہ نسل اسلام سے دور ہو گئی ہے، اسلاف کی پیروی نہیں کرتی۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ موجودہ نسل کے اسلاف میں ہمارا بھی شمار ہے۔
موجودہ نسل اگر تعلیماتِ رسول مقبولؐ سے دور ہو گئی ہے تو اس میں اس کا قصور کم اور ہمارا ذیادہ ہے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے نا جائز منافع خوری،چور بازاری، اللہ کے بندوں کی حق تلفی ہے مگر جھوٹ ہماری زندگی میں کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ قرآن کی متعین کردہ حدود سے ذیادہ منافع خوری نے ایک سائنس کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ بچّے جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے والدین زبان سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں اور ان کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے تو اُن کے ترقی یافتہ ذہن میں بجز اس کے کوئی بات نہیں آتی کہ مذہب صرف اظہار و بیان کا نام ہے۔ عمل سے اس کا کوئی ربط ضبط نہیں۔
دنیا میں افراتفری کا ایک عالم برپا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی الجھن میں گرفتار ہے۔ ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے۔ عدم تحفظ کے احساس سے حزن و ملال کے سائے گہرے اور دیبز ہو گئے ہیں۔ اخبارات میں آئے دن حادثات اور انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی فلک بوس عمارتوں کے سرنگوں ہونے اور ان کے نیچے بندگانِ خدا کے ہلاک ہونے کی ولدوز اور وحشت اثر خبریں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ ہم آفاتِ ارضی و سماوی کی یلغار کی زد میں ہیں۔ بظاہر ان المناک واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی ہم یہ توجیہہ کرتے ہیں کہ تعمیر کنندگان کی ہوس زر کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے یا زمین کے اندر رد و بدل اس کا سبب ہے۔ یہ باتیں بظاہر کتنی ہی معقول اور وزنی ہوں لیکن اگر ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو فرمان خداوندی کے موجب انسانی معاشرہ میں آباد لوگوں کے جرائم اور خطاکاریاں ارضی و سماوی آفات اور ہلاکتوں کو دعوت دیتی ہیں۔
جب کوئی قوم قانونِ خداوندی سے انحراف و گریز کرتی ہے اور خیر وشر کی تفریق کو نظرانداز کر کے قانون شکنی کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو افراد کے یقین کی قوتوں میں اضمحلال شروع ہو جاتا ہے۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یقین کی قوت بالکل معدوم ہو جا تی ہے اور عقائد میں شک اور وسواس در آتے ہیں۔ اس تشکیک اور بے یقینی کی بنا پر قوم توہمات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ توہماتی قوتوں کے غلبے سے انسان کے اندر طرح طرح کے اندیشے اور وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ حرص و ہوس پر منتج ہوتا ہے۔ یہ حرص و ہوس انسان کو اس مقام پر لے جا تی ہے جہاں بے یقینی اور توہماتی قوتیں مکمل طور پر اس کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی حیات کا محور اللہ تعالیٰ کے بجائے ظاہری اور مادّی وسائل بن جاتے ہیں اور جب کسی قوم کا انحصار دروبَست مادّی وسائل پر ہو جاتا ہے تو آفاتِ اَرضی و سماوی کا لامتناہی سلسلہ عمل میں آنے لگتا ہے اور بالآخر قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شک اور بے یقینی کو دماغ میں جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں۔ یہ وہی شک اور وسوسہ ہے جس سے آدمؑ کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ بالآخر شیطان نے بہکا کر آدم ؑکو شک اور بے یقینی میں گرفتارِ بلا کر دیا جس کے سبب آدمؑ کو جنت کی نعمتوں سے محروم ہونا پڑا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 7 تا 10
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔