ماورائی ذہن
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18753
دوسرا جسم محتاج نہیں ہے آزاد ہے دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، فہم و ادراک بھی رکھتا ہے۔ جس طرح مادی جسم زمین کو دیکھتا ہے اسی طرح مادے سے آزاد یہ جسم بھی زمین کو دیکھتا ہے لیکن اس کے دیکھنے کی طرزیں میٹریل سسٹم سے الگ ہیں۔
دوسرا جسم (لاشعور) جب زمین کو دیکھتا ہے تو زمین پپیتے کی طرح نظر آتی ہے، گیند کی طرح نظر نہیں آتی، باطنی جسم دیکھتا ہے کہ زمین کے اندر گیس کا ذخیرہ تو ہے لیکن زمین کے اوپر ٹھوس آبادی نہیں ہے۔ زمین ایک اسکرین ہے اور اسکرین پر فلم چل رہی ہے کوئی ایک آدمی بھی اصلی نہیں ہے۔ ہر آدمی اور ہر شئے فلم کا ’’عکس‘‘ ہے، پروجیکٹر کہیں اور ہے جس کی عکس ریزی زمینی اسکرین پر نشر ہو رہی ہے جس طرح پروجیکٹر سے روشنی نہ آنے سے فلم کے کردار اسکرین پر نہیں آتے اسی طرح اصل پروجیکٹر سے جب سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو فلم کے مناظر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
لاشعور دیکھتا ہے کہ پپیتے کی طرح زمین پر گول کڑوں کی طرح پہاڑ ہیں، پہاڑوں کے گول چھلوں نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، زمین مسلسل محوری اور طولانی گردش میں ہے اس گردش کو پہاڑ کے گول کڑے کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ میخوں کی طرح زمین پر گڑے ہوتے ہیں۔
’’بھلا کیا نگاہ کرتے اونٹوں کی تخلیق پر اور آسمان پر کیسا بلند کیا ہے اور پہاڑوں پر کیسے کھڑے کئے ہیں اور زمین پر کیسی صاف بچھائی۔‘‘
(سورۃ الغاشیہ: ۱۸۔۲۰)
فلم کے ہر کردار میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زندگی بن رہی ہے، زندگی ٹوٹ بھی رہی ہے، بکھر بھی رہی ہے اور بن بھی رہی ہے، زندگی بننے، بکھرنے اور ٹوٹنے کے عمل میں چھ شعور کام کرتے ہیں۔ ان میں ایک شعور بالکل غیر مستحکم ہے، باقی شعور اس ایک سے زیادہ مستحکم ہیں۔ ہر شئے چاہے وہ ریت کا ذرہ ہی کیوں نہ ہو، شعور رکھتی ہے اور شعور کی گرفت ٹوٹنے سے ختم ہو جاتی ہے، زندگی مقداروں سے مرکب ہے اور مقداروں کا نظام ایک مکمل اور فعال نظام ہے۔ یہ نظام براہ راست قدرت کے ساتھ وابستہ ہے جب قدرت ناراض ہو جاتی ہے تو نظام ٹوٹ جاتا ہے، نظام توڑنے کے لئے قدرت کیا طریقہ اختیار کرتی ہے یہ اس کا اپنا انتخاب ہے، زلزلے کے ذریعے، آندھی کے ذریعے، پانی کے طوفان کے ذریعے یا چنگھاڑ کے ذریعے۔
دو حروف سے مرکب ایک لفظ اللہ نے بولا عدم میں موجود کائنات نے سنا اور پوری تخلیقات کا ظہور ہو گیا۔ یہ دو حروف ’’ک‘‘ ’’ن‘‘ ہیں، جن کا مرکب لفظ ’’کن‘‘ بن گیا۔ کن کا مطلب ہے ’’ہو جا‘‘ یعنی ’’کن‘‘ حکم ہے اور حکم کی تعمیل ہے ’’فیکون‘‘۔
کائنات کی ہر مخلوق اللہ کے ذہن میں موجود تھی۔ مخلوقات نے جب آواز سنی تو اس میں حرکت پیدا ہو گئی یعنی اس کے اندر توانائی دوڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام ہیں اور ہر نام مکمل تخلیقی صفات کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’’علیم‘‘ ہے اور اللہ تعالیٰ علیم ہونے کی حیثیت سے کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی کائنات کی تخلیقی فارمولوں کا علم جانتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ کائنات مظاہراتی صورت میں نظر کے سامنے آ جائے اور کائنات کے اندر بسنے والی مخلوق خود اپنے وجود سے واقف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ فرمایا اور کائنات علم کے پردے سے باہر آ گئے۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کے ارادے نے حرکت کی وسائل بھی بن گئے، کائنات کی تخلیق کا پہلا مرحلہ ’’نور‘‘ ہے۔ اللہ نور السموٰ ت والارض۔ ’’اللہ سماوات اور ارض کا نور ہے۔‘‘ پہلے مرحلے میں اللہ کے نور سے روحیں وجود میں آئیں مگر روحوں کو اپنے وجود کا احساس نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کیا اور انہیں اپنی آواز سنائی۔ ’’الست بربکم‘‘(کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ روحوں نے جواب دیا۔’’جی ہاں‘‘ پہلی آواز سے روحیں عدم سے وجود میں آئیں، دوسری آواز سے ارواح میں تین نمایاں حواس منتقل ہو گئے۔
یہ تینوں حواس مرکزیت کا سمبل ہیں، کان متوجہ ہوتے ہیں تو آدمی سنتا ہے، نگاہ متوجہ ہوتی ہے تو آدمی دیکھتا ہے، دماغ مخاطب کے کلام کی معنویت پر توجہ دیتا ہے تو آدمی جواب دیتا ہے، آواز سے کائنات میں روحوں کی مرکزیت اللہ بن گئی، ازل میں جب روحوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی تو مخلوق کے اندر سننے کے حواس متحرک ہو گئے، آواز دینے والی ہستی کی طرف روحیں متوجہ ہوئیں تو نظر متحرک ہوئی، دیکھنے کے بعد اپنا اور اللہ کا ادراک ہوا، ادراک کے بعد جب اقرار کیا تو کلام کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 121 تا 123
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔