مائیکرو فلم
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6198
نظام شمسی کی طرح نظام انسانی کا بھی مرکز و محور ہے۔ عالم انسانیت کے نظام اور مرکز کے انکشاف کے لیئے ضروری ہے کہ ہم اس قانون سے واقف ہوں جس کی بنیاد پر اس نظام کا ہر متحرک سیارہ اپنے مرکز کے گِرد گھومتا ہے۔
نظام انسانیت میں بھی بے شمار سیارے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہیں اور انسانوں اور آبادیوں کے ہجوم ان مراکز کے گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ عمل صرف زمین والوں پر موقوف نہیں ۔ آسمانوں میں بھی صرف ان ہی ناموں کی پکار ہوتی ہے جو اپنے مرکز سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔
رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے:
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیلؑ سے فرماتا ہے میں فلاں بندے کو دوست رکھتا ہوں، تم بھی اس کو دوست رکھو پس جبرئیلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ جبرئیلؑ آسمان والوں میں اس کی منادی کر دیتا ہے تو تمام آسمان والے بھی اس کو چاہنے لگتے ہیں اور اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔ پھر جب آسمان پر اس کی محبویت کا اعلان ہو جاتا ہے تو زمین والوں کے دل بھی اس کی محبت کے لیئے کھل جاتے ہیں اوراس کو ہرطرف مقبولیت اور محبویت حاصل ہو جاتی ہے۔
عالم انسانی کے یہ قدسی نفس حضرات ہیں جو اپنے اندر کام کرنے والے کہکشانی نظام سے باخبر ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی بندوہ اپنے INNER سے واقف ہو جاتا ہے اور آنکھوں کے سامنے سے TIME & SPACE کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ سب کچھ اس کے اندر ہے۔ ذاتِ انسانی کے اندر ایک نقطہ ہے۔ اور یہ نقطہ کائنات کی مائیکرو فلم ہے۔ اس نقطہ کو جب پھیلنے اور نشر ہونے کا موقع دیا جاتا ہے تو ساری کائنات دماغ کی سکرین پر فلم بن کر متحرک ہوجاتی ہے۔
اس نقطہ کی ایک بھرپور اور دلکش مثال برگد کے درخت کے بیج سے دی جا سکتی ہے۔ برگد کا بیج جوخشخاش کے دانے سے چھوٹا ہوتا ہے جب زمین کی کوکھ ایک خاص پروسیس کے تحت اس کو حرارت پہنچاتی ہے تو بیج کے اوپر کا پرت اتر جاتا ہے اور اندر سے برگد کا درخت نمودار ہو جاتا ہے۔ پھر اس درخت کی جسامت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کےنیچے باراتیں تک ٹھہر جاتی ہیں اور اس کی وسعت پھر بھی برقرار رہتی ہے۔ جب خشخاش سےچھوٹے دانے میں ایک برگد کا درخت چھپا ہوا ہے تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے اند رکیا کچھ نہیں چھپا ہو گا۔
فیضان قدرت عام ہے۔ جو کچھ چاہآ جاتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔ قدرت انسان کی راہ نما ئی میں ہر لمحہ اور ہر آن مصروف عمل ہے۔ جن ہم ایٹم تلاش کرسکتے ہیں، آواز کی لہروں کو پوری دنیا میں منتشر کر سکتے ہیں، مائیکرو فلم کی تخلیق کر سکتے ہیں تو اپنے اندر اس نقطہ سے بھی وقوف حاصل کر سکتے ہیں جس کے اندر برگد کے بیج کی طرح پوری کائنات ریکارڈ ہے۔
اللہ کے جو بندے آگاہی کے اس نا پیدا کنار سمندر میں اتر جاتے ہیں، ان کے اوپر سے ٹائم اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور زمان سے پیدا شدہ تمام عوامل رنج و غم، پریشانی و اضمحلال، فکر و تردد سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں۔ جب کوئی بندہ اس دائرہ کار میں منتقل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کی بارش ہونے لگتی ہے اور ساری کائنات اس کے گرد گھومتی ہے
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 37 تا 39
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔