لہریں
مکمل کتاب : آوازِ دوست
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6217
ایک سادھو، خواجہ غریب نوازؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سادھو گیان دھیان سے اس مقام پر پہنچ گیا تھآجہاں گوشت پوست کآجسم مٹی نظر آتا ہے، ایسی مٹی جس میں خمیر تعفن بن جاتا ہے۔ اور جب انسانی نظر میں گوشت پوست مٹی کے ذرّات میں تحلیل ہونے لگتا ہے تو اُسے آدمی کے اوپر ایک اور آدمی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ یہ آدمی ایسا نظر آتا ہے جیسے ٹیلی ویژن کی اسکرین (SCREEN) پر متحرّک تصویر۔ یہی وہ آدمی ہے جسے سائنس AURA کہتی ہے۔
AURA کیا ہے؟
ہم جب کپڑے کی ساخت کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کپڑا دھاگے کے تانے با نے سے تیار ہوتا ہے۔ اس تانے بانے سے بنے ہوئے کپڑے کے اوپر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں، ایسے نقش و نگار جو کپڑے کے ساتھ یکجان ہو جاتے ہیں۔ جب روشنیوں کے تانے بانے پر انسانی نقش و نگار بُن دئیے جاتے ہیں تو اس کا نا م AURA ہے کیوں کہ روشنی کے اوپر وقت کی گرفت نہیں ہوتی اس لیئے وہ زمان و مکان کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ زمان و مکان سے آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی نظر آسمانی وسعتوں کو چھو لیتی ہے۔ پھر نظر کی گہرائی اتنی ہو جاتی ہے کہ آدمی وہ جو کچھ دیکھنے لگتا ہے جو گوشت پوست کی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔
مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر ہر شخص اپنی اصل یعنی AURA سے وقوف حاصل کر سکتا ہے۔ AURA کوئی ایسی ماورائی چیز نہیں ہے جو شعور کے دائرے میں نہ آئے۔ روشنیوں کے جن تاروں سے AURA بنا ہوا ہے ان تاروں کے اندر دوڑنے والی ELECTRICTY سے ہر شخص اختیاری اور غیر اختیاری طور پر متعارف ہے اور اس ELECTRICTYکے فنکشن (FUNCTION) سے ہر آدمی متا ثر ہوتا رہتا ہے۔ کچھ عرصے دور رہنے کے بعد اپنے لختِ جگر کو سینے سے لگاتا ہے تو سینے کے اندر غیر مرئی لہریں منتقل ہوتی ہیں۔ اور یہ لہریں (WAVES) تار برقی نظام کے تحت روشنی کے تانے بانے کو اپنی گزرگاہ بناتی ہوئی جب دماغ میں پہنچتی ہیں تو ایک سروُر کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ دو دل جب ایک دوسرے میں جذب ہونا چاہتے ہیں اور جذب ہونے میں خاندانی رسم و رواج، اخلاقی اور معاشرتی قدریں دیوار بنتی ہیں تو ایک فرد جب دوسرے فرد کو ہاتھ لگاتا ہے تو اس کو کرنٹ لگتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق میاں بیوی جب ہم لباس ہوتے ہیں تو جسم کی روئیں روئیں سے لہریں نکلتی ہیں اور یہ لہریں ایک نئی تخلیق کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔
آدمی جب اپنے AURA (ELECTRICITY) سے وقوف حاصل کر لیتا ہے تو اس کی رفتار بجلی کی رفتار کے برابر ہو جاتی ہے۔ اور کوئی بندہ اس رفتار سے نہ صرف یہ کہ محوِ پرواز ہو جاتا ہے بلکہ ہزوں لاکھوں سال پہلے یا بعد کی باتیں اس کے سامنے آجاتی ہیں۔
سادھو نے خواجہ غریب نوازؒ کی طر ف گہری نظر ڈالی اور اس کی نیم وا آنکھیں ان پر جم گئیں ان پر جم گئیں- وہ برملا پکار اٹھا۔
پربھو، دھن دھن قدرت تیری !
جے جے ایشور کی کرپا ہے۔
“اے خواجہ ! تیری آتما روشن ہے لیکن دل میں ایک سیاہ دھبہ ہے۔”
حضرت خواجہ غریب نواز نے سادھوکی بات سن کر فرمایا ۔”تو سچ کہتا ہے” سادھو یہ سن کر حیرت کے دریا میں ڈوب گیا اور کہا ۔ “چا ند کی طرح روشن آتما پر یہ دھبّہ اچھا نہیں لگتا۔ کیا میری شکتی سے یہ دھبہ دور ہو سکتا ہے؟”
خواجہ غریب نوار نے جواباً کہا ۔ “ہاں تو چاہے تو یہ سیا ہی دھُل سکتی ہے۔” سادھو کے اوپر اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی ۔ نم آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے اس نے کہا “میری زندگی آپ کی نذرہے۔”
خواجہ صاحبؒ نے کہا اگر تو اللہ کے رسول محمد رسول ﷺ پر ایمان لے آئے تو یہ دھبہ ختم ہو جائے گا۔”
سادھو کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی لیکن چوں کہ وہ اپنے اندر مٹی کی کثافت دھو چکا تھا، اس لیئے وہ اللہ کے دوست محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آیا۔
خواجہ صاحبؒ نے فرمایا ۔”آتما کی آنکھ سے دوبارہ دیکھ ۔”
سادھو نے دیکھا تو روشن روشن دل سیاہ دھبّے سے پاک تھا۔ سادھو نے خواجہ غریب نوازؒ کے آگے ہاتھ جوڑ کر ِبنتی کی۔
“ا س انہونی بات پر سے پردہ اٹھائیے ورنہ میرا دَم گُھٹ جائے گا۔”
خواجہ صاحبؒ نے کہا ۔ “سُن، وہ روشن آدمی جس کے دل پر تو نے سیاہ دھبّہ دیکھا تھا تو خود تھا لیکن اتنی شکتی کے بعد بھی تجھے رُوحانی علم حاصل نہیں ہوا۔”
رُوحانی علم یہ ہے کہ آدمی کا دل آئینہ ہوتا ہے اور ہر دوسرے آدمی کے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آتا ہے۔ تو نے اپنی روشن آتما میرے اندر دیکھی تو تجھے اپنا عکس نظر آیا۔ تیرا ایمان توحید پر نہیں تھا، اس لیئے تیرے دل پرسیاہ دھبّہ تھا اور جب تو نے کلمہ پڑھ لیا، وہ سیاہ دھبہ دھُل گیا اور تجھے میرے آئینے میں اپنا عکس روشن اور منور نظر آیا۔”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 110 تا 113
آوازِ دوست کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔