قسمت کا ستارہ
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17873
جنت میں ایک دریا ہے جو مشرق کو مغرب سے ملاتا ہے یہ اللہ کے عجائبات میں سے ہے۔ اس میں جو پیالا ڈالے گا اور دل میں جس مشروب کی خواہش کرے گا پیالا اسی مشروب سے بھر جائے گا۔ فردوسِ بریں میں ایک درخت ہے۔ یہ نہایت ہی پُر فضا مقام پر ہے یہ درخت بھی اللہ کے عجائبات میں سے ہے، اس میں جنت کا ہر پھول نہایت ہی خوبصورت ترتیب سے اُگا ہوا ہے اور بہت ہی بڑا درخت ہے۔ اس پر چڑیاں گانے گاتی ہیں ، اللہ کی رحمت کے خزانے تمام خزانوں سے بڑھ کر ہیں، جنت تو ان کے مقابلےمیں صرف ابتدائی چیز ہے۔ جب انسان کوئی خاص نیکی کرتا ہے جو اللہ کو بہت پسند آئے تو اللہ پاک جنت کے علاوہ اپنی رحمت کے خزانوں سے اسے اور انعامات عنایت کرتےہیں۔
ہر انسان کی قسمت کا ایک ستارہ آسمان پر ہے۔ جب انسان نیک اعمال کر کے اپنی قسمت سنوارتا ہے تو مرنے کے بعد قبر میں ہی ایک فرشتہ آ کر اس کی ہتھیلی میں نہایت ہی روشن ستارہ رکھ دیتا ہے جسے قبر کا اندھیرا دور ہو کر اجھالا پھیل جاتا ہے اور آسمانوں تک کا راستہ بھی روشن ہو جاتا ہے اور فرشتے دور سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ جنتی آدمی ہے۔ جب انسان زندگی میں صبر کرتا ہے تو مرنے کے بعد اس کو قبر میں جنت کےدروازے کی کنجی دی جاتی ہے۔ یہ دروازہ سب سے زیادہ خوبصورت اور اس کا راستہ سب سے زیادہ حسین اور اسی راستے سے اس کو جنت میں لایا جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں اللہ کی رحمت ہی سےملتی ہیں اور اللہ کی رحمت کے انعام کے طور پر دی جاتی ہیں۔ جو شخص اللہ کے علم کا متلاشی رہتا ہے اور اپنی زندگی میں خدا کی ہستی پر غوروفکر کرتا ہے مرنے کے بعد اللہ اُس کو اپنی رحمت سے ایک موتی دیتا ہے یہ نہایت ہی روشن اور خوبصورت موتی ہےاس کا ہار اس کے گلے میں پہنایا جاتا ہے یہ ہار پہن کر وہ کائنات کےکسی بھی حصےمیں جانا چاہے جا سکتا ہے اور سمندر کی گہرائیوں میں بھی جھانک سکتا ہے۔ آسمان پر ایک سمندر ہے، یہ سمندر بہت ہی خوبصورت ہے اور اس کی گہرائیوں میں ایسی ایسی چیزیں ہیں جو انسانی عقل سےبعید ہیں اور جب انسان کو موتی کا یہ ہار پہنایا جائے گا تب ہی وہاں جا سکے گا اور اس کی گہرائیوں میں سانس لے سکے گا۔
جب اللہ کو کسی شخص کی محنت پسند آتی ہے تو وہ آخرت میں اپنی رحمت کے خزانے سے اس کو ایک کنجی عنایت کرتا ہے یہ کنجی ایک کنویں کی ہے جب وہ شخص اس کنویں کےدروازے پر جائے گا تو یوں سوچے گا کہ چھوٹا سا کنواں ہے بھلا اس میں کیا ہو سکتا ہے مگر دروازہ کھولتے ہی اس کی آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی وہ بار بار اپنی آنکھیں ملے گا یہاں انسانی عقل سے بعید چیزیں اس کو ملیں گی۔ آسمانوں میں رحمت کے خزانوں میں ایک پرندہ ہے یہ ایک حسین درخت پر بیٹھا ہے یہ جنت کے تمام پرندوں سے افضل ہےجو شخص دنیا کے لہو ولہب سے بچا رہتا ہے اس کو اللہ اس جگہ کی سیر کراتے ہیں، یہ بہت حسین مقام ہے اور یہ مقام جنت سے الگ ہے۔ یہ پرندہ ہروقت راگ سناتا ہے اور ہر راگ کی تان ، آواز سب کچھ مختلف ہوتی ہے۔ اس نے آج تک کوئی راگ دوسری مرتبہ نہیں گایا اس کی آواز ایسی ہو گی کہ انسان مست ہو جائے گا۔
اللہ کی رحمت کاایک درخت ہے یہ بہت ہی حسین مقام پر ہے یہ بھی اللہ کے عجائبات میں سے ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس درخت میں ہمیشہ نیا پھل لگتا ہےاور ہر پھل دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور بیک وقت اس درخت میں کروڑ ہا پھل لگتےہیں مگر سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، شکلوں میں اور ذائقےمیں بھی۔ اللہ جس کو چاہے گا اپنی رحمت کے خزانے سے اس مقام کی چابی اس کو عنایت کرے گا اور یہاں کے پھل چکھنے کی اجازت دے گا۔
رحمت کے خزانوں میں ایک بہت بڑا پہاڑ ہے اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک محل ہے یہ بھی اللہ کے عجائبات میں سے ہے۔ جب انسان ہمت سے کام لیتا ہے اور اللہ اسے پسند کرتا ہے تو مرنے کے بعد اس کو ایک چھڑی دی جاتی ہے اس چھڑی کی مدد سے وہ عظیم پہاڑ پر چڑھتا ہےاور محل میں داخل ہوتا ہے ، یہ محل بہت ہی بڑا ہے اور اللہ کی کاریگری کا نمونہ ہے ، انسانی عقل اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 136 تا 139
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔