قرآن كريم ميں حضرت آدمؑ کا نام
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13636
قرآن پاک میں حضرت آدم ؑ کا نام پچیس آیات میں ۲۵ مرتبہ لیا گیا ہے۔ سورتوں اور آیات میں اگرچہ اسلوب بیان مختلف نظر آتا ہے لیکن مقصد اور واقعہ کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایک ہی حقیقت ہے جو بیان کی گئی ہے۔ ان سب کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ اللہ کی ذات پر ایمان لائیں اور یہ جان لیں کہ اللہ ایک ناقابل انکار ہستی ہے اور ساری کائنات اسی کے احاطۂ قدرت میں متحرک ہے۔ یہی وہ ایقان ہے جو دین حنیف ہے اور اسی مذہب کے احکام کی پیروی میں فلاح و نجات اور ہر قسم کی ترقی چھپی ہوئی ہے۔ یہی وہ مذہب ہے جس کا نام دین فطرت یا اسلام ہے۔
قرآن پاک میں جن آیات مقدسہ میں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
’’اور پھر(دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کے سامنے سربسجود ہو جاؤ، وہ جھک گئے مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی۔ اس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا۔ پھر(ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا ۔ اے آدم!
تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو، جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن و چین کی زندگی بسر کرو مگر دیکھو وہ جو ایک درخت ہے۔ تو کبھی اس کے پاس نہ پھٹکنا۔ اگر تم اس کے قریب گئےتو (نتیجہ یہ نکلے گا کہ) حد سے تجاوز کر بیٹھو گے اور ان لوگوں میں سے ہو جاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۳۲۔۳۳)
’’اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکل و صورت بنا دی پھر فرشتوں کو حکم دیا’آدم کے آگے جھک جاؤ‘ اس پر سب جھک گئے مگر ابلیس جھکنے والوں میں سے نہ تھا۔‘‘
(سورۃ اعراف: ۱)
’’اور بلا شبہ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا، جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے اور ہم ’’جن‘‘ کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کر چکے تھے۔ اور جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا۔ میں خمیر اٹھے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے، ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب ایسا ہو کہ میں اسے درست کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو چاہئے کہ تم سب اس کے آگے سر بسجود ہو جاؤ۔ چنانچہ جتنے فرشتے تھے سب اس کے آگے سربسجود ہو گئے۔ مگر ایک ابلیس کہ اس نے انکار کیا کہ سجدہ کرنے والوں میں سے ہو۔‘‘
(سورۃ حجر: ۲۶۔۳۱)
’’اور جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا، آدم کے آگے جھک جاؤ۔ اور سب جھک گئے تھے۔ مگر ابلیس نہیں جھکا تھا۔ وہ جن میں سے تھا۔ پس اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہو گیا۔ پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی نسل کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظلم کرنے والوں کے لئے کیا ہی بری تبدیلی ہوئی۔‘‘
(سورۃ کہف: ۵۰)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا! میں مٹی سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں بس جب میں اس کو بنا سنوار لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب فرشتے اس کے لئے سربسجود ہو جاؤ۔ پس سب ہی نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔‘‘
(سورۃ اعراف: ۱۲)
’’کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جبکہ میں نے حکم دیا تھا؟ کہا اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اسے مٹی سے۔ فرمایا!( جنت سے) نکل جا۔ تیری یہ ہستی نہیں کہ یہاں رہ کر سرکشی کرے۔ یہاں سے نکل دور ہو۔ یقیناً تو ان میں سے ہوا جو ذلیل و خوار ہیں۔ ابلیس نے کہا، مجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دے جب لوگ(مرنے کے بعد اٹھائے جائیں گے)۔ تجھے مہلت ہے ، اس پر ابلیس نے کہا چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کر دی تو اب میں بھی ایسا ضرور کروں گاتیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کیلئے بنی آدم کی تاک میں بیٹھوں، پھر سامنے سے پیچھے سے، داہنے سے، بائیں سے (غرض یہ کہ ہر طرف سے) ان پر آؤں اور تو ان میں سے اکثروں کو شکر گزار نہ پائے گا۔ اللہ نے فرمایا! یہاں سے نکل جا۔ ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ بنی آدم میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو(وہ)تیرا ساتھی ہو گا اور میں البتہ ایسا کروں گا کہ (پاداش عمل) میں تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔‘‘
(سورۃ اعراف: ۱۲۔۱۸)
’’اللہ نے فرمایا! اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ کہا مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا ہے۔ جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے۔ حکم ہوا! اگر ایسا ہے تو یہاں سے نکل جا کہ تو راندہ ہوا اور جزا کے دن تک تجھ پر لعنت ہوئی۔ اس نے کہا! خدایا مجھے اس دن تک مہلت دے جب انسان (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا! اس مقررہ وقت کے دن تک تجھے مہلت دی گئی۔ اس نے کہا! خدایا چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کر دی تو اب میں ضرور ایسا کروں گا کہ زمین میں ان کے لئے جھوٹی خوشنمائیاں بنا دوں اور گمراہ کر دوں، ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہونگے (میں جانتا ہوں) میرے بہکانے میں آنے والے نہیں۔ فرمایا! بس یہی سیدھی راہ ہے جو مجھ تک پہنچانے والی ہے جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں چلے گا۔ صرف انہی پر چلے گا جو راہ سے بھٹک گئے اور ان سب کے لئے جہنم کے عذاب کا وعدہ ہے۔‘‘
(سورۃ حجر: ۳۲۔۴۳)
’’اور جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا” آدم کے آگے جھک جاؤ” اس پر سب جھک گئے مگر ایک ابلیس نہیں جھکا۔ اس نے کہا! کیا میں ایسی ہستی کے آگے جھکوں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟ نیز اس نے کہا! کیا تیرا یہی فیصلہ ہوا کہ تو نے اس کو مجھ پر بڑائی دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیدے تو میں ضرور اس کی نسل کی بیخ بنیاد اکھاڑ کے رہوں۔ تھوڑے آدمی اس ہلاکت سے بچیں اور کوئی نہ بچے۔ اللہ نے فرمایا! جا اپنی راہ لے جو کوئی بھی ان میں سے تیرے پیچھے چلے گا تو اس کے لئے اور تیرے لئے جہنم کی سزا ہو گی پوری پوری سزا ان میں سے جس کسی کو تو اپنی صدائیں سنا کر بہکا سکتا ہے بہکانے کی کوشش کر لے۔ اپنے لشکر کے سواروں اور پیادوں سے حملہ کر، ان کے مال اور اولاد میں شریک ہو جا۔ ان سے وعدے کر اور شیطان کے وعدے اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ سرا سر دھوکا۔ جو میرے بندے ہیں ان پر قابو پانے والا نہیں۔ تیرا پروردگار کارسازی کے لئے بس کرتا ہے۔‘‘
(سورۃ اسراء : ۶۱۔۶۵)
’’اور جب ایسا ہوا تھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا۔ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا! کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی حالانکہ ہم تیری حمد و ثناء کرتے ہوئے تیری پاکی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا! میری نظر جس حقیقت پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ : ۳۰)
’’اور آدم نے تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کر لئے تو فرشتوں کے سامنے وہ پیش کر دیئے اور فرمایا! اگر تم درستی پر ہو تو بتلاؤ ان کے نام کیا ہیں؟ فرشتوں نے عرض کیا، خدایا ساری پاکیاں اور بڑائیاں تیرے ہی لئے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھلا دیا ہے۔ علم تیرا علم ہے اور حکمت تیری حکمت۔ جب فرشتوں نے اس طرح اپنے عجز کا اعتراف کر لیا تو حکم الٰہی ہوا”اے آدم! تم فرشتوں کو ان (حقائق) کے نام بتلا دو۔ جب آدم نے بتلا دیئے تو اللہ نے فرمایا! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان اور زمین کے تمام غیب مجھ پر روشن ہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میرے علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو وہ بھی مجھ سے مخفی نہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۲۱۔۲۳)
’’پھر ہم نے آدم سے کہا، اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو۔ جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسر کرو مگر دیکھو وہ جو درخت ہے تو کبھی اس کے پاس نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے پاس گئے تو حد سے تجاوز کر بیٹھو گے اور ان لوگوں میں سے ہو جاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں۔ شیطان کی وسوسہ اندازہ نے ان دونوں کے قدم ڈگمگا دیئے اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسی کچھ راحت و سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے اس سے نکلنا پڑا، خدا کا حکم ہوا کہ یہاں سے نکل جاؤ تم میں سے ہر وجود دوسرے کا دشمن ہے۔ اب تمہیں زمین میں رہنا ہے اور ایک خاص وقت تک کے لئےاس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ پھر ایسا ہوا کہ آدم نے اپنے پروردگار کے القاء سے چند کلمات معلوم کر لئے پس اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی اور بلاشبہ وہی درگزر کرنے والا ہے اور اس کی درگزر کی کوئی انتہا نہیں۔ آدم کی توبہ قبول ہو گئی لیکن جس زندگی سے وہ نکل چکا تھا وہ دوبارہ نہیں مل سکتی تھی، پس ہمارا حکم ہوا اب تم یہاں سے نکل جاؤ۔ اور جس نئی زندگی کا دروازہ تم پر کھولا جا رہا ہے اسے اختیار کر لو۔ لیکن جب کبھی ایسا ہو گا کہ ہماری جانب سے تم پر راہ کھولی جائے گی تو تمہارے لئے دو ہی راہیں ہونگی۔ جو کوئی ہدایت کی پیروی کرے گا اس کے لئے کسی طرح کا کھٹکا نہیں، کسی طرح کی غمگینی نہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۳۵۔۳۸)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 37
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔