فرشتو ں کا جسم
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17721
شام کے تقریبا ساڑھے پانچ بجے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اچانک گرجا کے سامنے آسمان کی بلندیوں سے ایک مینار نیچے آرہا تھا۔ اس مینار پر عربی رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے ایک ساتھی سے کہا کہ دیکھو کتنا خوبصورت مینار ہے۔ اس نے میری بات کی تائید کی اور چھلاوےکی طرح غائب ہو گیا اور میں مینار کو ہی دیکھتا رہا۔ یہ مینار نیچے آتے آتے ایک مسجد کی چھت پر قائم ہو گیا۔ پھر یہی مینار میرے اوپر جھکا۔ جب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونے کی کوشش کی تو یہ اوپر اُٹھ گیا۔ جب ہاتھ نیچے کر لیا تو پھر میرے اوپر جُھک گیا۔ دل میں خیال آیا کہ یہ آسمانی مینار ہے، بغیر وضو کے نہیں چھونا چاہیئے۔ جیسے ہی وضو کرنے کا خیال آیا، فورا سامنے پانی کا نل آ موجود ہوا۔ میں نے اس نل سے وضو کیا۔ میرے ساتھ اور بھی لوگوں نے وضو کیا۔
یکایک زبردست تیز آندھی آگئی اور مجھے اُڑا کر لے گئی۔ خریت سے ایک مقام پر اتر گیا۔ سامنے بہت خوبصورت مسجد ہے۔ ایک دم یہ خیال آیا کہ یہ مسجد نبوی ہے۔ خدا کے حضور شکرانہ ادا کیا۔ اللہ پاک نے اس گناہ گار کو یہ موقع عطا فرمایا۔ زرا آگے بڑھا تو بند دروازہ نظر آیا۔ دروازہ کھولا اور اندر گیا تو وہاں ایک شخص بیٹھا ملا۔ اس مرد خدا نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مطہرّہ کی طرف اشارہ کیا۔ میں انتہائی بے قراری کے عالم میں والہانہ انداز سے آگے بڑھا۔ روضہ اقدس کی جالیوں کو ہاتھوں سے چھوا اور آنکھوں سے بوسہ دیا۔ اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہوں کہ اللہ تعالٰے نے دیار حبیب ﷺ میں اس وقت بھیجا ہے جب یہاں ایک آدمی بھی نہیں ہے میں تنہا ہوں۔ جس طرح چاہوں اپنے آقاﷺ کے حضور سجدہ غلامی پیش کر سکتا ہوں۔ کیف و مستی سے سرشار، آقائے دو جہاں کی قربت سے آشنا، حضورﷺ کے روضہ انور کے دائیں جانب بیٹھ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کائنات کے اندر موجود پورا گداز میرے دل میں منتقل ہو گیا ہے۔ نہ جانے اتنا رونا کہاں سے آگیا کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ آنکھوں کے ذریعے آنسوؤں کی آبشار گر رہی ہے۔ میری آنکھیں پانی ہوگئیں یہ پانی جب چہرہ کو دھوتا ہوا منہ کے قریب سے گزر کر نیچے ٹپکا تو اس کا ذائقہ نمکین تھا۔ اس سارے عرصے میں اللہ تعالٰے سے رو رو کر گڑگڑا کر دعا مانگتا رہا۔ اے اللہ، اے میرے پروردگار؛ میرے اور تمام مخلوق کے خالق، میرے آقا؛ میں آپ کا بندہ ہوں۔ آپ خالق ہیں ، میں آپ کی مخلوق ہوں۔ اپنے حبیبﷺ کے صدقے میں میرے سب گناہ معاف کر دیجئے۔ بہت دیر تک بندہ اپنے خالق کے حضور آنسووں کے نذرانے کے ساتھ عاجزانہ التجا کرتا رہا بارے قرار آیا۔ اٹھا، حضورانور ﷺ کے مزاراقدس کو چوما، ہاتھوں سے چھوا، آنکھوں سے بوسہ دیا۔ مقدس و منوّر اور تجلّیِ الہی سے معمور ان جالیوں سے سر لگا یا تو دل کی آنکھیں وا ہو گئیں۔ نظر آیا کہ مزار اقدس و مطہرّہ پر اللہ تعالےٰ کی تجلیات نچھاور ہو رہی ہیں۔ روضہ مبارک کے چاروں طرف فرشتوں کی صفوں کی صفیں کھڑی حضور کائنات علیہ الصلوۃوالسلام پر درودوسلام بھیج رہی ہیں۔ فرشتوں کے جسموں سے روشنیاں پھوٹ رہی ہیں۔ میں ان روشنیوں کو مرکری لائٹ سے تشبیہ دے سکتا ہوں۔ ایسا منظر تھا کہ چاندنی میں دھلی ہوئی مجسم صورتیں صف ِ ایستادہ ہیں۔ ادب و احترام کا یہ عالم ہے کہ ہر فرشتہ سر جھکائے تقریباً رکوع کی حالت میں ہے۔ جب اللہ کی یہ برگزیدہ مخلوق فرشتے یک زبان ہو کر یَا نَبی سلامُ علیکَ یَا رَسُول سَلام عَلیکَ یَا حَبِیب سَلَامُ علیکَ کہتے تھے تو دل کے تار جھنجھنااٹھتے تھے۔۔ زمین و آسمان اور کائنات سمٹی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ واپس ہونےکا حکم ہوا۔ نماز ادا کی اور حضورﷺ کے روضہ اطہر شبیہ آنکھوں اور دل میں نقش کر کے افتاں و خیزاں واپس ہوا۔
ہم تین دوست ریلوے کراسنگ سے گزر کر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چند قدم چلے تھے کہ زور کی ہوا چلی اور گردوغبار کی ایک دبیز چادر پورے ماحول پر چھا گئی۔ میں نے محسوس کیا اس طرح ہم منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ جتنی بھی کوشش کریں گے، ہوا کا یہ طوفان آگے بڑھنے کی بجائے ہمیں پیچھے ہی دھکیل دے گا۔ میں نے اپن ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا ” اگر منزل تک پہنچنا ہے تو آپ لوگ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں۔ اس وقت طوفان زوروں پر ہے۔ آگے بڑھنا محال ہے۔ اگر آپ حضرات میرا ساتھ دیں تو میں روحانی طاقت سے آگے بڑھنا چاہتا ہوں” مگر میرے ساتھی اس پر رضا مند نہیں ہوئےاور میں تنہا تیز قدموں سے آگے بڑھا۔ ذہن سے یَا حَفیظُ یَا حَفیطُ کا ورد کرتا ہوا دوڑنے کی رفتا اتنی ہوگئی کہ زمین میرے پیروں سے نکل گئی۔ اور میں آسمان میں پرواز کرنے لگا۔ تقریباً تین میل اوپر اٹھنے کے بعد دیکھا کہ میں خلا میں چل رہا ہوں۔ خلا بھِی ہماری زمین کی طرح ایک اسپیس ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 59 تا 62
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔