فرشتوں سے ہم کلامی
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17697
عید کی نماز کے بعد دعا کے وقت یہ خیال آیا کہ اربوں کی تعداد میں تمام عالم اسلام کے مسلمان ہر تہوار اور ہر مبارک دن دعا مانگتے ہیں کہ فلسطین آزاد ہو جائے۔ کشمیر آزا د ہو جائے؛تمام عالم مسلمان حکمراں، مسلمانوں کی عزّت و تکریم ہو، ہر طرف دین کے چراغ روشن ہوں، مسلمانوں کو ازلی سعادت نصیب ہو جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ روحانی لذتوں اور سکون سے آشنا ہوں۔ خوف اور غم سے نجات مل جائے، مسلمانوں کا بول بالا ہو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن دعا ہے کہ قبول ہی نہیں ہوتی۔ چشم حقیقت سے دیکھا جائے تو دعا کا اثر الٹا نظر آتا ہے۔ اتنا عرصہ فلسطین کے لئے دعا مانگی اور نتیجے میں بیت المقدس ہی گنوا بیٹھے۔ ذہن میں یہ بات آئی کہ مراقبہ کر کے دیکھنا چاہئیے کہ آخر اس دعاکا کیا بنتا ہے اور دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
دیکھا کہ عید گاہ میں بہت بڑا مجمع ہے اور وعظ ہو رہا ہے لیکن واعظ جو کچھ کہہ رہا ہے اوپر ہی دل سے کہہ رہا ہے۔ اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں۔ زیادہ تر یہ پہلو نمایاں کہ لوگ خوش ہوں۔ سبحان اللہ، واعظ نے کیا خوب دعا مانگی ہے! یعنی یہ دعا صورت و شکل اور لباس کی طرح مصنوعی ہے۔ اس میں نمائش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔غنودگی کی ایک لہر آئی، پپوٹے بھاری ہو گئے۔ پتلیوں کی حرکت ساکت ہو گئی تو نظر ٹھہر گئی۔ دیکھا کہ فرشتے(ملائکہ عنصری) اس میدان کے چاروں طرف گروہ در گروہ موجود ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔” اے گروہ ملائکہ؛ یہ لوگ اللہ تعالٰی سے دعا مانگ رہے ہیں۔ آپ انکی دعاؤں میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟”
فرشتوں نے کہا۔” یہ سب دھوکہ اور فریب ہے ۔ ہائے افسوس! دعا بھی ایک رسم ہو کر رہ گئی۔ اس مجمع کے بارے میں ہمارا تاثر یہ ہے کہ ایک شخص نے مجمع لگا رکھا ہے اورکسی شعبدے باز کی طرح اپنی تقریر کے اینچ پینچ سے لوگوں کو بہکا رہا ہے۔ اس طرف دیکھنا بھی ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ضائع کرنا ہے”
میں نے پوچھا۔” اتنے بڑے مجمع میں کیا اللہ کا ایک بندہ بھی ایسا نہیں کہ اس کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کرے؟”
فرشتہ بولا” یہاں اللہ کے بندے موجود ہیں لیکن وہ ہماری طرح دعا میں شریک ہی نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالٰے کے قانون سے واقف ہیں
“بے شک اللہ تعالےٰ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی تبدیلی نہیں چاہتی۔ (قرآن)
میں نے فرشتوں سے پوچھا” کم و بیش ۳۲ سال سے دیکھ اور سن رہا ہو کہ تمام مسلمان دعا مانگتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ پورے عالم ِ اسلام میں یہ عمل دہرایا جارہا ہے۔ اس طرح کروڑوں اربوں بلکہ اس سے بھی زیادہ دعائیں کہاں جاتی ہیں؟”
فرشتوں نے مجھ سے سوال کیا” آپ کے ہاں دنیامیں یہ جو چوبیس گھنٹے گانا بجانا غضب، حق تلفی، قتل و غارت گری، تعصب، بد دیانتی، اقربانوازی، خویش پردری، حرص و لالچ، دھوکہ اور فریب دہی کے اعمال ہوتے رہتے ہیں، ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ سب اعمال کہاں جاتے ہیں؟ بلاشبہ دعامیں اگر صدق نہ ہو، گداز نہ ہو۔ ایسا گداز جو وجدان کو حرکت میں لے آئے۔ تو ایسی دعا کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو آ پ کے غیر حقیقی اعمال کا ہوتا ہے۔ اس قسم کی جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ سب بے کار اور بد نصیبی پر محمول کی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کا مسلمان بد نصیبی اور پھٹکار کے شکنجے میں اس طرح جکڑ گیا ہے کہ اب مسلمان کو مسلمان کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔”
میں نے فرشتوں سے کہا” یہ تو صحیح ہے کہ مسلمان بڑی ہی مصیبت اور بد حالی کا شکار ہیں لیکن ہم سیدھے سادے عوام کا کیا قصور، ہمیں کس بات کی سزا مل رہی ہےہم کیا کر سکتےہیں!ایک طرف واعظ اور اس کی مصلحتوں کا پھندا پڑا ہوا ہے اور دوسری طرف سرمایہ دار حضرات نے اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ تڑپتی اور سسکتی ہوئی، چلتی پھرتی لاش کے علاوہ ہماری کوئی حثییت نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اس قوم کے اجزائے ترکیبی ہیں لیکن اجزائے ترکیبی بذات خود تو کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم کس سے شکوہ کریں۔ اللہ تعالےٰ سے دعا مانگتے ہیں تو ہمارا ذہن روٹی کپڑے سے باہر قدم ہی نہیں رکھتا۔ ہمیں مصیبتوں، پریشانیوں اور بیماریوں ہی سے کب فرصت ملتی ہے کہ ہم ذہنی سکون کے ساتھ دعا کرنے کے قابل ہوں۔”
فرشتوں نے اس سوال کو بہت غور سے سنا اور جوابا کہا” یہ ساری دنیا اللہ کی مخلوق ہے اور اس مخلوق کے طفیل یہ دنیا قائم ہے۔ اللہ کی مخلوق سے دنیا میں رونق ہے۔ اللہ کے بندے سے ہی یہ دنیا ارتقائی منازل طے کر رہی ہے”۔
فرشتوں نے مزید کہا” آپ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ قوم نام ہے افراد کا۔ افراد جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن سے دور ہو جاتےہیں تو ان کے اندر احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے اور احساس کمتری صلاحیتوں کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ شیطانی گروہ اللہ کی مخلوق کی اس کمزوری سے ناواقفیت کی بنا پر ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ جس طرح بھی ہو ان کو اس احساس سے نہ نکلنے دیا جائے۔ ہر مذہب کے نام و نہادپیشوا، مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کو اپنا کر اللہ کی مخلوق کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم تمھارےدرمیان مقدس اور برگزیدہ ہیں اور تمہیں اپنی زندگی ہماری بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق بسر کرنی چاہئیے۔ اور یہی زندگی تمھارے لئے راحت اور آرام کی ضمانت ہے۔ اس کے خلاف قدم اُٹھا کر تمہارے اوپر دین اور دنیا کی راحتوں کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اور نعوذ باللہ اللہ کی قربت سے دوری تمھارا مقدر بن جائے گی۔ یہ گروہ جس کے بارے میں اللہ تعالٰے کا ارشاد ہے۔۔۔۔۔
اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے پر خرچ نہیں کر ڈالتے پس ان کے لئے عذابِ الیم کی بشارت ہے۔
اپنے مخصوص رہن سہن اور اپنے بتائے ہوئے قواعد و ضوابط کے ذریعے اللہ کی مخلوق کو اتنا ہراساں کر لیتےہیں کہ ان کا ذہن ماوف ہو جاتا ہے اور دماغ تعطل کا شکار ، یکسوئی اور آزاد ذہنی ان کے لئے ایک نعمت ِ غیر مترقبہ بن جاتی ہے۔ اور یہ احساس کمتری کا وہ درجہ ہے جہاں پوری قوم انسانیت کے دائرے سے نکل کر بھیڑ اور بکریوں کی صف میں شامل ہو جاتی ہے۔
اس آیت کو پھر پڑھیے اور غور کیجئے ۔۔۔
جب تک کوئی قوم خود اپنے اندر تغیر نہیں چاہتی، اللہ تعالٰی اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں فرماتے۔
جب قوم اپنے اندر تبدیلی چاہتی ہے تو ہم گروہ ملائکہ اس قانون کے تحت اس امر پر کاربند رہتے ہیں کہ اس کا ساتھ دیں۔ ہم فرشتے ان کی مرضی اور منشا کے مطابق ان کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے رہ کر شیطانی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں اور جو حشر شیطانی طاقتوں کا ہوتا ہے اس سے آپ کی زمین کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
یہاں مشکل یہ درپیش ہے کہ ایک قلی سے لیکر بڑے سے بڑے کاروباری تک ہر شخص دولت پرستی جیسی بیماری کا شکار ہے۔ عالم اسلام میں یہ بیماری عام ہے۔ مذہب اور اللہ کے احکامات کو مصلحتوں کے تحت قبول کیا جاتا ہے ، دل سے قبول نہیں کیا جاتا ۔ زبان پر اللہ کا تزکرہ ہے لیکن ان کا دل اللہ سے خالی ہے۔ اللہ تعالی کے قانون کے تحت یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اور اس کی پاداش بہت سخت ہے۔ لوگوں کے دلوں میں جب لالچ اور حرص و ہوس بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔
عامتہ المسلمین کہتے یہ ہیں کہ ہم اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں، عمل دیکھوں تو مسلمان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رہن سہن سے آپ سب واقف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس گھر میں قیام فرما تھے وہ ایک کچا کوٹھا یا حجرہ تھا۔ چھت کھجور کے پتوں اور تنے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ گھر میں بستر کی جگہ بوریا اور چمڑے کا تکیہ تھا۔ اس تکیہ میں روئی نہیں تھی ، فوم نہیں تھا ۔ کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ چھت اتنی اونچی تھی کہ ہاتھ چھت تک پہنچ جائے۔ پردہ کے طور پر گھر کے دروازے پر ایک کمبل لٹا رہتا تھا۔ کائنات کے سرتاج، صاحب معجزہ شق القمر ، اسلامی حکومت کے سربراہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیق حیات، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کا اثاثہ ایک بستر اور ایک تکیہ، آٹا اور کجھوریں رکھنے کیلئے ایک یا دو مٹکے ، پانی کا ایک برتن اور پانی پینے کیلئے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نمونہ تھے۔ انصاف کیجئے کیا مسلمانوں کی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملتی ہے!دولت مند ہر آدمی بننا چاہتا ہے لیکن حضرت عثمان غنی رض کوئی بننے کے لئے تیار نہیں۔ آپ ایک طرف زبان سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں ، دوسری طرف آپ کی زندگی کا ہر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے برعکس ہے۔ اور آپ چاہتے یہ ہیں کہ آپ کے اوپراللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔ آپ کی دعائیں قبول کی جائیں اور دنیا میں آپ ایک معزز قوم بن کر رہیں۔”
فرشتوں کا یہ کلام میرے لئے تازیانہ عبرت ثابت ہوا۔ میں نے اپنا محاسبہ کیا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ دل کا غبار آنکھوں سے پانی بن کر نکلا تو میرے اندر کی نظر پر دُھند چھا گئی اور کیفیت ٹوٹ گئی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 43 تا 48
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔