علم سیارگان
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19178
گیارہ ستارے اور سورج اور چاند کا سجدہ کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کو علم سیارگان بروج، سیاروں کی کشش اور مقداروں کا علم عطا کیا ہے۔ افلاک، زمین، سموات، ملائکہ۔ خلاء، خلاء میں ستارے اور سیارے ایک لگے بندھے قانون کے پابند ہیں۔ خلاء میں ہر سیارہ اپنے مدار پر تیر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک معین فاصلہ پر دوسرا سیارہ گھوم رہا ہے۔ کوئی سیارہ نہ تو ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے اور نہ ایک دوسرے سیارے کی حرکت میں مزاحم ہوتا ہے۔
’’ اور سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے۔ یہ خدائے غالب و دانا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔‘‘
(سورۃ یٰس۔ ۳۸)
’’یہ تجھ سے نیا چاند نکلنے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دے کہ وہ لوگوں کے اور حج کے واسطے اوقات ہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ ۱۸۹)
’’بے شک مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے۔ کتاب الٰہی میں جس روز سے اس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار عزت والے ہیں۔‘‘
(سورۃ توبہ۔ ۳۶)
’’وہی ہے قادر مطلق جس نے سورج کو چمکتا ہوا اور چاند کو نورانی بنایا اور چاند کی چال کے لئے منزلیں مقرر کیں تا کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لیا کرو۔‘‘
(سورۃ یونس۔۵)
’’اور اس نے آفتاب اور ماہتاب کو ایک کام پر لگایا۔ سب وقت مقرر تک چلتے رہتے ہیں۔‘‘
’’اور خدا نے تمہارے فائدے کے لئے چاند اور سورج کو مسخر بنایا اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں۔‘‘
(سورۃ نحل۔ ۱۲)
’’اور ستارے سے وہ راستہ پاتے ہیں۔‘‘
(سورۃ نحل۔۱۶)
’’وہ قادر مطلق جس نے رات اور دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔‘‘
(سورۃ الانبیاء۔ ۳۳)
’’کیا تم نے خیال نہیں کیا اپنے پروردگار کی طرف کہ وہ کیسے سایہ بڑھاتا ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کو ساکن کر دے۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک دلیل بنایا۔‘‘
(سورۃ فرقان۔ ۴۵)
’’اور اس نے سورج اور چاند کو اپنی قدرت سے مسخر بنایا۔ ہر ایک معیاد مقرر تک چل رہا ہے۔‘‘
(سورۃ فاطر۔ ۲۹)
’’اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔‘‘
(سورۃ یٰس: ۳۸۔۴۰)
اللہ تعالیٰ نے ہر سیارے کے لئے مقداریں متعین کر دی ہیں۔ ان مقداروں کا علم ہی جیومیٹری ہے۔ جیومیٹری ایسے فارمولوں کا علم ہے جس میں تمام کہکشانی نظام اور لاشمار دنیاؤں کی زمین شامل ہے۔ شمالاً جنوباً لہروں کا چلنا اور ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر اپنا ’’تعامل‘‘ برقرار رکھنا بھی جیومیٹری یا مقداروں کا علم ہے۔ حضرت یوسفؑ کو اللہ تعالیٰ نے خواب اور کشش کا قانون سکھایا ہے۔
اس لئے کشش ثقل اور جن لہروں نے زمین کی بیلٹ (Belt) کو سنبھالا ہوا ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کے تابع کر دیا۔
اسی قانون اور جیومیٹری کے تحت انہوں نے اہرام مصر بنائے بعد میں یہ فارمولا دوسرے سائنسدان بھی جان گئے اور جگہ جگہ اہرام مصر کھڑے ہو گئے۔ مفسرین کرام میرے لئے نہایت قابل احترام ہیں لیکن گیارہ ستاروں کی تاویل، گیارہ بھائی، سورج کی تاویل، باپ اور چاند کی تاویل ماں کسی بھی طرح شعوری قبولیت میں نہیں آتی۔
قرآن حکیم نے گیارہ ستاروں، سورج اور چاند کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ حضرت یوسفؑ کو سجدہ کر رہے ہیں یعنی حضرت یوسفؑ کی حاکمیت تسلیم کرتے ہیں اور حاکمیت علم کے زیر اثر ہوتی ہے۔ جیسے حضرت آدم ؑ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ہم نے آدم کو علم الاسماء سکھایا اور کہا فرشتوں کے سامنے بیان کر۔۔۔۔۔۔فرشتوں نے اعتراف کیا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ جتنا علم ہمیں سکھایا گیا ہے۔
اور فرشتوں نے آدم کی حاکمیت تسلیم کر لی۔ حضرت یعقوبؑ نے خواب کی تعبیر میں فرمایا!
’’بلا شبہ شیطان انسان کے لئے کھلا دشمن ہے اور اس طرح تیرا پروردگار تجھ کو برگزیدہ کرے گا اور سکھائے گا تاویل احادیث (اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملے کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہہ کو پا لینے کے قابل ہو جائے گا) اور اپنی نعمت کو تجھ پر اور اولاد یعقوب پر تمام کرے گا۔ جس طرح کہ اس نعمت کو پورا کیا تیرے اجداد پر پہلے سے۔ ابراہیم و اسحٰق پر۔ بے شک تیرا پروردگار جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملے کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہہ کو پا لینے کے قابل ہو جائے گا۔ حقیقت رسی، بصیرت، گہرائی کا ادراک بتاتا ہے کہ حضرت یوسفؑ کو کائناتی عناصر نے سجدہ کیا ہے۔ جس میں ستارے اور سورج اور چاند نظام ہائے افلاک شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’بے شک تیرا رب جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 206 تا 208
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔